ہم بھی دیکھیں گے

عبدالقادر حسن  بدھ 27 فروری 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

کسی بھی ملک سے خصوصاً جب وہ پڑوسی بھی ہو اور برسوں ایک ملک کے شہری بھی رہے ہوں بگاڑ رکھنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ مسلمانوں نے بھارت میں ہندوئوں کے ساتھ رہنے کی ہمیشہ کوشش بھی کی ہے لیکن بانی پاکستان نے مایوس ہو کر ہندوئوں سے علیحدگی اختیار کی اور مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ آزاد وطن حاصل کیا۔

اگر ہندو بھارت کی سر زمین پر مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کر لیتے تو تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اور اکھاڑ پچھاڑ کی ضرورت نہ تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایسے ٹھنڈے مزاج کا مدبر علیحدہ وطن کا مطالبہ کبھی نہ کرتا۔ قائد اعظم ایک الگ وطن کے قیام پر مجبور کیوں ہوئے اس کا جواب ہندو لیڈروں کے مسلمانوں کے بارے میں رویئے سے ملتا ہے ۔ ہندوئوں کے ایک لیڈر ڈاکٹر مونجے کہتے تھے کہ جس طرح انگلستان انگریزوں کا ہے ، فرانس فرانسیسیوں کا اور جرمنی جرمنوں کا ہے اسی طرح ہندوستان ہندوئوں کا ہے۔

اگر مسلمان کسی سودے یا لین دین کے بغیر اشتراک چاہتے ہیں تو ہندو ان کے دوش بدوش آگے بڑھیں گے ورنہ ہندوئوں کو تیار رہنا چاہیے کہ وہ آزادی کی جنگ بغیر کسی قوم کی مدد کے لڑیں۔ کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار جواہر لال نہرو اور گاندھی نے بھی کیا گاندھی کے مطابق میں سوراج کے کتنے معنی بتائوں مگر میرے نزدیک سوراج کے معنی صرف ایک ہیں یعنی ہندو راج۔

ہماری نوجوان نسل جس کو تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ صرف جدید ٹیلیفونوں کے ذریعے ملنے والی غلط معلومات پر گذارا کر رہی ہے اس نوجوان نسل کو یہ بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ بھارت اور اس کے باسی ہندو مسلمانوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور ان کے ذہن میںپاکستان کے بارے میں کتنی نفرت بھری ہوئی ہے۔

ادھر ماضی قریب سے ہمارے پاکستانی نام نہاد بلکہ خود ساختہ دانشور اور چند ایک سیاستدانوں پر بھارت کے ہندو کے ساتھ دوستی کا بھوت سوار رہا ہے بعض اوقات ان میں کچھ دیہاڑی دار موسیقار بھی شامل ہو جاتے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کا ایک ٹولہ بھی اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا ۔ یہی دوستی کا جنون ہے جس کو ہوا دے کر ہم اپنی نئی نسل کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں اور ہماری نئی نسل یہ نہیں جانتی کہ ہندو ئوںکے مسلمانوں کے بارے میں کیا خیالات ہیںبلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہماری نوجوان نسل کو صرف یہی بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے ہیں اور ان کے اداکاروں کی طرح بنائو سنگھار کرنا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم مودی امن کو ایک موقع دیں اور اگر پاکستان کے بارے میں پلوامہ حملے میں ملوث ہونے کے بارے میں شواہد فراہم کیے جائیں تو وہ اپنے ایکشن لینے کے الفاظ پر قائم ہیں لیکن اگر بھارت کا خیال ہے کہ وہ من گھرٹ الزامات کے ذریعے پاکستان کو دبائو میں لے آئے گا تو یہ بھارت کی غلط فہمی ہے ۔

دراصل بات یہ ہے کہ بھارت جنگ کی گیڈر بھبکیاں دیتا رہتا ہے کیونکہ وہ یہ بات اچھی جانتا اور سمجھتا ہے کہ پاکستان کودفاعی محاذ پر شکست دینا قابل عمل نہیں ہے لہذا وہ جھوٹے الزامات کے ذریعے پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی ناکام کوشش کرتا آرہا ہے چونکہ اس کے الزامات من گھڑت ہوتے ہیں اس لیے ان کو عالمی برادری میں پذیرائی نہیں ملتی جس پر بھارت جھنجلا کر مزید الزام تراشیوں پر اتر آتا ہے۔

پلوامہ کا حالیہ حملہ بھارت کے اپنے دانشوروں کے بقول بھارت کے اندر سے ہواہے اور اس میں کوئی ایسے شواہد نہیں ملے جن سے یہ ظاہر ہو کہ اس معاملے میں پاکستان ملوث ہے مگر بھارتی سرکار نے بغیر سوچے سمجھے پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں لیکن جب پاکستان کی جانب سے بھارت کو اسی کے لہجے میں جواب دیا گیا تو بھارت سرکار فوراً ٹھنڈی پڑ گئی اوراب لگتا یوں ہے کہ جس جنون کا شروع میں اظہار کیا گیا ہے اس جنون میں کسی حد تک کمی آئی ہے شاید بھارتیوں کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔

اگر دونوں ملکوں کی فوجی طاقت کو دیکھا جائے تو وہ اس میں واضح فرق نظر آئے گا بھارت آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہونے اور بھارت کے اندر علیحدگی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے ایک بڑی فوج رکھنے پر مجبور ہے۔ بھارت کے اندر علیحدگی کی سب سے بڑی تحریک کشمیر کی ہے جس کو دبانے کے لیے بھارت کے مظالم کی داستانیں دنیا جانتی ہے مگر عالمی برادی اس ظلم کی راہ میں رکاوٹ بننے کو تیار نہیں۔ کشمیری اپنی آزادی کی جنگ خود لڑ رہے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں اور محسوس یوں ہوتاہے کہ بہت جلد ان کی قربانیاں رنگ لے آئیں گی ۔

وزیر اعظم عمران خان بھارتی حکومت کو مسلسل امن کا پیغام دے رہے ہیں اور بھارت کی جانب سے بھی امن کے پیغام کی توقع رکھتے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہمیشہ امن کی خواہش کا اظہار کرنے میں پہل کی ہے لیکن پاکستان کی اس خواہش کو اس کی کمزوری سمجھتے ہوئے بھارت نے ہمیشہ جارحیت کے ذریعے جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان جنگی جنون کی بدلتی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ صورتحال کسی ایک ملک کے لیے بھی سود مند نہیں۔

بھارت نے اگر جارحیت کرنے کی کوشش کی تواس کو اس کا خمیازہ بھگتا پڑے گا جس کا واضح اور صاف الفاظ میں پیغام پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے دے دیا ہے ۔ ان کی باتوں کا لب لباب ملک کا ہر قیمت پر دفاع ہے اور اس ہر قیمت کا مطلب بھارت اچھی جانتا بھی ہے اور سمجھتا ہے۔ آخر میں ایک لطیفہ جو آج کل کی صورتحال کے بارے میں بہت زیادہ گردش کر رہا ہے۔’’جنگ کی دھمکیوںکی وجہ سے پوری دنیا پریشان ہے لیکن پاکستانی یہ سوچ کر خوش ہو رہے ہیں کہ لڑائی ہوندیاں ویکھاں گے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔