سرکاری و نجی اسکولوں کے بھاری بستے بچوں کیلیے بوجھ بن گئے

صفدر رضوی  ہفتہ 23 فروری 2019
محکمہ تعلیم تعلیمی سیشن 2020 سے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے نصاب سے ایک ہی جلد میں کئی مضامین کی شامل کتابیں ختم کر کے علیحدہ چھاپے گی۔ فوٹو:فائل

محکمہ تعلیم تعلیمی سیشن 2020 سے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے نصاب سے ایک ہی جلد میں کئی مضامین کی شامل کتابیں ختم کر کے علیحدہ چھاپے گی۔ فوٹو:فائل

سرکاری اور نجی اسکولوں کے طلبہ وطالبات کے بھاری اسکول بستے (بیگ) کے وزن کے حوالے سے دلچسپ اورحیران کن اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔

’’ایکسپریس‘‘کی جانب سے سرکاری ونجی اسکولوں کے طلبہ اوران کے بیگز کے وزن کے سلسلے میں کیے گئے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ سرکاری اسکول کا ہر طالبعلم اوسطاً 6.89 کلو وزن کا بیگ اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے جبکہ اس بیگ میں اوسطاً 13.55 کتابیں ہوتی ہیں، نجی اسکول کا ہر طالبعلم اوسطاً 5.75 کلوکے بیگ کا وزن اپنے جسم پر برداشت کرتا ہے اوراس بیگ میں اوسطاً 15.15کتابیں موجود ہوتی ہیں۔

سرکاری اور نجی اسکولوں کے طلبہ کے بیگز کے وزن کی یہ اوسط شرح کراچی کے 4 مختلف پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے 40 طلبہ کے اسکول بیگز سے لی گئی ہے ان اسکولوں میں2 سرکاری اور 2 نجی اسکولوں کے بالترتیب 20، 20 طلبہ کے اسکول بیگز کاوزن کیا گیا ہے اور انہی 20، 20 اسکول بیگز کی بنیاد پر سرکاری اور نجی اسکولوں کے بیگز کی اوسط علیحدہ کی گئی ہے۔

ہر اسکول سے انفرادی طور پر پہلی سے دسویں جماعت کے 10 بیگز لیے گئے ہیں اور ہرکلاس سے ایک طالبعلم اور اس کا اسکول بیگ وزن کے لیے لیاگیا سرکاری اسکول کے دورے سے معلوم ہوا کہ کچھ کلاسوں کے بچوں کے اسکول بیگ کاوزن 8 سے 10کلوگرام تک چلاگیا ہے جبکہ ان کے بیگس میں مجموعی طورپر 18کتابیں اورکاپیاں پائی گئی۔

نجی اسکولوں کے دورے سے ظاہر ہوا کہ کچھ کلاسوں کے طلبہ کے اسکول بیگ کاوزن 9کلو جبکہ بیگ میں کاپیوں اورکتابوں کی مجموعی تعداد 22 تک چلی گئی تاہم سرکاری اور نجی اسکولوں کے طلبہ کے اسکول بیگز میں سے کچھ کے بیگز میں ان کی ٹیوشن کی کاپیاں اوررجسٹر بھی پائے گئے جو وہ اپنے ساتھ اسکول لائے ہوئے تھے تاہم 40 بیگز میں ان کی تعداد محدود تھی جبکہ طلبہ سے بات چیت کے دوران محض چندہی ایسے طلبہ سامنے آئے جو اکیڈمک شیڈول کومدنظررکھتے ہوئے اپنی کتابیں اورکاپیاں ساتھ لاتے ہیں۔

دوسری جانب سرکاری اسکول کے پرائمری کلاسز کے طلبہ کلاس شیڈول نہ ہونے کے باوجود متعلقہ مضمون کی کتابیں اس لیے اپنے ساتھ لانے پر مجبورہیں کہ ان کی کتابیں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے ایک ہی جلد میں فراہم کی گئی ہیں جسے ’’جیکٹ‘‘کانام دیاگیاہے۔

محکمہ تعلیم سندھ نے تعلیمی سیشن 2020سے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے نصاب سے ’’جیکٹ بیکس‘‘(ایک ہی جلدمیں کئی مضامین کی شامل کتابیں) ختم کرتے ہوئے انھیں علیحدہ علیحدہ چھاپنے کا فیصلہ کیاہے یہ فیصلہ اسکول بیگ میں بیک وقت کئی کتابوں کاوزن کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاہم 2019 کے تعلیمی سیشن کے لیے کتابیں چھاپنے کے لیے بھجوائے جاچکی ہیں لہذا فیصلہ فوری نافذ العمل نہیں ہو سکے گا۔

طلبہ پراسٹیشنری کابوجھ کم سے کم ہوناچاہیے،حامد کریم

ڈائریکٹراسکولزسکینڈری ایجوکیشن حامد کریم کا اس حوالے کہناتھاکہ کریکولم ونگ کی سربراہ ڈاکٹرفوزیہ خان کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں وہ بھی شریک تھے اور معاملے پر طویل غورہوا تھا تاہم پہلے اجلاس میں کوئی قابل قبول رائے نہیں آئی تھی مزید اجلاس ہونے ہیں حامد کریم کاکہناتھاکہ وہ ذاتی طورپریہ سمجھتے ہیں کہ سلیبس کوکم اور کتابوں کی تعدادکم ہونی چاہیے جبکہ طلبہ پر اسٹیشنری کابوجھ کم کرنے کے لیے بھی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

طلبہ کیلیے سرکاری اسکولوں میں الماریاں فراہم کرنے کی تجویز پرحامدکریم کا کہنا تھا کہ یہ تجویز اجلاس میں بھی زیرغورآئی تھی تاہم اس کے لیے سرکاری اسکولوں کے کلاس رومزمیں تالے ہونے چاہیے ان الماریوں کی حفاظت کے لیے اسکولوں میں چوکیدار کا ہونا ضروری ہے سرکاری اسکولوں میں چوکیداروں اور چپراسیوں کی حد یہ ہے کہ خاکروب تک موجود نہیں ہیں لہٰذا اگرالماریاں فراہم بھی کر دی جائیں تویہ منصوبہ بھی ناکام ہوسکتا ہے

اسکیم آف اسٹڈیز اور کلاس شیڈول کتاب کا جز بنا رہے ہیں، فوزیہ خان

محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کی کریکولم ونگ کی سربراہ ڈاکٹرفوزیہ خان سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن نے طلبہ کے کندھوں پر بھاری اسکول بیگز کے معاملے کے فوری حل کے لیے دو اہم اقدام کیے ہیں پہلے مرحلے میں اپریل سے شروع ہونے والے آئندہ تعلیمی سیشن 2019-20کے لیے چھپنے والے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی تمام نصابی کتابوں کے ساتھ ’’اسکیم آف اسٹڈیز‘‘ اور ’’کلاس شیڈول‘‘پرنٹ کر کے اسے کتاب کاجز بنایا جارہا ہے جوہرنصابی کتاب کے آخر میں اسی جلد میں موجود ہو گاجس کی مدد سے طلبہ اوران کے والدین کلاس شیڈول کے تناظر میں بیگ تیارکرسکیں گے اوراضافی کتابوں اور کاپیوں کا بوجھ نہیں ہوگا۔

’’ایکسپریس‘‘کے اس سوال پر کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے گزشتہ کئی برس سے پرائمری کلاسز کے مختلف مضامین کی کتابیں ایک ہی جلد میں فراہم کی جارہی ایسی صورت میں تو طلبہ شیڈول کاجزوی فائدہ اٹھاسکیں گے اوردیے گئے شیڈول کے مطابق صرف کاپیاں اسکول لے جاسکیں گے کتابیں ایک ساتھ ہی اسکول جائیں گی۔

ڈاکٹرفوزیہ خان نے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ اس بار کتابیں چھپنے جا چکی ہیں، تاہم تعلیمی سیشن 2020 سے جیکٹ سسٹم بھی ختم ہوجائے گا اور طلبہ کے لیے ہر مضمون کی کتاب علیحدہ شائع ہوگی جس کے بعدان کے بیگز سے مزید بوجھ کم ہوسکے گا۔

اسکول بیگس کاوزن کم کرنے کے سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات پرایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں متعلقہ شعبے کے معروف طبی ماہرین، نجی اسکولوں کے نمائندے اورکچھ سرکاری افسران شامل ہیں اس کمیٹی کاایک اجلاس ہوچکا ہے جس میں سرکاری اسکولوں میں طلبہ کے لیے الماریاں فراہم کرنے یا پھرکاپیوں کے بجائے ’’ای لرننگ‘‘کی تجاویز آئی ہیں تاہم ان دونوں تجاویز میں بجٹ سمیت کئی مشکلات درپیش ہیں۔

اسکولوں کے بھاری بستے بچوں کیلیے خطرناک ہیں، ڈاکٹرنندلال

سرکاری اور نجی اسکولوں میں بچوں کے بھاری اسکول بیگ جیسے سنجیدہ معاملے پر جب ’’ایکسپریس‘‘ نے ڈاکٹر روتھ فاؤ سول اسپتال کراچی کے شعبہ اطفال کے پروفیسر نند لال سے رابطہ کیا تو ان کاکہنا تھا کہ طلبہ کے بھاری اسکول بیگ وٹامن ڈی کی کمی کے حامل بچوں کے لیے انتہائی مضریاخطرناک ثابت ہورہے ہیں بچوں میں وٹامن ڈی کی ڈیفیشنسی پہلے ہی ان کی ’’گروتھ‘‘ میں رکاوٹ بنتی ہے تاہم جب وٹامن ڈی کی ڈیفیشنسی کے حامل بچے بھاری اسکول بیگ اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں توان کی گروتھ کامسئلہ مزید پیچیدہ ہوجاتاہے اگر وٹامن ڈی کا مسئلہ ہو ان پر بھاری بیگ لاد دیے جائیں تویہ بچوں کی صحت کو شدید متاثر کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی ہڈیاں درخت کی مانند ہے ان پر زیادہ وزن لٹکائیں گے تو یہ نیچے کی جانب جھکنا شروع ہو جائیں گی ڈاکٹر نندلعل کا کہنا تھا کہ بچوں میں ہڈیوں بالخصوص ریڑھ کی ہڈی یاگردن کے درد کے مسائل بڑھ رہے ہیں یہ بیگز کندھوں اورریڑھ کی ہڈی پر مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں ان اکثر بچے ٹانگوں میں درد، کمر درد یا گردن کے دردکی شکایت کے ساتھ آتے ہیں۔

بھاری اسکول بیگ ہاتھ میں پکڑنے سے کلائی کی ہڈی بڑھ گئی، طالبہ بتول زہرا

ساتویں جماعت کی نجی اسکول کی ایک طالبہ بتول زہرا سے اسکول کے بھاری بیگ کے حوالے سے دریافت کیا گیا تو بتول زہرا کا کہنا تھاکہ وہ کلاس شیڈول کے حساب سے اپنا بیگ تیارکرکے اسکول جاتی ہیں تاہم اس کے باوجودان کابیگ اتنا بھاری ہوتا ہے کہ وہ اسے کندھوں پر اٹھا نہیں سکتی ہاتھ میں بیگ پکڑتی تھی توکلائی کی ہڈی بڑھ گئی جس کے بعد ڈاکٹر نے سختی سے بیگ اٹھانے کومنع کردیا اب ان کے والدکلاس روم تک ان کا بیگ پہنچاتے ہیں اورچھٹی میں کوئی دوسری طالبہ یا ان کی ٹیچر بتول زہرا کا بیگ اس کے کندھے پر پہناتی ہیں۔

بیٹی کا او لیول کا بیگ اٹھا کر وین تک لے جانا مشکل ہو جاتا ہے، والد

ایک طالبہ کے والدمحمد افضال کاکہناتھاکہ ان کی بیٹی اولیول کی طالبہ ہے اس کا بیگ اٹھا کر وہ صرف اسکول وین تک لے جاتے ہیں تاہم یہ بیگ وہ باآسانی نہیں اٹھاپاتے محمد افضال کا کہنا تھا کہ وین سے بیگ کلاس تک میری بیٹی خود کس طرح لے جاتی ہے وہ اس مشکل کو محسوس کرسکتے ہیں۔

پہلی جماعت کا سرکاری اسکول بیگ 5 کلو وزنی اور طالبعلم کا اپنا وزن 20 کلو

سرکاری اسکولوں میں سے ایک اسکول کے پرائمری سیکشن سے پہلی سے پانچویں جماعت کے بیگز کا وزن بالترتیب 5 کلوگرام، 3 کلوگرام، 6.5 کلوگرام، 5 کلوگرام اور 5 کلوگرام تھا، قابل ذکربات ہے کہ پہلی جماعت کا جو طالب علم 5 ’’کے جی‘‘ کا بیگ اٹھاتا ہے اس کا اپنا وزن 20 کلو تھا۔

متعلقہ طالب علم کے بیگ میں 16کتابیں اور کاپیاں موجود تھیں جبکہ اسی سرکاری اسکول کے سکینڈری سیکشن میں چھٹی جماعت کے طالب علم کے بیگ کاوزن 8.5 کلوگرام اورنویں جماعت کی طالبہ کے بیگ کاوزن 10 کلوگرام تھا چھٹی جماعت کے اس بچے کاوزن 51 کلو اور اس کے بیگ میں 16 کتابیں اور کاپیاں رکھی ہوئی تھیں جبکہ 10کلوگرام کا بیگ اٹھانے والی نویں جماعت کی اس طالبہ کے بیگ میں مجموعی طورپر 13کتابیں اورکاپیاں تھیں جبکہ خود اس طالبہ کاوزن 35 کلوکے قریب تھا۔

اسی طرح ایک دوسرے سرکاری اسکول کی پہلی جماعت کے 18 کلوگرام وزن کے طالب علم کے بیگ کاوزن 4کلوگرام اور بیگ میں کتابوں کی تعداد 9 تھی اسی اسکول کی پانچویں جماعت کی طالبہ کا وزن 26 کلوگرام اوراس کے بیگ کاوزن 8 کلوگرام تھا اس کے بیگ میں 20 کتابیں تھیں اس اسکول کے سیکنڈری سیکشن کی پانچوں کلاسز سے لیے گئے5 مختلف بچوں یابچیوں میں سے کسی بھی طالب علم کے بیگ کا وزن 8 کلوگرام سے کم نہیں تھا جبکہ کتابوں کی تعدادبھی 15سے 21کے درمیان رہی۔

نجی اسکول میں تیسری جماعت کی بچی کا وزن 31 کلو اور بستہ 9 کلو وزنی

نجی اسکول میں تیسری جماعت کی ایک بچی کا اپنا وزن 31کلوگرام جبکہ اس کے بیگ کا وزن 9کلوگرام تھا اس بچی کے بیگ میں 22کتابیں اورکاپیاں موجود تھیں مذکورہ بیگ متعلقہ اسکول کے پہلی سے دسویں جماعت کے 10مختلف بچوں کے بیگ میں سب سے بھاری تھا تاہم اسی اسکول کے آٹھویں ،نویں اور دسویں جماعتوں کے بچوں کے بیگز کاوزن بالترتیب 2، 3 اور5 کلوگرام تھا جن میں بالترتیب 10، 7 اور 6 کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔

دوسرے نجی اسکول میں آٹھویں جماعت کی طالبہ کے بیگ کا وزن 8.5 کلو گرام جبکہ اس کا اپنا وزن 42کلوگرام تھا اس بچی کے بیگ میں 21کتابیں اورکاپیاں موجود تھیں یہ بیگ متعلقہ اسکول کے پہلی سے دسویں جماعت کے 10 مختلف بچوں کے بیگ میں سب سے بھاری تھا اسی اسکول کے ساتویں ،نویں اوردسویں جماعتوں کے طلبا و طالبات کے بیگز کاوزن بالترتیب 6.5، 7 اور 6.5 کلوگرام تھاجن میں بالترتیب 17،17اور 14 کتابیں رکھی ہوئی تھیں اس اسکول کاسب سے کم وزن کابیگ ساڑھے 4کلوگرام کاپہلی جماعت کے طالب علم کا تھاجس کاوزن 19کلو اوراس کی کتابیں 14تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔