آئی ایس پی آر کی بروقت پریس بریفنگ

تنویر قیصر شاہد  پير 25 فروری 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پاک، بھارت کشیدگی اِس نہج پر آ گئی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے سیاسی و انتخابی مفادات سمیٹنے کے لیے خود بازار میں آنا پڑگیا ہے۔انڈین آرمی کے سربراہ ، جنرل بپن راوت ، بھی پاکستان کے خلاف تلخ زبان بروئے کار لارہے ہیں۔ پہلے یہ منظر ہمارے سامنے کم کم ہی آیا کرتا تھا کہ بھارتی سپہ سالار بھی میڈیا کے رُو برو آتے ہوں ، لیکن بھارتی جمہوریت کو یہ دن بھی دیکھنا پڑ گئے ہیں۔

جنرل بپن راوت نے انڈین میڈیا کی ایک خاتون صحافی سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا ہے : ’’مَیں افواجِ پاکستان کے چیف ، جنرل قمر جاوید باجوہ ، کے ہر بیان کو فالو کرتا ہُوں ۔‘‘ہمارے جری سپہ سالار کو ایسا بیان دینے اور میڈیا کے رُو برو آنے کی احتیاج اور ضرورت ہی نہیں ہے ۔ وہ شائستگی ، متانت اور احتیاط کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ اُن کا عمل ، الفاظ پر بھاری ہے ۔چند دن قبل ہی وہ جرأت و استقامت سے ایل او سی پر اپنے جانباز جوانوں کے ساتھ جس طرح کھڑے نظر آئے ہیں ، اُمید ہے یہ پیغام اس پار بھی پہنچ گیا ہوگا۔ افواجِ پاکستان کو جب بھی بولنا اور ’’کسی‘‘ کو پیغام دینا ہو، اِس کا ترجمان ادارہ ’’آئی ایس پی آر ‘‘ بروئے کار آتا ہے۔ اس کے الفاظ ہمیشہ نپے تُلے ، سوچے سمجھے اور اہداف بر مبنی ہوتے ہیں۔ اِن الفاظ کی باز گشت اور گونج تادیر سنائی دیتی رہتی ہے ۔ پلوامہ ( مقبوضہ کشمیر) میں پُر اسرار خود کش دھماکا ہُوا تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان پر بہتان لگا دیا۔

اِسی پر ہی بس نہ کی بلکہ بھارتی وزیر اعظم نے دانستہ پاکستان کی طرف اشارے کرتے ہُوئے جارحانہ اور بے حجابانہ اسلوب میں غیر محتاط زبان استعمال کی۔ بھارتی میڈیا نے بھی طبلِ جنگ بجانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔ پاکستان ، ہمارے منتخب وزیر اعظم، ہماری سپاہ ، ہمارے میڈیا اور ہمارے عوام نے مگر صبر اور اعراض کا راستہ اختیار کیا ۔ الحمد للہ ، ہم میں سے کوئی بھی ردِ عمل کی نفسیات کا شکار نہیں بنا ہے ۔ وزیر اعظم جناب عمران خان نے متین انداز میں بھارت کو جواب دیا ہے ۔

یہ جواب مختصر بھی تھا، مدلل بھی اورمتوازن بھی۔اِس میں بجا طور پر اہلِ پاکستان کے جذبہ حریت کو مہمیز دی گئی اور اپنے (ازلی) دشمن کو انتباہ کے ساتھ تعاون اور امن کی پیشکش بھی کی گئی۔ پانچ منٹ پر مبنی عمران خان کے الفاظ پر بھارت میں سو انداز سے مضامین باندھے گئے ۔ یہ الفاظ اتنے قوی اور پُر اثرتھے کہ بھارتی مبصرین نے یہ تک کہہ ڈالا:یہ الفاظ عمران خان کے نہیں ہیں۔ ہمیں اُمید تھی کہ بھارتی وزیر اعظم اگر سنجیدہ اور فہمیدہ انسان ہیں تو عمران خان کا پیغام پا کر وہ امن اور مکالمے کی راہ اپنائیں گے ۔وہ مگر بدستور اور مسلسل منہ سے آگ اُگلتے رہے تو اس کا دوسرا جواب بھی پھر دیا جانا از بس ضروری ہو گیا تھا؛ چنانچہ آئی ایس پی آر کو میدان میں آنا پڑا ہے۔اسلام آباد ، راولپنڈی کے صحافیوں کے لیے یہ منظر بڑا اطمینان بخش تھا کہ آئی ایس پی آر کے دفتر میں نہ کوئی ہیجان تھا، نہ سراسیمگی اور نہ کوئی ہلچل۔

افواجِ پاکستان کے ترجمان ، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اپنے ہیڈ آفس میں مدعو اخبار نویسوں کے سامنے پورے قد کے ساتھ کھڑے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ میجر جنرل آصف غفور نے جس لہجے اور اسلوب میں افواجِ پاکستان کا پیغام پوری پاکستانی قوم ، اقوامِ عالم اور خصوصاً بھارت تک پہنچایا ہے، اس کی تحسین کی جانی چاہیے ۔ بھارتی ہیجان جنوبی ایشیا کو جس مقام تک لے آیا ہے ، ایسے میں یہی جواب آنا چاہیے تھا جو نہایت متحمل اور مستحکم لہجے میں آئی ایس پی آر کی طرف سے دیا گیا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ پریس بریفنگ نہایت ضروری تھی ۔ اس کا اسلوب بھی وہی ہونا چاہیے تھا جو اختیار کیا گیا۔ اس لہجے اورجواب کو محض نفسیاتی جنگی حربہ نہ سمجھا جائے ۔ میجر جنرل آصف غفور نے جب ٹھہرے اور ٹھوس الفاظ میں دشمنِ پاکستان کو مخاطب کرتے ہُوئے یہ الفاظ کہے: Don,t mess with us تو سچی بات یہ ہے کہ دِلوں پر لرزہ طاری ہو گیا ۔

اللہ کے سپاہی جب بولتے ہیں تو ایسا ہی بولتے ہیں۔ اِنہی الفاظ میں اپنے مقابل کھڑے دشمنوں اور حریفوں کو للکارتے ہیں ۔ زیادہ لمبی نہیں ، مختصر بات کر کے اپنا مطمعِ نظر بیان کر دیتے ہیں۔ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُباہی!!

دشمن کی جارحیت کا ترنت ، فوراً اور قوی جواب دینے کے لیے افواجِ پاکستان آج جس تیاری کے مقام پر کھڑی ہیں، اِس سے پہلے شائد کبھی نہیں تھیں۔ یہ مقام حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کرنا پڑی ہے ۔ آج ہماری افواج صحیح تر معنوں میں اسٹرائیک فورس ہے ۔ دہشتگردوں کے خلاف اس کے مختلف النوع اور کامیاب ترین آپریشنوں نے اسے سخت جاں اور نہایت تجربہ کار بنا دیا ہے۔ ہمارے لاتعدادفوجی شہدا نے اپنے خون سے مملکتِ خداداد کے چاروں اطراف میں سلامتی اور مضبوطی کا حصار تعمیر کیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اپنی تازہ بریفنگ میں بجا کہا: ’’دشمن سے لڑنے کے لیے ہم اپنے سویلین جوانوں کے ہاتھوں میں بندوق نہیں تھمائیں گے ۔ ہم دشمن سے نمٹنے اور اُس پر کاری ضرب لگانے کے لیے اکیلے ہی کافی ہیں۔‘‘ یہ بات انھوں نے اُس سوال کے جواب میں کہی جب کسی صحافی نے انھیں یہ تجویز دی کہ پاکستانی نوجوانوں کو سول ڈیفنس کے لیے فوجی تربیت دینی چاہیے ۔ میجر جنرل آصف غفور کا جواب درست تھا۔ اُن کی پریس بریفنگ سے قوم کو ایک نیا حوصلہ اور جذبہ ملا ہے ۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل یہ بریفنگ دو حصوں میں تھی ۔ ایک کیمرہ کے رُوبرو کہ معینہ وقت میں اتنی ہی گفتگو ہو سکتی تھی ۔ اور دوسری آف دی کیمرہ ۔ لیکن آصف غفور صاحب کا کہنا تھا کہ دونوں حصوں میں کی جانے والی اُن کی گفتگو اور جوابات آن دی ریکارڈ ہیں۔

کوئی شے آف دی ریکارڈ نہیں ۔ اُن کااعتماد قابلِ تحسین تھا۔ جب دل کی بات دل والوں کے سامنے کی جائے تو پھر لُکانا اور چھپانا کیوں اور کس سے؟ اُن کے مستحکم اعتماد ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ انھوں نے بغیر کسی تردد اور ہچکچاہٹ دو باتوں کا بھی اعتراف اور اعلان کیا۔ ایک یہ کہ جنرل (ر) اسد درانی کی پنشن اور جملہ مراعات ختم کر دی گئی ہیں ۔اور دوسرا یہ کہ دو سینئر فوجی افسر حراست میں ہیں ، اُن سے کڑی پرسش جاری ہے اور اُن کا کورٹ مارشل ہوگا۔ جنرل (ر) اسد درانی نے بھارتی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ ( اے ایس دُلت) سے مل کر جو کتاب (The Spy Chronicles ) لکھی ، واقعہ یہ ہے کہ اِس عمل سے پاکستانیوں کے دل دُکھے۔

اس کتاب کے کئی مندرجات پاکستان کی اجتماعی قومی سلامتی کے منافی ہیں۔ فوج کی طرف سے وہ ’’گلٹی‘‘ قرار دیے گئے ہیں ؛ چنانچہ سزا بھی لازم تھی۔آصف غفور صاحب نے جب یہ کہا تو فوری طور پر حاضرین میں سے کسی نے پوچھا: ’’درانی صاحب کا رینک برقرار ہے؟‘‘ ۔کسی تردد کے بغیر جواب دیا گیا : ’’جی ہاں ، برقرار ہے۔‘‘ جن دو سینئر فوجی افسران کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کا ذکر کیا گیا، یہ اس لیے بھی لازم تھا کہ کچھ دنوں سے میڈیا میں اس بارے میں کھسر پھسر ہو رہی تھی ۔ اس کا اعتراف کرکے درحقیقت سچ کا پرچم بلند کیا گیا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔