من و سلویٰ

شاہد سردار  اتوار 24 فروری 2019

وطن عزیز میں جہاں بھی نگاہ کی جائے کھانا پینا ہی نظر آتا ہے۔ دیسی کھانے ، چائنیزکھانے،کانٹی نینٹل کھانے کے ساتھ کڑاہی، کُنّا، مندی، چکن کڑاہی،کوئلہ کڑاہی، کٹاکٹ، شوارما اور نہ جانے کون کون سے کھانوں کے نام خاصے معروف ہیں اور نہاری، قورمہ، بریانی اور سری پائے وغیرہ جیسے قدیم کھانے گو اب بھی رائج اور پسندیدہ ہیں لیکن آج کی نئی نسل اس سے دور ہوگئی ہے اور اس کی ساری دلچسپی اور توجہ کا مرکز ’’فاسٹ فوڈ‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔

ٹی وی چینلز پرکھانے کی تراکیب اور نسخے بہت غور سے دیکھے سنے لکھے اور ریکارڈ کیے جاتے ہیں، کھانے پکانے کی تیاری کے باقاعدہ میگزین اور رسالے شایع ہو رہے ہیں اور لگتا ہے ساری تخلیقی صلاحیتیں تعریفی جملے سبھی چٹ پٹے اور نت نئے کھانوں کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ خیال آتا ہے یہ سب کچھ دیکھ کر کہ شاید پاکستان کھانے پینے کے لیے ہی بنایا گیا تھا (ہمارے حکمرانوں کے کارہائے نمایاں کو دیکھتے ہوئے تو یہ بات سو فیصد درست لگتی ہے) کیونکہ اس فن میں وہ نقطہ عروج پر ہمیشہ سے رہے ہیں۔

ملک کے حکمران اپنے اپنے دور میں اسے ’’حسب توفیق‘‘ کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سے زد میں گھرے یا دھنسے آصف علی زرداری سنا ہے بمشکل ایک روٹی کھا پاتے ہیں وہ بھی بھنڈی یا کسی دال کے ساتھ۔ وگرنہ ان کا گزارا نواب شاہ سے خاص طور پر تیار ہو کے آنیوالے نمک پاروں اور کیک رس پر ہی ہوتا ہے۔ عمران خان کے بارے میں شنید ہے کہ وہ خوش خوراک نہیں اور سبزی اور دالیں ان کی فیورٹ ہیں۔ البتہ نواز شریف کھانے کے حوالے سے حد درجہ مشہور رہے ان کے باورچیوں کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔ نواز شریف کو آلو گوشت بہت پسند ہے اور ہر کھانے کے بعد میٹھا بھی ان کے دسترخوان کا لازمی جز ہے۔

ہمارے نبی کریمؐ اور شیر خدا حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ کم کھانے میں اچھی صحت پوشیدہ ہے، دونوں نے شکم سیری سے منع فرمایا ہے لیکن آٹے میں نمک کے برابر ہی لوگ اس حکمت کی بات پر توجہ دیتے ہیں۔ تقریبات میں اچھے بھلے نفیس لوگ بھی اپنی نفاست کو بالائے طاق رکھ کر اپنی پلیٹوں میں انواع و اقسام کے کھانوں کا پلازہ کھڑا کرلیتے ہیں۔

اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ دھوکہ ایک ایسی ڈش ہے جسے نہ چاہتے ہوئے بھی ہر ذی شعور کم ازکم ایک بار اپنی زندگی میں ضرور کھاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے بہت سے افراد اور ادارے کام کر رہے ہیں جو اپنے کلائنٹس کو ہمارے بچپن کی ایک نظم ’’چل چل چنبیلی باغ میں میوہ کھلاؤں گا‘‘ کا جھانسہ دے کر چنبیلی باغ لے جاتے ہیں اور وہاں میوہ کھلانے کے بجائے الٹا ان کا میوہ کھا جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا ’’چنبیلی باغ‘‘ ہے لیکن میوہ ایک ہی ہے جس کا ذائقہ بہت تلخ ہوتا ہے۔

مثلاً نوجوانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے کہ جو شادی کی خواہش مند بھولی بھالی لڑکیوں کو چنبیلی باغ چلنے اور وہاں پہنچ کر میوہ کھلانے کی پیش کش کرتا ہے لیکن اس باغ میں لے جاکر وہ میوہ خود کھاتا ہے اور لڑکی کو تمام عمر کے لیے بھیگی آنکھوں کا تحفہ دے جاتا ہے۔ بے روزگار لوگوں کو غیر ممالک کا جھانسہ دینے والے، دھوکہ دہی پر استوار شادی کے دفاتر (میرج بیورو) اور جعلی پیر فقیر بھی روحانیت کے چنبیلی باغ کی طرف ہی بلاتے ہیں اور وہاں لے جا کر میوہ کھلانے کے بجائے مریدوں کے باقاعدہ کپڑے تک اتار لیتے ہیں۔ ایشیائی پسماندہ ممالک کے صاحب اختیار لوگ بھی ہمیشہ اپنے عوام کو چنبیلی باغ کی ترغیب دیتے ہیں مگر بعد میں عوام کو پتا چلتا ہے کہ وہ چنبیلی باغ نہیں ’’سبز باغ‘‘ تھا۔

ہمارے ملک کے کرنسی نوٹوں پر سرکارکی طرف سے ایک عبارت اردو میں درج ہے ’’رزق حلال عین عبادت ہے۔‘‘ لیکن کڑوی سچائی یہی ہے کہ حرام یا (دو نمبرکی کمائی) پر پلنے والے گھرانوں کی تعداد ہمارے ہاں حد درجہ بڑھ چکی ہے۔ وہ گوشت تو حلال کھاتے ہیں لیکن کمائی حرام کی کرتے ہیں ان کی دانست میں جو مزہ حرام میں ہے وہ حلال میں نہیں ہو سکتا آخر لوگ یوں ہی تو حرام کی طرف نہیں لپکتے۔

(واضح رہے ادارے کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی اس بات پر متفق ہونا ضروری نہیں۔)کھانوں کی طرف راغب لوگ بھی انواع و اقسام کے ہوتے ہیں اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ لوگوں میں کھانے کے ’’ایتھلیٹ‘‘ بھی خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور کھاتے وقت ان پر استغراق کا عالم کچھ یوں طاری ہوتا ہے کہ انھیں گردوپیش کی کچھ خبر نہیں ہوتی، ایسے لوگ ہرکھانے کو اپنی زندگی کا آخری کھانا سمجھ کر کھاتے ہیں اور جو چیز بھی دسترخوان یا ڈائننگ ٹیبل پر آجائے وہ اس سے منہ نہیں موڑتے۔ ان کی دانست میں انسانوں کی طرح کھانے پینے والی چیزوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں اور ان سے منہ موڑ کر ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ اگر ان کے آگے پانچ کلو لکڑیاں بھی ابال کر رکھ دی جائیں تو وہ ان پر بھی نمک مرچ یا ’’چلّی سوس‘‘ چھڑک کرکھا جائیں گے۔

ہمیں اکثروبیشتر محفل خورونوش میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ یہاں ’’اعزاز‘‘ کا لفظ ہم نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ جب محفل خورونوش میں ایسے ’’لوگ‘‘ شریک ہوں تو اس کے دیگر شرکا کے حصے میں کھانا نہیں بس اعزاز ہی آتا ہے۔ بعض لوگوں کو ’’پرہیزی کھانے‘‘ کھانے کا کریز ہوتا ہے اور یہ پرہیزی بڑے کریزی ہوتے ہیں زیادہ سے زیادہ بکرے، مچھلی اور کم سے کم مرغی پرکمربستہ یا ٹکے رہتے ہیں ایسے پرہیز گار لوگ سالن میں شوربے سے پرہیز کرتے ہیں اور صرف ’’بوٹیوں‘‘ پر ہی تکیہ کرتے یا دھاوا بولتے ہیں اور ان کے پاس کھڑے ہونیوالے ویٹر یا بیرے ہوتے ہیں جو ان کی پلیٹ کے خالی ہونے کے منتظر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ کھانے کو رغبت سے نہیں بری طرح بھنبھوڑکرکھاتے ہیں اورکچھ لوگ باآواز بلند کھاتے ہیں جب کہ اکثر لوگ دوسرے لوگوں کا بھیجہ کھاتے ہیں۔

الغرض انواع و اقسام کے کھانوں اور لوگوں سے ہمارے مہنگے اور سستے سارے ہوٹل اور ریستوران بھرے نظر آتے ہیں اور ملک کی ہر جگہ پرکوئی نہ کوئی فوڈ اسٹریٹ موجود ہے، اس کے ساتھ ساتھ عوامی ہوٹل جسے ڈھابہ اور چارپائی ہوٹل کا نام بھی دیا جاتا ہے، خوب چل رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ موٹر بائیکوں، سوزوکیوں اور ریڑھیوں پر بھی کھانے بیچنے اورکھانے والوں کی تعداد ملک میں موجود ہے۔ اب تو مڈل کلاس طبقے کی خواتین بھی شاہراہوں پر بڑے سلیقے سے اپنے ہاتھ کے کھانے فروخت کر رہی ہیں اور انھیں باقاعدہ کمپنی اورگھروں میں بھی پارسل کرنے یا پہنچانے کا کام بھی اچھے طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کی وجہ سے چین کی خواتین اور حضرات تو باقاعدہ شیف کی صورت میں یہاں آ ہی چکے ہیں، دوسرے ملکوں کے کاریگر بھی کھانا بنانے کے لیے یہاں آ رہے ہیں اور ان کے لیے کھانوں کا بندوبست بھی کمائی یا ذریعہ روزگار بن گیا ہے۔

ارض وطن کے ہوٹلوں، ریستورانوں، فوڈ اسٹریٹ، ڈھابوں وغیرہ پر نگاہ کریں تو لگتا ہی نہیں کہ یہ غیر ملکی قرضوں میں جکڑا ایک غریب ملک ہے جس پر ہزاروں ارب کے قرضے چڑھے ہوئے ہیں اور پھر اس حوالے سے بھی یہ بات بڑے دکھ کی ہے کہ ہمارے ملک میں ’’دارالکتاب‘‘ کی جگہ بڑی تیزی سے ’’دارالکباب‘‘ آباد ہوتے جا رہے ہیں اور جس معاشرے میں کتابوں کی دکانیں سکڑتی چلی جائیں اور فوڈ اسٹریٹس پھیلتی جائیں وہاں ’’قارئین‘‘ (پڑھنے والے) بہت قیمتی اور قابل احترام ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔