عروسی ملبوسات کو مسئلہ نہ بنائیں 

اہلیہ محمد فیصل  منگل 26 فروری 2019
نمائش اور دکھاوا چھوڑیں، اپنی مالی استطاعت اور حقیقی ضرورتوں کو سمجھیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

نمائش اور دکھاوا چھوڑیں، اپنی مالی استطاعت اور حقیقی ضرورتوں کو سمجھیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

عروسی ملبوسات میں ماضی کے مقابلے میں جدت آچکی ہے اور اب عروسی ملبوسات کی تیاری باقاعدہ ایک صنعت ہے اور مختلف ڈیزائنرز اس حوالے سے مشہور ہیں جن کے نام پر ایسے بھاری اور منہگے عروسی ملبوسات فروخت ہوتے ہیں۔

شادیوں میں اسراف اور بے دریغ خرچ کرنے کا رجحان اب زیادہ زور پکڑ چکا ہے اور خاص طور پر دلہن کے میک اپ سے لے کر اس کے شادی کے جوڑے تک بہت زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹی وی ڈراموں اور فیشن سے متعلق پروگراموں کی وجہ سے بھی لڑکیاں بہت سے خواب سجالیتی ہیں اور شادی کے موقع پر والدین کے لیے ان کی خواہشات کو پورا کرنا ممکن نہیں رہتا۔

بات کی جارہی ہے متوسط طبقے کی جو خوشی کے اس موقع پر اولاد کی فرمائش اور خواہشات کو پورا کرنا چاہیں تو اس کے لیے قرض لینا پڑتا ہے جب کہ غریب تو دو جوڑے میں بیٹی کو دہلیز سے رخصت کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔ شادی ایک مقدس فریضہ اور سماجی ضرورت ہے جس میں ہر خاندان کو اپنی سہولت، آسانی اور اپنے مالی وسائل کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

اب دلہنیں سرخ رنگ کے جوڑے کے علاوہ میرون،کاسنی، پیچ رنگ بھی زیب تن کرتی ہیں۔ آج کل سفید عروسی جوڑے کا فیشن بھی عروج پر ہے۔ اسی طرح دولہا کی شیروانیاں بھی جدید ڈیزائن اور مختلف رنگوں کی ہو گئی ہیں۔ ملبوسات چاہے عروسی ہوں یا عام یہ اپنے دور کے فیشن اور جدید تقاضوں سے ہی ہم آہنگ ہوں تو اچھے لگتے ہیں، مگر عروسی جوڑے کی خاطر بہت سا وقت اور پیسا برباد کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔

شادی بیاہ کی تقریبات میں جہاں مہنگا شادی ہال، بہت سی ڈشز پیش کی جاتی ہیں، وہیں دلہنوں کے لباس پر بھی اسراف کیا جارہا ہے جو کہ کسی طور ایک صحت مند رجحان نہیں بلکہ یہ ایک خاندان کو مالی طور پر کم زور کررہا ہے۔ عروسی ملبوسات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس سے والدین کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ اکثر لوگ خود بھی اپنی شان و شوکت کا رعب جمانے کے لیے منہگے ڈریسز خریدنے کی کوشش کرتے ہیں جو نہایت افسوس ناک ہے۔

بے شک عروسی جوڑا زندگی میں ایک بار ہی بنتا ہے اور بڑے شوق اور اہتمام سے بنوایا جاتا ہے مگر اعتدال کے ساتھ ہر چیز بھلی لگتی ہے۔ پہلے کے وقتوں میں بھی دلہن کا جوڑا بڑے اہتمام سے بنوایا جاتا تھا، مگر آج کے دور میں فیشن، جدت اور نمائش کے نام پر بھاری رقم خرچ کی جاتی ہے جس سے بچنا بہت ضروری ہے۔

والدین خصوصا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس عروسی جوڑے کی خریداری میں بڑی ہی مشکل کا شکار نظر آتے ہیں، مگر کہیں بچیوں کی ضد کے آگے مجبور ہوتے ہیں اور کہیں سسرال والوں کی ڈیمانڈ سے پریشان ہوتے ہیں۔

نمود و نمائش کو ہمارے مذہب میں بھی ناپسند کیا گیا ہے۔ سادگی اپنانے کی ہدایت اور اسراف سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم دور حاضر میں اسٹیٹس اور جھوٹی شان و شوکت کی دوڑ نے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یوں تو سجنا سنورنا، آرائش و زیبائش اور فیشن کے مطابق مختلف شوخ رنگوں کے ملبوسات عورت سے متعلق ہیں،  لیکن آج کل دلہن کی طرح دولہا بھی عروسی لباس کی دوڑ میں آگے نظر آرہے ہیں۔ بعض اوقات دولہا کا لباس اتنا مضحکہ خیز  ہوتا ہے کہ دلہن اور دولہا میں تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

ایک اور اہم اور توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ عروسی جوڑا عام طور پر صرف زندگی میں ایک بار ہی پہنا جاتا ہے، پھر اسے پیک کر کے رکھ دیا جاتا ہے، بہت کم ہی لڑکیاں اسے دوبارہ کسی موقع پر استعمال کرتی ہیں اور کسی کو پہننے کے لیے دینے میں بھی بہت زیادہ تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کسی کو دلہن کا جوڑا مستعار دینے کے حوالے سے توہمات پائے جاتے ہیں اور یوں ہزاروں روپے کا یہ جوڑا فقط چند گھنٹوں پہننے کے بعد پیک کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے معاشرے میں منہگائی کا رونا رویا جا رہا ہے اور غریب تو چھوڑیے، متوسط طبقے کو شکایت ہے کہ اس کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنا مشکل تر ہو گیا ہے، مگر دوسری طرف یہی طبقہ شادی بیاہ کے موقع پر اسراف کرتا ہے اور اپنا پیسہ برباد کرتا نظر آتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم مل کر ایسی سوچ کا خاتمہ کریں، جھوٹی شان و شوکت اور نمائش کی حوصلہ شکنی کریں۔

ہمیں عروسی ملبوسات کے حوالے سے غیر ضروری جذباتیت اور انا کو ختم کر مثبت رجحان کو فروغ دینا ہو گا۔ بہتر یہ ہے کہ عروسی جوڑے پر اسراف کے بجائے اس رقم سے اپنی بچی یا بہو کے لیے کوئی ضرورت کی چیز خرید لی جائے جو ایک عرصے تک اس کے استعمال میں رہے اور اس کی خوشی کا باعث بنے۔

الغرض! سادگی اپنائیے اور اعتدال کے ساتھ خوشیوں پر خرچ کیجیے۔ ورنہ نمائش اور دکھاوا کر کے آپ کئی برس تک مقروض رہ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔