بھارتی پروپیگنڈا اور ہم پاکستانی

مزمل سہروردی  اتوار 24 فروری 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان اور بھارت اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں لڑی جاتی بلکہ دشمن کے ساتھ ہر محاذ پر جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی، معاشی، کھیل اور میڈیا سمیت مختلف محاذوں پر جنگ جاری ہے۔ بھارت نے ہر محاذپر پاکستان کے ساتھ طبل جنگ بجا دیا ہے۔اس لیے ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کے محاذ پر لڑی جانے والی اس جنگ میں بھارت کی کوشش ہے کہ وہ ہمیں ہمارے ہی لوگوں کے ذریعے ہزیمت کا شکار کریں۔ وہ ایسے پاکستانیوں کی تلاش میں ہے جو پاکستان کے خلاف بات کریں۔ بھارت کی زبان بولیں۔ بھارت کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھائیں۔
مختلف مواقع پر بھارت کو ایسے دانشوراور سیاستدان ملتے رہے ہیں۔بدقسمتی سے الطاف حسین بھی بھارت کا ایندھن بن گئے۔ چند بلوچ رہنما بھی بھارت کے سحر کا ہو گئے۔ ایسے افراد کو سوچنا چاہیے کہ وہ تب تک ہی فائدہ مند ہوتے ہیں جب تک وہ کار آمد ہوتے ہیں۔ الطاف حسین جب تک پاکستانی سیاست کا کردار تھے تب تک وہ بھارت کے لیے اہم تھے، اب وہ بھارت کے لیے بیکار ہو گئے۔ مختلف مواقع پر بھارت کو ایسے پاکستانی ملتے رہے ہیں جن کی باتیں بھارت کے لیے فائدہ مند رہی ہیں۔ لیکن پاکستان ان کے لیے نقصان دہ رہی ہیں۔ آج سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی ترقی نے میڈیا کے محاذ پر جنگ کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے۔ کل میڈیا جنگ میں اتنا اہم نہیں تھا لیکن آج آدھی سے زائد جنگ میڈیا میں لڑی جاتی ہے۔

راء کی کوشش ہے کہ پاکستان کے خلاف میڈیا کے محاذ پر پروپیگنڈے اور جنگ کے لیے ایسے پاکستانیوں کو استعمال کیا جائے جو بھارت کے موقف کی تائید میں بولیں۔ اس کو علم ہے بھارتیوں کی بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ اس لیے اپنے جھوٹ کو معتبر بنانے کے لیے وہ پاکستانیوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اپنی اس پالیسی میں اسے کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے۔ چند بلوچ ملے ہیں جو پاکستانی ہونے کا دعویٰ کر کے پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں۔ اب ریحام خان اور حسین حقانی بھی اسی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ پلوامہ کے واقعے کے بعد ان دونوں نے ایسی زبان بولی ہے جو بھارت کے لیے فائدہ مند ہے۔

میں اس بات سے متفق ہوں کہ ہمیں کسی کے لیے بھی غداری یا ملک دشمن کے سرٹیفکیٹ نہیں بانٹنے چاہیے لیکن ہمیں اندرونی اختلافات کی و جہ سے بھارت کا ایندھن بھی نہیں بننا چاہیے۔کیا کسی بھارتی میں اتنی جرات ہے کہ وہ بھارت کے کشمیر میں مظالم کے خلاف پاکستانی میڈیا میں آکر بات کرسکے۔کیا کوئی بھارتی دل سے بھارت کو غلط مانتے ہوئے بھی پاکستانی میڈیا میں آکر بھارت کو غلط کہنے کی جرات کر سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ فیشن بن گیا ہے کہ ہم بھارت میں جا کر پاکستان کو غلط کہیں۔ پاکستان مخالف بات کریں۔یا پاکستان سے باہر کسی اور ملک میں جا کر ایسی بات کریں۔ میری نظر میں یہ پاکستان دشمنی ہی کہلائے گی۔

ایک طرف جاوید اختر، شبانہ اعظمی جیسے بھارتی مسلمانوںنے پلوامہ کے واقعے کے بعد بھارتی حکومت کے منفی پروپیگنڈے کی حمایت میں پاکستان کے دورے منسوخ کر دیے۔ پاکستانی کرکٹرز کی تصاویر وہاں سے ہٹا دی گئیں۔ ٹماٹر بند کرنے کا ڈرامہ کیا گیا۔ دوسری طرف حسین حقانی اور ریحام خان نے بھارتی میڈیا میں جا کر پاکستان کے خلاف بات کی۔ اس وقت بھارتی میڈیا میں جا کر حکومت پاکستان کے خلاف بات کرنا بھی درحقیقت پاکستان کی مخالفت ہی سمجھی جائے گی۔ دراصل وہ اس موقعے پر دشمن کے پروپیگنڈاکاا یندھن بنے ہیں۔

سچ پوچھیں تو مجھے بہت دکھ پہنچا ہے،میں تو کہوں گاکہ پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے سیکشن 16کے تحت ان دونوں کی پاکستانی شہریت ہی ختم کر دی جائے۔میں یہ بھی کہوں گا ریحام خان اور حسین حقانی کے شکوے جائز بھی ہوسکتے ہیں۔لیکن پھر بھی انھیں پاکستان کے مفادات اور موقف کا تحفظ ہی کرنا چاہیے۔ ریحام خان کے عمران خان سے اختلافات جائز ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ لیکن وہ ان کی اور عمران خان کی ذاتی لڑائی تھی۔

انھیں بھارتی میڈیا پر بات کرتے ہوئے احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح حسین حقانی کے ساتھ بھی کسی موقعے پر زیادتی ہو گئی ہو گی۔ لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ وہ اس زیادتی کا بدلہ پاکستان کے مفادات کے خلاف بات کرکے لیں۔ وہ آج جو کچھ بھی ہیں پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ پاکستان نے ہی انھیں سفیر بنایا۔ اقتدار کے کھیل میں انھوں نے بہت سی اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ اس کھیل میں وہ آئوٹ بھی ہوگئے۔ میمو گیٹ میں اگر کہیں زیادتی ہوئی تو آج انصاف بھی تو انھیں پاکستان کی عدالتوں سے ہی ملا ہے۔ حسین حقانی آج بھارت کے میڈیا میں بھارت کی زبان بول رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا کرکے وہ بھی دشمن کے لیے ایندھن بن رہے ہیں۔ انھیں بہرحال ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

ایک طرف یہ حضرات ہیں تو دوسری طرف پرویز مشرف ہیں۔ جنہوں نے بھارتی میڈیا میں جاکر پاکستان کی بات کی ہے۔ حالانکہ پاکستان میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ان پر ملک کاآئین توڑنے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ لیکن وہ بھارتی میڈیا پر پاکستان کا مقدمہ لڑرہے ہیں۔ ان کی پاکستان سے محبت سب پر عیاں ہے۔ انھوں نے پاکستان میں اپنے مسائل کو پاکستان تک ہی محدود رکھا ہے۔کیونکہ پاکستان کے خلاف فیتھ جنریشن وار اور بھارت کی میڈیا جنگ کو جانتے ہیں۔ کیا بھارت میں کسی سیاستدان اور میڈیا کے نمایندے میں جرات ہے کہ پاکستانی میڈیا میں آکر مودی کے جنگی جنون اور کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف بات کر سکے۔پاکستان کے شہریوں کو بھی ایسے ہی کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔