امن عالم اور اقوام متحدہ کا کردار

شکیل فاروقی  منگل 26 فروری 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے گزشتہ دنوں کراچی میں انٹرنیشنل میری ٹائم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمندر میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا، جب تک زمین پر امن نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق دلانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

پاک بحریہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بین الریاستی دہشت گردی نے بہت سی ریاستوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقوام متحدہ اپنی اہمیت کھو چکی ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ درحقیقت ایسا ہی ہوا ہے۔ حالات حاضرہ حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں بدقسمتی سے دنیا کے زیادہ تر شورش زدہ ممالک اسلامی ہیں جن میں مصر، شام ، افغانستان اور سوڈان شامل ہیں۔

پاک بحریہ کے سربراہ کے یہ خیالات عالمی منظرنامے کی حقیقی تصویرکا آئینہ دار ہیں اور ان کو کسی بھی زاویے سے غلط نہیں کہا جاسکتا۔ یہ منظرنامہ کئی عشروں سے پوری دنیا کے سامنے موجود ہے۔ عالمی سیاست کی بساط پر پاورگیم کی صورتحال کا ہر شخص تماشائی ہے۔ یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس پاور گیم کا اصل ہدف کون سی قوم ہے ۔

ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے عالمی حالات اور واقعات کا جو عکس پیش کیا ہے وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے احساسات کا ترجمان اور آئینہ دار ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ ایڈمرل ظفر عباسی کی طرح عالم اسلام کا ہر باشعور شخص عالمی قوتوں سے یہی سوال کرتا ہے کہ پون صدی کا عرصہ گزرنے کے باوجود فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کے نتیجے میں مسلمانوں کے خون کی ارزانی کا سلسلہ کیوں بند نہیں ہو رہا ۔

کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ دنیا میں امن کے قیام کی ضامن ہے۔ یہ ادارہ دوسری عالمگیر جنگ کے ملبے پر قائم ہوا تھا۔ اس کا قیام دو عالمگیر جنگوں کی خوفناک تباہی کے انجام کا نتیجہ ہے۔ اقوام عالم میں جنگوں کی بنیاد بننے والے تنازعات کے حل کو اپنا بنیادی مقصد بناکر دنیا بھر میں مستقل امن کے قیام کی خاطر 1945 میں اقوام متحدہ کے ادارے کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ انسانیت کو آیندہ جنگوں کی تباہ کاریوں سے بچانا اور ہر صورت میں دنیا میں امن قائم کرنا اس ادارے کا اصل مقصد ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے قیام سے لے کر آج تک دنیا میں قیام امن اور جنگ کی تباہ کاریوں سے انسانیت کو بچانے کا اپنا بنیادی فریضہ ادا کرنے میں کامیاب ہوا یا نہیں؟

یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد معرض وجود میں آنے والی لیگ آف نیشنز کو دوسری عالم گیر جنگ کی ہولناک تباہ کاریوں سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسی طرح اقوام متحدہ بھی اسی روش پر تو گامزن نہیں؟ کیا اس کا حشر بھی لیگ آف نیشنز جیسا تو نہیں ہونے والا؟یہ وہ سوالات ہیں جو دنیا بھر کے امن پسند لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ اپنے مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب یا ناکام ہے یہ جاننے کے لیے صرف یہ دیکھنا ہی کافی ہوگا کہ اس ادارے کے قیام سے لے کر اب تک دنیا بھر میں تنازعات اور جنگ و جدل کی کیا صورتحال رہی ہے؟ کیا اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا میں مستقل امن قائم ہوا ہے، کیا اس عرصے کے دوران انسانیت کو جنگوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟ افسوس کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔

اقوام متحدہ کے وجود میں آنے کے باوجود دنیا نے کوریا، ویت نام اور روس افغان جیسی طویل اور تباہ کن جنگوں کا خمیازہ بھگتا ہے۔ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ لاکھوں انسان ان جنگوں کی بھینٹ چڑھ گئے اور اقوام متحدہ محض تماشا دیکھتی رہ گئی۔ اس ادارے کی ناکامی کا ثبوت اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتا ہے ؟ دنیا کے مختلف گوشوں میں جاری خوں ریزی اور چھوٹے بڑے تنازعات اور قتل و غارت گری کے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔

عالمی منظرنامہ مایوس کن نظر آرہا ہے اور دنیا بھر میں جاری تنازعات اور عدم استحکام کا شکار سب سے زیادہ مسلم ممالک ہی نظر آرہے ہیں۔ فلسطین، کشمیر، افغانستان، عراق اور شام سے لے کر یمن تک دنیا میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بننے والے تنازعات کی آماج گاہ عالم اسلام ہی ہے۔ چنانچہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی جیسے دردمند اور باشعور شخص کی مسلمانوں کے بارے میں فکرمندی ایک فطری امر ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برے انجام سے دوچار ہونے سے شاید اس لیے بچا ہوا ہے کہ کچھ عالمی طاقتوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے باہم گٹھ جوڑ اور ملی بھگت کے ذریعے اس کے وجود کو سہارا دیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے ممتاز طنز نگار اور مزاحیہ شاعر سید محمد جعفری (مرحوم) نے UNO کے بارے میں بالکل بجا فرمایا تھا کہ اس میں USA کے U کے سوائے باقی سب کچھ NO ہی NO ہے۔

گستاخی معاف اقوام متحدہ کا حال یہ ہے ، بے چاری رضیہ غنڈوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اسے پانچ عالمی قوتوں کے شکنجے سے نجات حاصل نہیں ہوگی اور بااختیار اور غیر جانبدار ادارہ نہیں بنایا جائے گا تب تک اس سے کسی موثر کردار کی توقع رکھنا عبث ہی ہوگا۔ پاکستان کے امیر البحر کا اقوام متحدہ کے کردار پر دیانت دارانہ تبصرہ لمحہ فکریہ ہے۔ یہ تبصرہ مبنی بر حقائق ہے جس سے انکار کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے کو اپنا کردار مضبوط کرنا ہوگا اور خود کو قطعی غیر جانبدار بھی ثابت کرنا ہوگا۔

اس کے علاوہ اسے دنیا میں امن و استحکام کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے اور مسلم دنیا کے خلاف سازشی منصوبوں کا بھی سدباب کرنا ہوگا تاہم ’’کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے‘‘ والی کہاوت کے مصداق اقوام متحدہ کا ادارہ ایک ایسا فورم ضرور ہے کہ جس کے دروازے پر دستک دے کر کوئی بھی متاثرہ فریق اپنی فریاد پہنچا سکتا ہے اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکتا ہے۔

اگرچہ یہ ادارہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں پر عمل کرانے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں کرسکا ہے جس کے نتیجے میں بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ مسلسل جاری و ساری ہے، تاہم دنیا بھر کے امن پسند لوگ مسلسل اس ادارے کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں اور اس سے انصاف کے نام پر اپیلوں پر اپیلیں کر رہے ہیں۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے پیدا کی جانے والی کشیدگی کو کم کرانے میں مدد کرے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ 19 فروری کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ارسال کیے گئے اپنے خط میں ان کی توجہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی کی جانب مبذول کرائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پلوامہ کے حالیہ واقعے کو بہانہ بنا کر بھارت کے سیاسی رہنما پاکستان کے خلاف دھمکیاں دے رہے ہیں اور پلوامہ کے واقعے کو سندھ طاس معاہدے کے ساتھ جوڑ کر کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے اپیل کی ہے کہ اقوام متحدہ کشیدگی ختم کرانے کے لیے مداخلت کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کے نقطہ نظر کی تائید کرچکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔