’چارولینٹ‘ پتنگ کے ذریعے کھینچے جانے والی گاڑیاں

مرزا ظفر بیگ  اتوار 24 فروری 2019
جارج پوکوک نے اپنی اس انوکھی ایجاد اور حیران کن بگھی کے حوالے سے عام لوگوں کو اس طرف راغب کرنے کی پوری کوشش کی۔ فوٹو: فائل

جارج پوکوک نے اپنی اس انوکھی ایجاد اور حیران کن بگھی کے حوالے سے عام لوگوں کو اس طرف راغب کرنے کی پوری کوشش کی۔ فوٹو: فائل

یہ کوئی آج کی یا اس دور کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ قصہ خاصا پرانا ہے اور 1822 کا ہے جب اس سال کے پہلے مہینے یعنی جنوری کی 8  تاریخ کو ایک غیر معمولی سفر کیا گیا جو برسٹل سے مال بورو تک کیا گیا تھا۔

یہ سفر جارج پوکوک نامی ایک اسکول ٹیچر نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کیا تھا، اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، کیوں کہ اکثر ایسے سفر تو ہوتے رہتے ہیں، مگر بہت زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ 182کلومیٹر کا یہ سفر ایک ایسی گاڑی کے ذریعے کیا گیا تھا جسے نہ تو گھوڑے کھینچ رہے تھے، نہ گائے بیل، نہ اونٹ اور نہ کوئی اور جانور، بلکہ اس گاڑی کو اتنی طویل مسافت تک نہایت مضبوط اور توانا پتنگوں نے کھینچا تھا جس پر ہمارے پڑھنے والے سبھی قارئین یقینی طور پر شدید حیران ہوں گے۔

وہ پتنگیں فضائوں میں بلند تھیں اور ان کے دوسرے سرے ڈور کی مدد سے اس گاڑی سے باندھ دیے گئے تھے، جب وہ پتنگیں فضا میں بلند ہوئیں تو اس کے ساتھ ہی گاڑی نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی اور پھر وہ زبردست پتنگیں اس گاڑی کو کھینچتی ہوئی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئیں۔ اس دور میں یہ ایک ایسا حیرت انگیز کارنامہ تھا جس نے دیکھنے والوں کو ششدر کرکے رکھ دیا تھا۔

یہ اس دور کی ایک ایسی انوکھی اور حیران کردینے والے گاڑی تھی جسے چلانے کے لیے اس دور میں مروج کوئلا، لکڑی، بجلی یا کسی اور ایندھن کے بجائے ہوا کی طاقت کا استعمال کیا گیا تھا، وہ بھی اس طرح کے ہوا میں زبردست قسم کی پتنگیں بلند کی گئی تھیں جنہوں نے کمال مہارت کے ساتھ اس گاڑی کو بڑے حیرت انگیز انداز سے کھینچا تھا، یہ گاڑی جارج پوکوک نامی اس اسکول ٹیچر نے خود ہی ڈیزائن کی تھی اور اسے  “Charvolant”کا نام دیا تھا۔

واضح رہے کہ جارج پوکوک اپنی کم عمری یا بچپن سے ہی پتنگوں کے سحر میں مبتلا تھا اور ہر وقت انہی پر نظریں جمائے رہتا تھا، یہ پتنگیں فضائوں میں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے اسے اپنی طرف بلاتیں اور اپنے حوالے سے جارج پوکوک کو کوئی نیا کارنامہ انجام دینے کی خواہش ظاہر کرتی دکھائی دیتی تھیں۔ جارج بھی اکثر و بیش تر ان پتنگوں کو اڑاتا اور ان پر نت نئے تجربات کرتا رہتا تھا، اسی دوران اسے اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ پتنگوں میں lifting power یعنی کسی چیز کو اٹھانے یا بلند کرنے کی بہت زبردست طاقت ہوتی ہے ، یعنی ان کے ذریعے کسی بھی بھاری یا وزنی چیز کو اوپر یا بلندی کی طرف اٹھایا جاسکتا ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب جارج پوکوک ایک کڑیل جوان بن چکا تھا جس کے ارادے اور عزائم خاصے بلند تھے اور وہ زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتا تھا، کوئی ایسے نئے اور انوکھے کام جو اسے دنیا میں شہرت دوام بخش دیں۔ اس نے اپنے کام کا آغاز اس طرح کیا کہ ابتدائی زمانے میں جارج پوکوک نے یہ کام شروع کیا کہ وہ چھوٹے چھوٹے پتھروں کو اپنی پتنگ کی ڈوریوں کے کناروں پر باندھ دیتا اور پھر انہیں ہوا کی طاقت پر فضا میں بلند ہوتے دیکھتا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پتنگ کی ڈوریوں سے بندھے ہوئے وہ پتھر آسمان کی گہرائیوں میں دور کہیں جاکر گم ہوجاتے تھے جس پر وہ خوب خوش ہوتا تھا۔

جیسے جیسے جارج پوکوک بڑا ہوتا چلا گیا، اس کے یہ انوکھے تجربات اور بھی زیادہ شدت اختیار کرتے گئے اور ساتھ ساتھ زیادہ خطرناک بھی ہوتے چلے گئے، کیوں کہ اب اس کے ان انوکھے تجربات میں جارج پوکوک کے اپنے بچے بھی شامل ہونے لگے تھے۔

ایسے ہی ایک تجربے کے دوران جارج پوکوک نے کمال کردیا جب اس نے اپنی چھوٹی اور کم عمر بیٹی کو بید کی ایک کرسی پر بٹھاکر ایک 30فیٹ لمبی پتنگ کے ذریعے خاصی بلندی تک پہنچا دیا اور وہ بچی اس کرسی پر بیٹھے بیٹھے Avon Gorge نامی اس بڑی وادی کو عبور کرگئی جس پر ایسا تجربہ کرکے گویا جارج پوکوک نے اپنی بیٹی کی جان سے کھیلنے کی کوشش کی تھی۔ یہ کوئی مذاق نہیں تھا، اس تجربے میں جارج کی بیٹی کی جان بھی جاسکتی تھی، مگر خوش قسمتی سے وہ اس تجربے کے دوران نہ صرف بچ گئی، بلکہ اسے اس حوالے سے بڑی شہرت ملی کی بعد میں وہ عظیم کرکٹ لیجنڈ W. G. Grace کی ماں بھی بنی۔بعد میں پھر جارج پوکوک نے اسی سال یعنی 1842میں اپنے بیٹے کو پتنگ کی مدد سے 200فیٹ بلند چٹان پر پرواز کرائی جو برسٹل کے بیرونی علاقے میں واقع تھی۔

اس کے صرف دو سال بعد جارج پوکوک نے اپنی تیارکردہ اس بگھی یعنی “Charvolant” کے ڈیزائن کو پیٹنٹ بھی کرالیا۔ یہ بگھی صرف دو پتنگوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی جو 1500سے 1800فیٹ (لگ بھگ نصف کلومیٹر) لمبی ایک سنگل لائن یا پٹری پر چلتی تھی اور اس قابل تھی کہ یہ اچھی خاصی تیز رفتاری کے ساتھ متعدد مسافروں کو بھی لے جاسکتی تھی۔

اس دوران اس انوکھی بگھی یعنی “Charvolant” کی سمت کو کنٹرول کرنے یا اسے راستے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف موڑنے اور آگے بڑھانے کے لیے پتنگ کے ساتھ چار کنٹرول لائنیں لگادی گئی تھیں اور انگریزی کے حرف T کی شکل کا ایک ڈنڈا بھی لگادیا گیا تھا جو اس بگھی کے اگلے پہیوں کی ڈائریکشن کو کنٹرول کرتا تھا۔ اس بگھی کو بریک لگانے کے لیے ایک فولادی سلاخ لگائی گئی جس کو دبانے کے بعد سڑک پر چلتی گاڑی رک جایا کرتی تھی۔

جارج پوکوک کی اس ایجاد اور اس حوالے سے متعدد خطرناک کوششوں اور تجربات کے کچھ ہی عرصے بعد اس نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا:The Aeropleustic Art or Navigation in the Air by the use of Kites, or Buoyant Sailsاس کتاب میں جارج پوکوک نے اپنی اس مفید اور حیرت انگیز ایجاد یعنی اڑتی پتنگوں کے ذریعے چلنے والی بگھی کا تعارف بھی پیش کیا اور اس کے فوائد بھی عام لوگوں کو بتائے تھے۔

اس نے اپنی کتاب میں لکھا تھا: ’’سفر کا یہ انوکھا اور حیرت انگیز انداز نہایت خوشگوار تاثر کا حامل ہے، مگر اس کے لیے ہمیں بپھری ہوئی ہوائوں کو لگامیں ڈالنی ہوں گی اور انہیں اپنے کنٹرول میں کرکے اپنی بگھی کو آگے بڑھانے کے لیے مطلوبہ سمت میں ڈالتے ہوئے مناسب انداز سے کام کرنا ہوگا جس کے لیے بڑی مہارت اور ہوشیاری کی ضرورت ہوگی۔ جب ہم فضائوں میں بلند ہوتی پتنگوں کو اپنے قابو میں کرکے اپنی بگھی کو اپنی مقررہ سمت کی طرف کامیابی سے بڑھاتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے تو ہمیں زبردست خوشی اور اطمینان حاصل ہوگا۔ اگر ہم پوری مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سفر کی تکمیل کرنے میں کام یاب ہوگئے تو سمجھ لیں کہ ہم نے گویا آسمانی سیاروں اور ستاروں کی طرح اپنی منزل پالی۔‘‘

جارج پوکوک نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس نے Charvolant نامی اس بگھی میں اپنے تجرباتی سفر کے دوران متعدد بار 20 میل فی گھنٹے یعنی 32کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بھی سفر کیا تھا اور اس کے ذریعے خاصے دور افتادہ مقامات تک سفر کی تکمیل کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس انوکھی بگھی میں، میں نے ناپختہ اور ناہموار سڑکوں پر اچھے خاصے بھاری سازو سامان کے ساتھ بھی کامیابی سے سفر کیے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات زیادہ وزن ہونے کی وجہ سے مشکلات پیش آتی تھیں، مگر ہماری بگھی آرام سے یہ سفر مکمل کرلیا کرتی تھی اور ہم دوران سفر ہر طرح کے دھچکوں اور گڑھوں کے دھکوں سے بھی محفوظ رہتے تھے۔

جارج پوکوک نے اس دور میں پوری کوشش کی تھی کہ وہ کسی طرح عام لوگوں کو اپنی اس بگھی کی طرف راغب کرلے، چناں چہ اس نے اس کتاب میں اپنی اس ایجاد کو ہر لحاظ سے مفید اور ہر طرح کے خطرات سے پاک کرنے کی پوری کوشش کرڈالی اور اسے بہت اچھے انداز میں پیش کیا، اس کے فوائد بتائے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ اس کی یہ بگھی ٹول گیٹ سے کوئی بھی ادائیگی کیے بغیر گزر سکتی ہے، کیوں کہ اس دور میں ٹول ٹیکس ان گھوڑوں کی تعداد پر دینا ہوتا تھا جو اس گاڑی میں جتے ہوتے تھے۔ مگر اس بگھی میں نہ کوئی گھوڑا تھا اور نہ کوئی دوسرا جانور، اس لیے ٹول گیٹ پر کسی طرح کے ٹیکس کی ادائیگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یہ بھی ایک کفایتی فائدہ تھا جو جارج پوکوک کی اس بگھی کی وجہ سے مل سکتا تھا۔

بہرحال جارج پوکوک نے اپنی اس انوکھی ایجاد اور حیران کن بگھی کے حوالے سے عام لوگوں کو اس طرف راغب کرنے کی پوری کوشش کی، مگر وہ اپنے اس مقصد میں کام یاب نہ ہوسکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس بگھی کو چلانا کوئی آسان کام نہ تھا، اس کا کنٹرول سب سے مشکل امر تھا ، اس کے باوجود جارج پوکوک اور اس کی فیملی نے اس انوکھی بگھی کا استعمال 1843 تک جاری رکھا جب ایک روز وہ دنیا سے چلا گیا جس کے ساتھ ہی اس کی یہ انوکھی ایجاد بھی دنیا سے مٹ گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔