کیا پاک بھارت جنگ چھڑ جائے گی؟

علیم احمد  جمعـء 16 اگست 2019
کیا پاک بھارت جنگ، تیسری جنگِ عظیم کا نقطہ آغاز بن جائے گی؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا پاک بھارت جنگ، تیسری جنگِ عظیم کا نقطہ آغاز بن جائے گی؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’جب تک فریقین یہ جانتے ہیں کہ جتنا زیادہ اور ہلاکت خیز اسلحہ ہمارے پاس ہے، اتنا ہی زیادہ اور ہلاکت خیز اسلحہ ہمارے مخالف کے پاس بھی ہے، تب تک اگلی جنگ کا کوئی امکان نہیں۔‘‘ یہ الفاظ ہیں آنجہانی ایڈورڈ ٹیلر کے، جو انہوں سرد جنگ کے دوران امریکا اور سوویت یونین میں ممکنہ جنگ پر بات کرتے ہوئے کہے تھے۔ لیکن کیا یہ رائے آج بھی درست ہے؟ کیا پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوگی؟ اور اگر جنگ ہوئی تو اس سے خطّے اور ساری دنیا کا کیا نقصان ہوگا؟

پلوامہ حملہ، بھارت کی احمقانہ اور جعلی سرجیکل اسٹرائیکس، رات میں بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے ساتھ پاکستانی آبادیوں پر ایک بار پھر گولہ باری، پاک فوج کی کارروائی اور دو بھارتی لڑاکا طیاروں کی تباہی، بھارتی پائلٹ گرفتار، بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستانی ایف سولہ طیارے گرانے کے بھارتی دعوے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی تردید، نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا خصوصی اجلاس، وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب، سوشل میڈیا پر (دونوں طرف سے) جنگی جذبات کو ہوا دینے والی پوسٹس… حالات بظاہر اسی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ شاید دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔

لیکن واضح رہے کہ یہ صرف ایک امکان ہے؛ اور امید ہے کہ دونوں ممالک سمجھداری کا ثبوت دیں گے۔ کم از کم ڈی جی آئی ایس پی آر کی تازہ پریس کانفرنس کے بعد یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان، ایسی کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں، پہل نہیں کرے گا۔ البتہ، شاید بھارتی چینلوں پر جنگی جنونیوں کا قبضہ ہے جو بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کےلیے مسلسل اکسا رہے ہیں۔

فرض کرتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ چھڑ جاتی ہے۔ اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، بھارت سب سے پہلے پاکستان کی شہری آبادی کو نشانہ بنائے گا۔ جنگ کے شدت اختیار کرجانے کی صورت میں دونوں ممالک اپنے آخری حربے، یعنی ایٹم بموں کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوگیا تو (ایک اندازے کے مطابق) دونوں ممالک میں مجموعی طور پر کم از کم دو کروڑ سے ڈھائی کروڑ ہلاکتیں ہوں گی۔ اس میں ایٹمی تابکاری کے باعث بھیانک بیماریاں اور نسل در نسل پھیلنے والی تباہی شامل نہیں جو مذکورہ تعداد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تعداد میں لوگوں کو متاثر کریں گی۔ بھارت چاہے یہ جنگ جیتے یا ہارے، دونوں صورتوں میں اسے زیادہ نقصان ہی اٹھانا پڑے گا کیونکہ اوّل اس کی آبادی، پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے جبکہ وہاں کے شہر بھی کہیں زیادہ گنجان آباد ہیں۔

لیکن بات صرف یہیں پر نہیں رکے گی۔

اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی جنگ ہوگئی تو وہ صرف دو ملکوں کے درمیان جنگ نہیں ہوگی بلکہ، یقینی طور پر، تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز بھی ہوگی۔ اگر ہم براعظم ایشیا کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تین ایسے ملکوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں جو ایٹم بموں سے بھی لیس ہیں: بھارت، چین اور پاکستان۔ موجودہ حالات کے تناظر میں چین کا درمیان میں نہ آنا بہت مشکل ہوگا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی امریکا، بھارت ہی کا ساتھ دے گا اور مختلف حربوں سے پاکستان کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ اس مقصد کےلیے وہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے حلیف ممالک سے بھی مدد لے گا۔ ایران اور افغانستان، دونوں ہی بھارت کے حمایتی بنیں گے اور تمام اطراف سے دباؤ ڈال کر پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں بھارت کا ساتھ دیں گے۔

ون بیلٹ ون روڈ (المعروف بیلٹ اینڈ روڈ) منصوبے پر چین کی بہت زیادہ سرمایہ کاری ہے اور تزویراتی اعتبار سے پاکستان اس کےلیے غیرمعمولی طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ ناممکن ہوگا کہ وہ اس معاملے میں الجھنے سے خود کو روک پائے… وہ بھی اس جنگ میں شریک ہوجائے گا اور پھر شاید ہمارا سامنا ایک ایسی جنگ سے ہو جو ناقابلِ یقین عالمی تباہی پر منتج ہو۔ ضروری نہیں کہ ساری کی ساری دنیا ختم ہوجائے لیکن فی الحال اس تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہ ہو؛ اور موجودہ حالات کا سبب کچھ اور ہو۔

مودی سرکار کی ذہنی سطح اور مکارانہ سوچ سے سب واقف ہیں۔ مسلمانانِ گجرات کا یہ قاتلِ اعظم صرف اس وقت تک بہادر ہے جب تک اس کا سامنا کمزوروں سے ہے۔ اس کی سوچ وہی ہے جو بی جے پی اور شیوسینا کے دہشت گردوں کی ہے: کمزور اور اکیلا دیکھ کر ہجوم سے گھیرو اور پھر مارو۔ لیکن اگر کہیں پلٹ کر وار کردیا، اور کرارا سا جواب دے دیا تو چپ کرکے بیٹھ جاؤ… بلکہ بھاگ جاؤ۔

چانکیہ فلسفہ، جو بھارت کی سیاسی ڈاکٹرائن بھی ہے، دوسری بہت سی چالاکیوں اور مکاریوں کے ساتھ ساتھ، مضبوط مدِمقابل کی صورت میں ’’بھاگ جاؤ‘‘ کا درس بھی دیتا ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاک فوج کی آج کی کارروائی کے بعد بھارت کا میدانِ جنگ میں اترنا تقریباً ناممکن ہے۔ اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو وزیراعظم سے لے کر پاک فوج کے سپہ سالار تک، سب بار بار ایک ہی بات کررہے ہیں: جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، آئیے مذاکرات کرکے باہمی تنازعات و مسائل حل کرتے ہیں۔

یادش بخیر، مئی 1998 میں بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکے کیے (بھارت نے اپنے اوّلین ایٹمی دھماکے 1974 میں کیے تھے)۔ خطّے پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ بھارت کی عسکری اور سیاسی قیادت، دونوں ہی پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگیں اور پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ یہاں تک بتایا گیا کہ اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیارے، سری نگر ایئرپورٹ پر تیار کھڑے ہیں جو کسی بھی وقت پرواز کرکے مظفر آباد (آزاد کشمیر) کو ہدف بنانے کے بعد، اسلام آباد کو تباہ کر ڈالیں گے۔

لیکن 28 مئی 1998 کے روز پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کردیئے۔ اس کے بعد بھارتی رویہ ایسے تبدیل ہوا جیسے اس سے زیادہ امن پسند اِس دنیا میں کوئی اور ہی نہیں۔ اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیارے جہاں سے آئے تھے، وہیں واپس چلے گئے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو ’’میدانِ عمل‘‘ میں تنبیہ کرنا، اسے وارننگ دینا بھی پاکستان کی مجبوری ہے ورنہ وہ ذرا سی دیر میں آپے سے باہر ہونے لگتا ہے۔

ہاں! اتنا ضرور ہوا کہ مودی سرکار کو الیکشن جیتنے کےلیے نیا ’’مُدّا‘‘ (مدعا) مل گیا۔ اب اس کے امیدواران بڑی آسانی سے اپنے ووٹروں کی توجہ مقامی مسائل سے ہٹا کر سرحدی کشیدگی کی طرف لے جائیں گے، پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر الیکشن جیتیں گے، اور ایک بار پھر ’’سیکولر بھارت‘‘ پر بے جے پی اور اس جیسے انتہاء پسند ہندوؤں کی حکومت قائم ہوجائے گی… اور یہی تو وہ چاہتے ہیں!

تو اے میرے پیارے قارئین! گزارش ہے کہ زیادہ پریشان نہ ہوں۔ کچھ روز یہ دھما چوکڑی رہے گی؛ اور بھارت میں انتخابات کے بعد سناٹا چھا جائے گا۔ بہتر ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونا چھوڑیئے اور کچھ سمجھداری کا، کچھ بردباری کا ثبوت دیجئے ورنہ، خاکم بدہن، ایک ایسی تباہی کےلیے تیار رہیے جس کے سامنے بے روزگاری اور بیماری تک کو بھول جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔