واٹر بورڈ؛ ڈیزل کی خریداری کی آڑ میں کروڑوں روپے کے گھپلے کا انکشاف

اسٹاف رپورٹر  جمعرات 1 اگست 2013
36 خراب سیور کلیننگ مشینوں کیلیے 18ہزار لیٹر ڈیزل کی رقم 20 لاکھ روپے ماہانہ خرد بردکیے جارہے ہیں، ذرائع  فوٹو: فائل

36 خراب سیور کلیننگ مشینوں کیلیے 18ہزار لیٹر ڈیزل کی رقم 20 لاکھ روپے ماہانہ خرد بردکیے جارہے ہیں، ذرائع فوٹو: فائل

کراچی: کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ میں ڈیزل کی خریداری کی آڑ میں کروڑوں روپے کے گھپلے کا انکشاف ہوا ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ پچھلے 2 سال سے واٹربورڈ کے کارساز آفس کی بجلی منقطع ہے جسے جنریٹر کے ذریعے بجلی فراہم کی جارہی ہے اور اس مد میں روزانہ ایک ہزار لیٹر یومیہ کا خرچ ہوتا ہے اس طرح کم وبیش ماہانہ 30 لاکھ روپے خرچ کردیے جاتے ہیں ، واٹربورڈ کے اعلیٰ حکام خود بجلی کی بحالی میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں کیونکہ اس بہتی گنگا میں وہ خود بھی ہاتھ دھورہے ہیں ، بجلی کی بحالی کی صورت میں ان کو ماہانہ لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا ، ذرائع نے بتایا کہ اسی طرح 36 سیور کلیننگ مشینیں جن کا ماہانہ کوٹہ 900 لیٹر فی مشین ہے۔

عمومی طور پر یہ مشینیں کام نہیں کرتی ہیں اور ایک مشین پر زیادہ سے زیادہ ڈیزل کی مد میں 4 سو لیٹر ماہانہ خرچ ہوتے ہونگے اور اس طرح 18 ہزار لیٹر ڈیزل اس مد میں خردبرد کیا جارہا ہے جس کی مالیت کم و بیش 20 لاکھ روپے بنتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اسی طرح پرانی 12 ٹریکٹر مشینیں طویل عرصے سے خراب پڑی ہوئی ہیں اور ان خراب مشینوں پر ہر ماہ 12 سو لیٹر ڈیزل فی مشین حاصل کیا جارہا ہے کہ جو کہ پورا پورا ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اس سارے کھیل کا ایک اہم کردار ایگزیکٹو انجینئر ورکشاپ علی احمد ہے جو کہ ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹرکے اسٹاف آفیسر کا دھرا چارج ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو مینجنگ ڈائریکٹر یہ کہتے ہیں کہ جن افسران کے پاس ڈبل چارج ہے ان سے ایک چارج لیا جائے تاہم ان کے اپنے سیکریٹریٹ میں متعدد افسران کے پاس ڈبل چارج ہیں، ذرائع نے بتایا کہ واٹربورڈ میں جس طرح ڈیزل اور پٹرول کے نام پر کروڑوں روپے کے فراڈ ہورہے ہیں اگر صوبائی وزیر بلدیات اس سارے معاملے کا نوٹس لیں اور اس سلسلے میں نیب اور اینٹی کرپشن سے تحقیقات کرائیں تو نہ صرف اہم انکشافات ہوسکتے ہیں بلکہ ذمے دار افسران کے خلاف سخت کارروائی بھی ہوجائے گی اور آئندہ کوئی آفیسر اس طرح کھل کر فراڈ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔