ہماری مَن مانی

رمشاء رامین  جمعـء 24 اگست 2012
بڑوں کی بات ہمیشہ ماننی چاہیے اور اپنی من مانیاں نہیں کرنی چاہئیں۔ فوٹو: فائل

بڑوں کی بات ہمیشہ ماننی چاہیے اور اپنی من مانیاں نہیں کرنی چاہئیں۔ فوٹو: فائل

اعوان آباد، کلرسیداں: دوستو! ہماری عیدالفطر بہت ہی عجیب گزری۔ عیدالفطر کے اگلے دن ہمیں اپنی عزیزہ کے گھر لاہور جانا تھا۔ چناںچہ اگلے دن بھی ہم نے وہی عید والا سوٹ پہنا اور بڑے تیار ویّار ہوکر گھر سے نکلے۔ ہمارے ساتھ گھر والے تھے۔ اﷲ اﷲ کرکے بس تک پہنچے۔ بس کی اگلی چھے سیٹیں تو ہماری یعنی ہم سب گھر والوں کی تھیں۔ بس ضرورت سے زیادہ ہی وی آئی پی تھی۔ اس کے شیشوں پر ہر طرح کے مسافروں کے ’’فنگر پرنٹس‘‘ نمایاں تھے جس کی وجہ سے باہر کا نظارہ صحیح طور سے نہیں ہوپا رہا تھا۔

خیر۔۔۔۔ ایک جگہ پر بس رکی کیوںکہ دوپہر کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ مسافروں کو بھوک ستا رہی تھی۔ چناںچہ کھانا کھانے کے لیے ہوٹل میں گئے لیکن ہم اور ہماری دو کزنز بچپن ہی سے اپنے فیصلوں میں اٹل ہیں اس لیے ہم نے جو کھانا نہ کھانے کا فیصلہ کیا تھا، اسی پہ ڈٹی رہیں۔ ہمارے ساتھ آئے ہوئے باقی گھر والے تو سب مسافروں کے ساتھ کھانا کھانے چلے گئے مگر ہم نے کہا کہ ہم سامنے والی دکان سے آئس کریم، بوتلیں اور چپس کھائیں گی۔ ہم تینوں بس سے اتر کر دکان سے چیزیں لائیں اور بس میں بیٹھ کر کھانے لگیں۔ اتنے میں باقی مسافر بھی آگئے اور پھر بس چل پڑی۔

ایک گھنٹے بعد ہمیں بھوک ستانے لگی۔ امی سے پوچھا کہ منزل مقصود کتنی دور ہے؟ تو جواب ملا، پانچ چھے گھنٹے کا سفر رہتا ہے۔ پانچ چھے گھنٹے کا نام سن کر ہم چکرا گئے۔ ذرا سنبھلے تو اپنی کزنز کو آگاہ کیا۔ وہ بھی یہ سن کر پریشان ہوگئیں۔ تب ہم نے سوچا کہ اگر ہم بھی ہوٹل سے کھانا کھالیتیں تو شاید اس وقت بھوک نہ لگتی۔ خیر۔۔۔۔ اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ایک گھنٹہ گزرگیا تو ہم سے رہا نہ گیا۔ ہم نے اپنی پریشانی امی کو سنائی۔ امی نے ہمیں دو سنانے کے بعد مشورہ دیا کہ ’’ڈرائیور سے کہو کہ سفر لمبا ہے اور ہمیں بھوک لگ رہی ہے۔ لہٰذا، کسی ہوٹل کے قریب گاڑی روکو۔‘‘ ہم نے اپنا مسئلہ اور عرض ڈرائیور کو بتائی۔ اس نے بھی چار سناکر ایک ہوٹل کے قریب گاڑی روکی اور کہا کہ دس منٹ بعد وہ بس چلا دے گا۔

ہم جونہی بس سے اترے، ہماری کزن کا جوتا پھٹ گیا۔ وہ بے چاری جوتا گھسِٹتی ہوئی دو قدم چلی تو بولی، مجھ سے اور نہیں چلا جائے گا اور لاہور میں بھی کیا میں بِن جوتے کے جائوں گی؟ نہ بابا نہ! مجھے تو پہلے جوتے لینے ہیں۔ ہم چوںکہ بازار ہی میں اتری تھیں لہٰذا، جوتے لینے چل پڑیں۔ ایک دکان سے جوتے لیے۔ شُکر ہے کہ پیسے ہمارے پاس موجود تھے جو ہم نے دیے اور جوتے پہن کر واپس ریسٹورنٹ کی جانب چل پڑیں۔ لیکن یہ کیا۔۔۔۔؟ ہوٹل کہاں ہے؟ ہمیں تو راستہ ہی نہیں معلوم ہوا، کیوںکہ ہم جوتوں کی دکان کی تلاش میں پتا نہیں کہاں آگئی تھیں؟ اس موقع پر ہماری ایک کزن نے اس مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہوٹل وہیں ہے جہاں ہماری بس کھڑی ہے۔ لیکن جب ہم نے پوچھا کہ بس کہاں ہے؟ تو بے چاری چپ ہوگئی۔

اب تو ہمیں یہ خوف بھی لاحق ہوگیا کہ بس چلی ہی نہ گئی ہو۔ کیوںکہ دس چھوڑ، پچیس منٹ ہوچکے تھے۔ ہم نے بھاگم بھاگ بس کی تلاش شروع کردی۔ اسی لمحے ہمیں یاد آیا کہ ہمارا پرس کہیں گم ہوگیا ہے۔ ہم بھوک کے دو نئے مسئلوں میں پڑچکے تھے۔ اتنے میں ہمارا کزن دور سے ہمیں ڈھونڈتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ اس نے ہمیں ڈانٹا اور کہا، چلو! اتنی دیر ہوگئی ہے۔ ہم نے اسے سب کچھ بتانا مناسب نہ سمجھا اور اس کے ساتھ چل پڑیں۔ شُکر ہے بس موجود تھی، ہم تینوں اُس میں بیٹھ گئیں اور بس چل پڑی۔ ہم اپنی ایک مشکل کم کرنے گئی تھیں اور ایک اور ساتھ لے آئیں۔ بھوک تو اُڑ چکی تھی مگر بیگ کی یاد ستا رہی تھی۔

چند گھنٹوں بعد جب ہم لاہور پہنچیں تو ہماری حالت کچھ ناسازگار تھی۔ وہاں ہماری دوسری کزن ہماری راہ دیکھ رہی تھی۔ اس سے ساری روداد کہہ ڈالی مگر غم ہلکا نہ ہوسکا۔ تاہم، یہ سبق ضرور سیکھا کہ بڑوں کی بات ہمیشہ ماننی چاہیے اور اپنی من مانیاں نہیں کرنی چاہئیں۔ اس یادگارسفرکو ہم کبھی نہیں بُھلا پائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔