پاکستان کے پاس یہ آخری موقع ہے؟

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 22 فروری 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ترقی یافتہ ملکوں میں 21 ویں صدی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قومی مفادات کے حصول کے لیے آخری حد تک جانا پڑے تو چلے جائیں، اس لیے چین اپنی تجارت کے لیے فاصلوں کو سمیٹ رہا ہے، اس کے لیے اُس نے One Belt, One Road(OBOR)کا منصوبہ بنا یا ہوا ہے۔ یہ ٹریلینز ڈالر کا منصوبہ ہے جس میں کم و بیش 60 ممالک اور 116بڑے منصوبے شامل ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ(OBOR)کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ایک زمینی اور دوسرا بحری راستہ۔ زمینی راستے کو بھی اُس نے چھ بڑے اکنامک کاریڈورز میں تقسیم کیاہے، جس میں سے ایک سی پیک ہے۔ایک روٹ نیپال، ایک بنگلہ دیش، ایک انڈیا، ایک ایران، ایک منگولیا تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ تمام زمینی راستے چین کی تجارت کو فروغ دینے اور ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے کم و بیش پورے ایشیا سے ہوتے ہوئے یورپ تک پہنچتے ہیں۔ بحری راستے سے جنوب مشرقی ایشیا سے ہوتے ہوئے افریقہ اور عرب کے بیچ سے گزر کر بری اور بحری راستے کو آپس میں ملا رہے ہیں۔ لہٰذا OBOR معاشی دنیا کے گرد ایک لکیر ہے جو چین کھینچ رہا ہے۔ یہ ایک ’’گریٹ گیم‘‘ ہے اور اس گریٹ گیم میں ’’گوادر‘‘ کا کردار بہت اہم ہے۔

اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے معاہدے گئے۔ 20 اپریل 2015ء کو پاکستان میں چینی صدر کے دورے کے دوران، مختلف شعبوں میں مفاہمت کی 51 یادداشتوں پر دستخط ہوئے تھے۔جن کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے، گوادر سے کاشغر تک تقریباً 2442 کلومیٹر طویل ہے۔یہ منصوبہ مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے، اس پر کل 46 بلین ڈالر لاگت کا اندازہ کیا گیا ہے، جو بڑھ کر 80 سے 100ارب ڈالر تک بھی جا سکتا ہے۔

اب جب کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد ان معاہدوں کی تفصیلات سامنے لائی گئیں تو موجودہ حکومت نے چند اقدامات کیے اور عرب دوست ممالک کو اُن کی خواہش پر ساتھ ملانے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کیا۔ اس کے لیے چین کو راضی کرنا بھی واقعی ایک کٹھن کام تھا مگر وہ راضی ہوگیا اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا حالیہ دورہ پاکستان اس اہم ترین کام کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز ہے، اس سے پہلے اگر سعودی عرب کی بات کر لی جائے تو بہتر ہے۔

سعودی عرب اور امریکی اسٹیبلشمنٹ میں نائن الیون کے وقت سے ایک کھٹ پٹ چلی آرہی تھی۔ نائن الیون کے حملہ آوروں میں اکثریت سعودی شہریوں کی تھی۔ امریکا کے سخت گیر پالیسی سازوں نے اسی بنا پر سعودی عرب کو نشانے پر رکھ لیا تھا۔ پاکستان بھی اسی وقت سے امریکا کے نشانے پر تھا۔ سعودی عرب مہارت سے اس دلدل سے نکل آیا تھا مگر اس کے بعد سعودی عرب کی قیادت کو یہ احساس ہوا کہ امریکا پر انحصار کم کیے بغیرکوئی چارہ نہیں۔ امریکا اور سعودی عرب کے اقتصادی اور دفاعی تعلقات آج بھی عروج پر ہیں مگر دونوں میں ہم آہنگی کی پرانی سطح شاید اب باقی نہیں۔

امریکی مدد سے شروع ہونے والی عرب بہار کی لہر کو سعودی عرب نے بہت مشکل سے اپنی حدود سے باہر روکنے میں کامیابی حاصل کی۔انھی تجربات اور حوادث نے سعودی عرب کو نئے راستوں اور نئے دوستوں کی تلاش کے سفر پر روانہ کیا ہے۔ تلاش کا یہی سفر سعودی عرب کو پاک چین اقتصادی راہداری میں شراکت داری کی جانب مائل کر تا رہا۔

سعودی عرب کوسرمایہ کاری کانفرنس میں مغرب سے ’’لات‘‘ بھی پڑی ہے، اسی لیے وہ دیگرملکوں میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ لہٰذاسعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران میں دونوں ملکوں میں مختلف شعبوں میں تعاون کے بیس ارب ڈالر کے منصوبوں کے معاہدات ہو گئے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ، یو اے ای اور قطر کے معاہدوں کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو یہ چین کی انوسٹمنٹ کے برابر رقم بنے گی۔خوشگوار بات یہ ہے کہ چین کو بھی ان برادر ممالک کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

کیا چین اور دیگر ممالک کے پاکستان کے ساتھ بیک وقت معاہدوں سے یہ نہیں لگتا کہ قسمت کی دیوی خان صاحب پر مہربان ہو گئی ہے ۔ وطن عزیز کو پہلا موقع 60ء کی دہائی میں ملا جب پاکستان نے چین اور امریکا کی خفیہ دوستی کرائی تھی، امریکی حکام پریشان تھے کہ اس خدمت کے صلے میں نہ جانے پاکستان ہم سے کیا ڈیمانڈ کرے گا۔ مگر امریکی اُس وقت حیران رہ گئے جب قومی مفاد میں ’’ڈیمانڈ‘‘ کی جگہ محض معمولی ’’ذاتی امداد‘‘ تک محدود رہ گیا۔ دوسرا بڑا موقع جنرل ضیاء الحق دور میں آیا ۔ اُس وقت بھی ہمارے پالیسی سازوں نے ذاتی ترجیحات کو سامنے رکھا۔ حالیہ تاریخ میں دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان نے مشرف کی سرپرستی میں ’’فرنٹ‘‘ لائن کا کردار ادا کیا تو پاکستان کو بجائے فائدے کے اپنا 100 ارب ڈالر کا نقصان اور 70 ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔

اب قدرت ایک بار پھر پاکستان پر مہربان ہوئی ہے۔ کیوں کہ بدلتے عالمی حالات میں جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس اہم اور گولڈن مواقع کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم اس اہم موقع کو دانشمندی کے ساتھ استعمال کریں تو پاکستان کے پیرس بننے کا وقت آگیا ہے۔ ہماری دانشمندی یہ ہونی چاہیے کہ دونوں فریقین میں سے ہم سے کوئی متنفر نہ ہو۔

پھر ایک اور اہم بات یہ بھی تھی کہ سابقہ حکومت نے اس معاہدے کی بہت سی شرائط کو مبہم رکھا، موجودہ حکومت کئی ایک معاہدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہتی ہے تو چینی سرکار قدرے نالاں دکھائی دیتی ہے۔لہٰذا  ایک اچھی اور قابل ٹیم بنائی جائے جو ان تمام شرائط کو دیکھے، وہ ٹیم پاکستان اور سعودی کے درمیان معاہدوں کی شقوں کو بھی دیکھے اور پاکستان جو آئل ریفائنری کے حوالے سے گوادر میں جگہ دینا چاہ رہا ہے اُس حوالے سے عالمی قوانین کے مطابق معاہدے اور اُن پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ یہ ایسی ٹیم نہ ہو جو اُن سے کمیشنیں وصول کرکے اُن کی مرضی کے مطابق فیصلے مسلط  کرا دے ، اور نہ ہی ایسی ٹیم ہو جو پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرے، جس طرح پاکستان میں آج تک ہوتا آیا ہے۔

بہرکیف یہ ہمارے پاس گولڈن چانس ہے، جس سے ہماری تقدیر بدل سکتی ہے۔ اگر ہم نے پھر معاہدہ سندھ طاس کی طرح کر دیا گیا تو ہم مارے جائیں گے، یا اگر ہم نے رکو ڈک کی طرز پر معاہدہ کر دیا تو ہم پھر بھی مارے جائیں گے۔ اب جوبھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات یا چین معاہدے کر رہا ہے تو کم از کم اُس کی شرائط تو عوام کے سامنے رکھی جائیں۔ یعنی سب کچھ واضح ہو۔جب کہ دوسری طرف یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ چین بھی ناراض نہ ہو، اس لیے میں پھر یہی کہوں گا کہ اس حوالے سے ہمیں ہر حال میں بہترین ٹیم درکار ہے، جو بہترین سفارتکاری کا تجربہ بھی رکھتی ہو۔

لہٰذاعمران خان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر ایک تھنک ٹینک بنائیں جو ہر معاہدے کی شفافیت کی جانچ پڑتال کرے۔ایسی ٹیم نہ بنائی جائے جو متنازعہ ہو۔کیوں کہ ابھی تو محض مہمندڈیم کی بڈ پر ہی رولا پڑ گیا تھا، جس کے معاہدے پر ہی انگلیاں اُٹھنا شروع ہوگئیں تھیں۔ لہٰذا  ہمیں بے غرض لوگوں کی ضرورت ہے، خود وزیر اعظم اُس ٹیم کی سربراہی کریں تاکہ ملکی مفاد میں کام کیا جاسکے اور یقینا یہی ملک کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا اور شاید یہی پاکستان کے پاس آخری موقع بھی ہو!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔