ایران اور یورپی یونین 

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 22 فروری 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

برطانوی حکومت نے ایران اور دیگر ملکوں کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو امریکی پابندیوں سے بچانے سے متعلق یورپی ضابطوں کو قومی قانون کا حصہ بنانے کی منظوری دے دی۔ برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کے بلاکنگ اسٹیٹس کو قانون کا حصہ بنائے جانے کے بعد برطانوی کمپنیاں ایران کے ساتھ اپنے تجارتی لین دین کا سلسلہ جاری رکھ سکیں گی۔

برطانیہ کے نیشنل آرکیوز کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک دستاویز کے مطابق یورپی یونین کے بلاکنگ اسٹیٹس کو قانون کا حصہ بنانے کا بل دسمبر 2018 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا اور رواں ماہ کے دوران اراکین پارلیمنٹ نے اس کی منظوری دی تھی، ادھر جرمنی کے لیے امریکی سفیر رچرڈ گرینل نے  ایک جرمن اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یورپی یونین امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی سے باز رہے ۔‘‘

امریکا عشروں سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگاتا چلا آ رہا ہے، ان پابندیوں کا مقصد ایران  پر اسرائیل کے خلاف سرگرمیوں کو روکنا ہے ۔ ایران کے خلاف امریکی رویوں کا یہ سلسلہ عشروں سے چل رہا ہے، اس دوران امریکا میں کئی بار انتخابات ہوئے اور کئی صدر برسر اقتدار آئے لیکن امریکی حکومت کی ایران دشمنی کی پالیسی میں کوئی فرق نہ آیا۔ جب سے موجودہ صدر ٹرمپ برسر اقتدار آئے ہیں ایران دشمنی میں اور اضافہ ہو گیا ہے ۔ امریکا کے ایران کے ساتھ براہ راست ایسے کوئی شدید اختلافات نہیں، ایران کی ایٹمی پالیسی کے خلاف اگرچہ امریکا کا رویہ بہ ظاہر اصولی تھا لیکن اصولی ہونے کے ساتھ امتیازی بھی تھا۔

ایران اس خطے میں اسرائیل کا واحد حریف ہے اور امریکا اسرائیل کے حریف کو اپنا حریف سمجھتا ہے، کیونکہ ایران اس خطے میں اسرائیل کی داداگیری کے خلاف آواز اٹھانے والا واحد ملک ہے۔ ایران کی یہ جرأت رندانہ امریکا کے لیے خطرے کی گھنٹی اس لیے بنی ہوئی ہے کہ ایران خطے میں اسرائیلی برتری کو چیلنج کرنے والا واحد ملک ہے اور پورے خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی کا فرض اپنے قیام کے بعد سے پوری دلجمعی کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔ جب بھی ایران کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کھنچاؤ آتا ہے، امریکا ایران کو دبانے کے لیے اقتصادی پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ ماضی قریب تک ایران کے خلاف ایٹمی مسئلے پر امریکا کی داداگیری چلتی رہی۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایران سے امریکا کو کوئی خطرہ ہے؟ اس کا جواب بڑا واضح ہے کہ ایران ایک چھوٹا سا اقتصادی حوالے سے پسماندہ ملک ہے۔ ایران کا شمار خطے کے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے ، ایران کی معیشت میں تیل کا نہایت اہم کردار ہے اور امریکا اسرائیل کی حمایت میں ہمیشہ تیل پر پابندی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا آ رہا ہے، یوں اس بلیک میلنگ سے امریکا ایران کی اقتصادی زندگی کو مفلوج کر کے ایران کو اسرائیل کے خلاف دباؤ کا توڑ کرتا آ رہا ہے۔ سامراجی ملکوں کا یہ وتیرہ بلیک میلنگ بنا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے خطے کے مسلم ممالک خاص طور پر عرب ممالک امریکا کے اتحادی بنے ہوئے ہیں، جس کا فائدہ اسرائیل اٹھاتا ہے۔

عرب ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں کہیں جمہوریت نہیں ہے جب کہ ایران ایک مذہبی حکومت ہونے کے باوجود ایک جمہوری ملک ہے اور ایران میں برسراقتدار آنے والے حکمران عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہو کر اقتدار میں آتے ہیں۔ اس لیے ایران کے حکمرانوں کو عوام کی حمایت حاصل رہتی ہے، یوں سازشوں کے ذریعے ایرانی حکومتوں کو نقصان پہنچانا، امریکا کے لیے آسان نہیں رہتا جب کہ عرب ملکوں میں جمہوریت کا نام و نشان نہیں ملتا۔ جس کی وجہ عرب بادشاہوں کا اقتدار بہت کمزور رہتا ہے، عرب بادشاہوں اور شیوخ کو اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے امریکا جیسے طاقتور ملک کی ضرورت ہوتی ہے۔

یوں امریکا عرب حکمرانوں کی ایک ایسی کمزوری بنا ہوا ہے جس سے عرب حکمرانوں کی نجات ممکن نہیں۔ امریکا عرب ملکوں کے حکمرانوں اور ان کی حکمرانی کے تحفظ کے بدلے تیل پر اجارہ داری رکھتا ہے، یہ صورتحال اب زیادہ عرصہ قائم رہتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ یورپی یونین نے ایران پر پابندیوں کے خاتمے کا بل پاس کر کے ایران سے تجارت کی جو راہ ہموار کی ہے اس سے امریکا سخت ناراض ہے کیونکہ اس بل کے پاس ہونے سے جہاں یورپی ملکوں کو امریکی دباؤ سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے وہیں ایران کو تجارتی فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔

امریکا افغانستان کی جنگ میں عرصے سے الجھا ہوا ہے، امریکا کو ہی نہیں بلکہ اس کے اتحادیوں کو بھی اس دوران بھاری جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کو سابق امریکی صدر بش نے زبردستی اپنا اتحادی بنایا، اس اتحاد کے نتیجے میں پاکستان کو 70 ہزار پاکستانیوں کی جان کا اور دو ارب ڈالر سے زیادہ مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ، جنگوں سے ہمیشہ انسانوں کا جانی اور مالی نقصان ہی ہوتا آیا ہے، دنیا میں ہونے والی جنگوں کے فیصلے حکمران ہی کرتے رہے ہیں، ان جنگوں میں نام تو قومی مفادات کا ہی استعمال ہوتا رہا جب کہ جنگیں ہمیشہ اشرافیہ کے مفادات ہی میں رہتی ہیں۔ جنگوں میں اربوں ڈالر کا ہتھیار استعمال ہوتا ہے اور ہتھیاروں کی انڈسٹری کسی مزدور کسان کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ اشرافیہ کی ملکیت ہوتی ہے۔

افغانستان کی عشروں پر پھیلی ہوئی جنگ کے نقصانات نے ٹرمپ جیسے جنگجو امریکی صدر کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ہم اب اس جنگ سے تھک چکے ہیں، اب اس جنگ کو ختم ہونا چاہیے چنانچہ امریکا اور افغانستان نے جنگ ختم کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ اب ایران اقتصادی جنگ بھی امریکا کو تھکا دے گی اور اسرائیل کی غیر منطقی حمایت ختم کر کے اب امریکا کو ایران سے بھی تعلقات بہتر کرنا ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔