کاروکاری کا کلنک

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعـء 24 اگست 2012
tauceeph@gmail.com

[email protected]

حیدرآباد کی تعلیم یافتہ راحیلہ شیخ نے اپنی پسند سے اپنے پڑوسی ذوالفقار سہتو سے شادی کرلی۔ راحیلہ کے والدین نے ذوالفقار سہتو کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا۔ جب راحیلہ ذوالفقار سہتو کے ہمراہ حیدرآباد کی عدالت میں گئی تو اس کے وکیل بھائی نے راحیلہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ملزم نے بعد میں پولیس کی تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ اس نے خاندان کی عزت کے لیے بہن کو قتل کر دیا۔ لندن میں رہنے والی 17 سالہ شفیلیہ کو پاکستان میں موجود اپنے عزیز سے شادی نہ کرنے پر اس کے والدین نے قتل کر دیا۔ لندن کی ایک عدالت نے اس جوڑے کو 25 سال قید کی سزا سنائی۔ اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ شفیلیہ اپنے والدین کے طے کردہ طرزِ زندگی کو اپنانے کو تیار نہیں تھی۔

اس نے والدین کے طے کردہ رشتے کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے والد پاکستان میں ایک رشتے دار لڑکے سے اس کی شادی کرنا چاہتے تھے، شفیلیہ کے انکار پر اس کے باپ نے اپنی بیوی کی مدد سے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ شفیلیہ کی تین بہنیں اور بھائی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ پھر اس کی لاش کو پلاسٹک بیگ میں رکھ کر دریا میں بہا دیا گیا۔ کچھ عرصے پہلے کینیڈا کی ایک عدالت نے ایک افغانی خاندان کو اپنی تین لڑکیوں اور ایک اور عورت کو پانی میں ڈبو کر قتل کرنے پر سزا دی تھی۔ اسی طرح برسیلز کی ایک عدالت نے 2007ء میں ایک پاکستانی خاندان کے چار افراد کو اپنی ایک لڑکی کے قتل پر عمر قید کی سزا دی تھی۔ کاروکاری یا عزت کے نام پر قتل پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک میں عورتوں کے قتل کی ایک بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔

انسانی حقوق کے ادارے Human Rights Commission کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ایک ہزار عورتوں کو ان کے والدین، بھائیوں اور شوہروں نے محض عزت کے نام پر قتل کیا۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرداں غیر سرکاری تنظیم ’’عورت فائونڈیشن‘‘ کی تحقیق کے مطابق ہر سال عورتوں کے قتل کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ صرف 2011ء میں 2 ہزار 234 عورتوں کو قتل کیا گیا۔ اس طرح عورتوں کے اغوا کی 8 ہزار وارداتیں ہوئیں اور 3 ہزار سے زیادہ مجرمانہ حملے ہوئے یا انھیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ عورتوں کے مختلف حوالوں سے قتل کی رسم ہزاروں سال پرانی ہے۔

سندھ میں اس رسم کو ’’کاروکاری‘‘ کہا جاتا ہے اور عزت کے نام پر اپنی ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کو قتل کرنا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ دیہی معاشرے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ قبائلی اور جاگیردارانہ نظام میں عورت کی حیثیت ثانوی ہوتی تھی اور عورتوں کو مال مویشی ہی سمجھا جاتا تھا۔ ان قدیم معاشروں میں مرد دشمن کو سزا دینے کے لیے اپنی ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کو قتل کرا کے پھر اپنے دشمن کو قتل کرتے تھے اور عزت کے نام پر سزا سے بچ جاتے تھے۔ پھر ایسے معاملات پر قبائلی جرگوں میں فیصلہ ہوتا تھا۔ ان جرگوں کی خاص بات یہ ہوتی تھی کہ اس میں عورت کی کوئی نمایندگی نہیں تھی۔

ایک ہی قبیلے کا معاملہ ہو تو اس قبیلے کے سردار ہی فیصلہ کرتے تھے جو دونوں فریقوں سے رقم لینے کے بعد جرگہ منعقد کرتے تھے اور دو قبائل یا زیادہ کے درمیان تنازعہ ہو تو پھر ان قبائل کے سردار اور عمائدین مل کر فیصلہ دیتے تھے۔ مگر عورتوں کو ان جرگوں میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ یوں ہمیشہ مردوں کی بالادستی برقرار رہتی تھی۔ قدیم معاشروں میں تو یہ غیر قانونی معاملات چلتے تھے تاہم جدید معاشروں میں جہاں تحریری آئین موجود ہو قانون کے ذریعے عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہوں، وہاں عزت کے نام پر قتل سماج کی ساخت کی عکاسی کرتا ہے۔ چند سال قبل جب بلوچستان کے علاقے نصیر آباد کے ایک گائوں سے تین لڑکیوں کے قتل اور انھیں زندہ دفن کرنے کے واقعات ذرایع ابلاغ پر بحث کا موضوع بنے تو وفاقی وزیر ثناء اﷲ زبیری نے کاروکاری کی رسم کو درست قرار دیا تھا۔

اسی زمانے میں سندھی اخبارات میں سندھ کے مختلف گائوں کے مضافات میں ان قبرستانوں کے بارے میں تفصیلات شایع ہوئیں جہاں کاری قرار دی جانے والے عورتوں کو بغیر کفن اور نمازِ جنازہ پڑھائے بغیر دفن کردیا جاتا تھا۔ تاریخ کی کتابیں شاہد ہیں کہ انگریزوں کی آمد کے بعد برصغیر میں عورتوں کے قتل کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے ستی کی رسم پر پابندی لگادی تھی۔ ممتاز ہندو رہنما راجہ رام موہن رائے نے ہندوؤں میں ستی کی رسم کے خلاف مہم چلائی تھی۔ پھر سندھ کے انگریز کمشنر چارلس نیپئر نے کاروکاری کی رسم کو غیر قانونی اور غیر انسانی قرار دیا تھا۔

انھوں نے اپنے حکم نامے میں لکھا تھا کہ سندھ میں عورتوں کو جس بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ چارلس نیپیئر کا کہنا تھا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھیڑ بکریوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انگریز حکمراں کے اس فیصلے کے بعد انڈین پینل کوڈ میں عزت کے نام پر قتل کو سزا کا مستحق قرار دیا مگر اس قتل کی دفعہ کو دفعہ302 کے دائرے میں شامل نہیں کیا گیا۔ محمد علی جناح پہلے مسلمان سیاستدان ہیں جنہوں نے کمسن بچیوں کی شادی پر عائد قانونی پابندیوں کی حمایت کی اور عورت کے اپنی پسند سے شادی کے حق کے لیے آواز اٹھائی۔ محمد علی جناح کے رتی سے شادی کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا۔

برطانوی ہند کی عدالت نے محمد علی جناح کی عرضداشت پر عورت کے اپنی پسند سے شادی کے حق میں تاریخی فیصلہ دیا جو قانون کی کتابوں میں ایک اہم فیصلہ بن گیا۔ اس تمام صورتحال کے باوجود عورتوں کا کہنا ہے کہ جب تک مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوگا صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ یہ مائنڈ سیٹ صرف سندھ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ نہ صرف پورے ملک بلکہ بیشتر اسلامی ممالک میں بھی اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان کے باوجود صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی طور پر پسماندہ خاندان یورپ اور امریکا جا کر وہاں کی سہولتوں سے تو استفادہ کرتے ہیں مگر اپنی پڑھی لکھی لڑکیوں کو ان کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں آباد ایشیائی مسلمانوں میں شفیلیہ جیسی بچیوں کے قتل کی وارداتوں سے تمام ایشیائی افراد کی بدنامی ہوتی ہے۔

خواتین کے تحفظ اور عزت کے نام پر قتل کو روکنے کے لیے بہت سے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ ان اقدامات میں عزت کے نام پر قتل کو دفعہ 302 کے دائرہ میں لانا بھی ضرورت ہے اور دیت کے قانون کے تحت وارداتوں کے معاف کرنے پر قاتل کی رہائی کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔ کیونکہ بہت سے واقعات سے ثابت ہوا ہے کہ ایک خاندان میں باپ بیٹی کو قتل کرتا ہے تو اس کی بیوی ماں کی حیثیت سے اس کو معاف کردیتی ہے، یوں قاتل چند ماہ بعد ہی دندناتے پھرتے ہیں اور لوگوں کو اپنی عورتوں کو قتل کی ترغیب دیتے ہیں۔ دوسرے پویس والوں کا ان مقدمات میں سخت اجتناب ہونا چاہیے تا کہ وہ رعایت کو اپنی پیشہ وارانہ فرائض سے خارج کر دیں۔ پھر تعلیمی نصاب میں عورت مرد کی برابری اورعورت کے تمام حقوق سے متعلق ابواب کا بھی تفصیلی سے ذکر ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو آگہی کی مہم کو مستقل طور پر جاری رکھنا چاہیے۔ شاید کہیں کسی ذہن میں تبدیلی آ ہی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔