مسئلہ اخلاقی تنزلی کا ہے!

راؤ منظر حیات  ہفتہ 23 فروری 2019
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

کرس کولنز(Chris Collinns)نیویارک سے الیکشن میں کامیاب سینیٹرہے۔امریکا کی موجودہ اسمبلی کا بھرپورحصہ۔کرس بنیادی طورپرسیاست کا کھلاڑی نہیں تھا۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کرنے والاایک متحرک شخص۔جس کمپنی میں بھی کام کرتا،اس کی ساکھ میں اضافہ ہوجاتااوراس کے ساتھ ساتھ کرس کی جائزدولت میں بھی۔

چھتیس برس مسلسل نجی شعبہ میں کام کرنے کے بعدکولنزنے سیاست میں آنے کافیصلہ کیا۔2012سے اب تک وہ کانگریس کا تیسری بارممبربن چکاہے۔مگراس کی اصل طاقت دولت اور سرمایہ نہیں بلکہ صدرٹرمپ کے ساتھ انتہائی قربت کے تعلقات ہیں۔ وہ ان پہلے سیاستدانوں میں تھاجنہوں نے ٹرمپ کوالیکشن لڑنے پرآمادہ کیا اورپھراسے کامیاب کروانے کے لیے بھرپور محنت کی۔ اسے صدرکامکمل اعتمادبھی حاصل تھا اورساتھ ساتھ وہ کانگریس کی کمیٹی برائے انرجی کابھی چیئرمین تھا۔

یہ کمیٹی کوئی معمولی سطح کی نہیں بلکہ انتہائی طاقتور قدکاٹھ کی ہوتی ہے۔تین دہائیوں سے زیادہ نجی شعبہ میں کام کرنے کے بعدجب کرس،سیاست کے مشکل میدان میں آیا تو ایک بائوٹیک کمپنی اینیٹ Innate کا بھرپور شیئر ہولڈر تھا۔ آسٹریلیاکی اس کمپنی کے ساٹھ فیصد سے زیادہ حصص کرس کی ملکیت تھے۔ دولت، عزت،شہرت اور تابناک مستقبل کرس کے قدموں میں تھا۔ مگر اگست 2018 کے بعد ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔

پچھلے سال آٹھ اگست کواسے نیویارک سے گرفتار کرلیا گیا۔جب عدالت میں پیش کیا گیا، تو کرس نے کہاکہ نہ تو اس نے رشوت لی ہے، نہ کسی کی جائیدادپرقبضہ کیاہے، نہ ہی کسی کوناجائزنوکری دی ہے،لہٰذااس کی گرفتاری بلاجواز ہے۔ ویسے پوری دنیامیں جب بھی کسی سیاستدان کوعدالت میں پیش کیا جاتاہے،تووہ یہی کہتاہے کہ بے قصورہے۔اس کے وکیل نے عدالت کو بار بار بتانے کی کوشش کی کہ کرس نے تو کوئی جرم نہیں کیا۔جواب میں جوف برنین (Geoff Bernan) جو کہ پراسیکیوشن کاعبوری وکیل تھا،نے ایک تاریخی جملہ کہا۔یہ سونے میں تولنے والافقرہ تھا۔

’’کرس  نے اپنا ذاتی مفاد،عام لوگوں کے فائدے سے برتررکھااوریہ بہت سنگین جرم ہے‘‘۔یہ فقرہ امریکی نظام کوحددرجہ توانا کرتا ہے۔ ہمارے جیسے ظالم سماج کے لیے موجودہ حالات میں ایک بھرپورسبق بھی ہوسکتاہے۔ویسے ہمارے لیے تو کوئی بھی واقعہ سبق نہیں۔سیکھنے کے لیے توظرف اور کوئی شرم ہونی چاہیے۔مگربدقسمتی سے برصغیر کا مقتدر طبقہ ڈھائی ہزار سال سے ان خوبیوں سے محروم ہے۔ماضی میں بھی اور موجودہ حالات میں بھی۔

کرس کاجرم کیاتھا۔معاملہ یوں ہواکہ کرس ایک سرکاری کام سے واشنگٹن گیاہواتھا۔وائٹ ہائوس میں تقریب میں حصہ لیناتھا۔ٹرمپ کے ساتھ باتیں کرتے کرتے اسے ایک ای میل موصول ہوئی کہ اینیٹ کمپنی نے جوفنی تجربات کیے تھے،وہ ناکام ہوگئے ہیں۔یہ کمپنی کی مالیاتی ساکھ کے لیے حددرجہ خطرناک بات ہے۔ای میل، اینیٹ کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدارکی طرف سے دی گئی تھی۔ کرس کومطلع کرنے کی وجہ بھی جائزتھی۔

کمپنی کے اکثریتی حصص کا مالک وہ خودتھا۔جیسے ہی یہ اطلاع ملی،کرس میٹنگ سے باہر آیا۔اپنے بیٹے کیمرون کوخبردی کہ تجرباتی ناکامی کی بدولت، کمپنی کواَزحدنقصان ہونے والا ہے۔لہٰذا فوراً اسٹاک مارکیٹ میں اپنے حصص فروخت کردے۔کیمرون نے اس اطلاع پراسٹاک بروکر کو ذاتی حصص فروخت کرنے کاحکم دیدیا۔تمام حصص اس دن کے نرخوں کے مطابق فروخت کر  دیے گئے۔

اگلے دن، جب وہ خبرجوصرف اورصرف کرس اوراس کے بیٹے کے پاس تھی،مارکیٹ میں گئی تواینیٹ کمپنی کے حصص بری طرح متاثر ہوئے۔ان کی مجموعی قیمت حددرجہ گر گئی۔ مگر کولنز، اسکا بیٹا کیمرون نقصان سے بچ گئے۔مجموعی طورپرسات لاکھ،اَسی ہزارڈالرکے مجموعی نقصان سے بچت ہوگئی۔یادرہے کہ کرس کے خاندان کوفائدہ بالکل نہیں ہوا۔ اسکوصرف اورصرف بروقت خبرملنے سے نقصان نہ اُٹھانا پڑا۔ آپکوعلم ہے کہ کرس نے کیا جرم کیا۔عدالت میں کیاالزام لگایاگیا۔

’’کرس نے بطور سیاستدان،عوام کوبروقت مطلع نہیں کیاکہ اینیٹ کمپنی کے حصص گرجائینگے اورلوگوں کا نقصان ہونے دیا۔اس نے اپنے خاندان کومالیاتی نقصان سے محفوظ کرلیا‘‘۔عدالت میں استغاثہ کے وکیل نے برملا کہا کہ ’’کرس نے ذاتی مفاد کو ہر طریقے سے عوامی مفادسے اعلیٰ رکھا،لہٰذااس نے امریکی عوام، نظام عدل اورلوگوں کے اعتماد کودھوکا دیا ہے۔اسے یہ معلومات عوام تک پہلے پہنچانی چاہیے تھیں‘‘۔

Inside Tradingسے کرس نے اپنے عہدہ، حلف اورضابطہ کی بھرپور توہین کی ہے۔عدالت نے کرس کواس جرم میں جیل بھیج دیا۔ بہترین وکلاء بھی اپنے ملزم کی کوئی مددنہ کرسکے۔اسکاتابناک سیاسی مستقبل برباد ہوگیا۔ ضمانت پررہاہونے کے بعد، جب وہ ایوان میں پہنچا تو اسپیکر نے رولنگ دی،کہ کرس نے عوامی اعتمادکودھوکا دیا ہے۔ لہٰذا اسے کمیٹی برائے توانائی سے برطرف کیا جاتا ہے۔کمیٹی برائے اخلاقی اقدارEthics Committee نے برملا کہا کہ کرس نے بھیانک جرم کیا ہے۔ لہٰذا اسے مستقبل میں کسی بھی کمیٹی کاممبرنہ بنایا جائے۔

اگر عدالت کا حکم اس کے حق میں آبھی جائے،تب بھی اسے کسی کمیٹی کا ممبر نہیں بننے دیا جائیگا۔اخلاقی اقدار سیاست کا سب سے سنہری اُصول ہے اورکرس نے اس اُصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ نیویارک کا ذہین سیاستدان آج خاک چاٹ رہا ہے۔ امریکی صدر جو آج بھی دنیاکاطاقتورترین انسان ہے، اسے جرات نہ ہوپائی کہ کرس کے حق میں معمولی سابیان بھی دے ڈالے۔وائٹ ہائوس کے صدارتی ترجمان نے کسی سطح پر بھی کرس کی حمایت نہیں کی۔ بلکہ ایک تہذیب یافتہ خاموشی روارکھی۔

اس واقعے کے تناظرمیں ملکی سیاست کو دیکھیے۔ ایک لمحہ میں اندازہ ہوجائیگا،کہ ہماری سیاست اور طرزِ حکومت میں کسی قسم کاکوئی اعلیٰ اخلاقی اُصول کارفرما نہیں ہے۔تیس سال کی سیاست میں نوازشریف صاحب اور ان کا خاندان، زرداری صاحب اوران کی اَل اولاد، سب سے نمایاں حیثیت کے مالک ہیں۔یہ خاندان کس طرح کام کرتے رہے۔کس طرح دولت کی ریل پیل ہوئی، کس طرح پاکستان نہیں، دنیا کے امیرترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔

یہ سب انہونیاں ہماری آنکھوں کے سامنے برپاہوئی ہیں۔تلخ بات نہیں لکھنا چاہتا۔ان لوگوں کی ترقی کی بدولت اگرملک امیر ہو جاتاتوبخدایہ گھاٹے کاسودا نہیں تھا۔مگران کی بے پناہ دولت کی وجہ سے ملک کے نناوے فیصد لوگ، مفلسی کی تاریکی میں گم ہوگئے۔جیسے جیسے ان کے ذاتی خزانے بھرتے چلے گئے، عوام کے چہروں پر رونق ختم ہوتی گئی۔عوامی حقوق پر ملال بڑھتا گیا۔ ان دونوں خاندانوں نے عملی طور پر ریاستی طاقت کا سہارا لے کر حددرجہ ترقی کی۔

آج اگرکوئی ادارہ صرف ان سے یا ان کے حواریوں سے یہ پوچھنے کی جرات کرے،کہ جناب یہ دولت کہاں سے آئی ہے تو کہرام مچا دیا جاتا ہے۔ پورے جمہوری نظام کی تباہی کی نویدسنائی جاتی ہے۔ نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی سے معاملات کو پرکھیے۔ انھیں صفائی کا بھرپور موقع دینے کے بعدعدالت عظمیٰ نے اپنے عہدے سے ہٹا دیا۔ جرم کیاتھاکہ وہ اخلاقی اقدارکے حوالے سے اس عہدہ کے قابل نہیں ہیں۔

آج بھی وہ عدالت سے سزایافتہ ہیں۔مگران کی سیاسی جماعت، انکا دفاع اس طرح کرنے کی کوشش کررہی ہے،جیسے ان کے ساتھ حددرجہ زیادتی ہوئی ہے۔پبلک میں یہ لوگ ہرطرح سے آل شریف کومعصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جب نجی محفلوں میں بات کی جائے،تو برملا مالیاتی بے ضابطگی کا اظہار کرتے ہیں۔رشوت کوکمال عروج دیا ہے۔ موجودہ حکومت کاجرم صرف ایک ہے۔ ان کی جرات کیسے ہوئی کہ پاکستان کے مضبوط ترین لوگوں کاواجبی سااحتساب کرنے کی کوشش کریں۔

زرداری صاحب کے بیانات دیکھیے۔بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ تیس برس سے کیاکر رہے ہیں۔ انھوں نے ملک کی سب سے طاقتور سیاسی جماعت کو کمزور کر کے صرف اور صرف اپنے حواریوں کوپیہم اقتدار میں رہنے دیا۔ اربوں روپوں کی بے ضابطگی کے بعدبھی وہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی ہورہی ہے۔یہ نہیں بتاتے کہ جعلی اکائونٹوں میں اتنی بھاری رقم کیسے آئی۔ کہاں گئی۔ مگر قیامت کاشورہے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ صاحبان! ظلم توان خاندانوں نے ملک کے ساتھ کیا ہے۔

اسی تناظرمیں دیکھیے تومحترم شہبازشریف اپنا روایتی بیان ہرجگہ دہراتے ہیں کہ ان پرکرپشن کا کوئی الزام ثابت ہوجائے تووہ سیاست چھوڑ دینگے۔ انھیں معلوم ہے کہ اس ملک میں وائٹ کالرجرائم کو ثابت کرناحددرجہ مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔یہاں ریکارڈکوغائب کرنے سے لے کردھونس تک، آپ ہرایک ادارہ کودبائومیں لانے کی کامیاب کوشش کرسکتے ہیں۔ہمارا نظام اس درجہ ادنیٰ ہے کہ اس میں ہر چیز ممکن ہے مگرانصاف ہوناہرگزہرگزممکن نہیں ہے۔عجیب بات ہے کہ دودن پہلے سندھ کے اسپیکرکی گرفتاری پران کے گھر کی تلاشی پر کہرام مچا ہواہے۔

مگرپیپلزپارٹی کاایک بھی رکن یہ نہیں کہہ رہا کہ انھوں نے دس سال کس طرح معاملات کو چلایا ہے۔امریکا میں کرس توصرف اپنے بیٹے کونقصان سے بچانے کے جرم میں تمام عمرسیاست سے باہر کر دیا جاتا ہے۔مگرہمارے ہاں کوئی بھی مقتدرشخص کسی بھی طرح اپنے آپکومجر م توکیا،ملزم تک نہیں سمجھتا۔ یہاں مسئلہ اخلاقی تنزلی کاہے۔کاش ہمارے ایوانوں میں بھی ایک طاقتور Ethics Committeeہوجوکہہ سکے کہ جناب آپ پر جو الزامات ہیں،اس کے بعدآپ اسمبلی میں کسی اہم حیثیت میں نہیں آسکتے۔مگریہ سب کچھ خواب ہے۔ صرف خواب۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔