الوداع فخرو بھائی الوداع

اسلم خان  جمعرات 1 اگست 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

وہی ہواجس کا ڈر تھا۔ ہمارے پیارے فخرو بھائی پانچویں بار بھی از خود مستعفی ہو گئے۔ لیکن اپنے فرائض منصبی پورے کرنے کے بعد رخصت ہوئے ہیں۔ قوم کو بیچ منجدھار نہیں چھوڑا۔ جس کے لیے بعض عناصر نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا کہ عام انتخابات سے پہلے ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ سدا کے جذباتی فخرو بھائی مشتعل ہوکر مستعفی ہو جائیں اور عام انتخابات غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو جائیں۔ لیکن نرم و گرم چشیدہ فخرو بھائی بھی اس کھیل کو سمجھ چکے تھے۔ اس لیے ایسی تمام سازشوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر ڈٹے رہے۔

جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے استعفیٰ میں کہا ہے کہ ارکان پارلیمان اور قوم کے اصرار پر میں نے یہ منصب قبول کیا تھا جس میں میری خواہش شامل نہیں تھی،  اب جب کہ عام انتخابات ہو چکے ہیں، پہلی بار آئینی طریق کار کے مطابق انتقال اقتدار کے تمام مراحل مکمل ہو چکے ہیں، نئی پارلیمان کی تشکیل ہو چکی ہے۔ میری مخلصانہ رائے میں یہ نومنتخب پارلیمان کا حق ہے کہ آئینی طریق کار کے مطابق باہمی صلاح مشورے سے نئے چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب کریں۔ جسے 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد لیے مناسب وقت مل سکے۔

دل پرہاتھ رکھ کر سوچیے 18 کروڑ میں کتنے ہیں جو اس طرح مفت ہاتھ آئے ہوئے اختیار اور اقتدار کو ٹھوکر مار سکیں، ایک نہیں پانچویں بار از خود مستعفی ہونے کا ریکارڈ تو شاید صرف فخرو بھائی نے قائم کیا ہے! واہ فخرو بھائی! آپ نے بھی کیا کمال کر دیا ہے نہ پارسائی کا دعویٰ، نہ قوت، اختیار اور اقتدار سے بچنے کی ڈرامے بازیاں لیکن جب بھی موقع ملا ، آپ نے تارک الدنیا درویش کی خو نہ بدلی۔

فخرو بھائی نے تو ایک بار پھر اقتدار اور اختیار کے دیوانوں کو قناعت کا درس دیا ہے جو دعووں کی حد تک اُمیدواری کو حرام اور اقتدار کی خواہش کو ناجائز قرار دینے کے باوجود اس کے لیے مرے جاتے ہیں۔ ہر جائز نا جائز ہتھکنڈے سے گریز نہیں کرتے اور ساتھ ساتھ قال قال رسول اللہؐ کا ورد بھی کیے جاتے ہیں۔ ان منافقین کے منہ پر فخرو بھائی نے زور دار طمانچہ رسید کیا اور خاموشی سے رخصت ہو گئے۔

فخرو بھائی نے اپنے استعفیٰ میں اپنی خدمات کے بلند بانگ دعوے نہیں کیے لیکن عام انتخابات کے دوران قوم کی مجموعی قربانیوں کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے پہلی بار انکشاف کیا ہے کہ انھیں ذاتی طور پر دھمکیاں دی جاتی رہیں اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنایا گیا لیکن میں خاموشی سے عام انتخابات کو رکوانے کے لے سرگرم عمل قوتوں کے سامنے کھڑا سینہ سپر رہا۔

فخر الدین جی ابراہیم تمام تر اصرار کے باوجود چیف الیکشن کمشنر بننے کے لیے آمادہ نہیں تھے، اس لیے صدر آصف علی زرداری کو ذاتی طور پر ان کے پیر و مرشد، سیدنا برہان الدین سے درخواست کرنا پڑی تھی لیکن اب کی بار فخرو بھائی کا استعفیٰ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ وہ انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد ایک دن زائد بھی اپنے منصب پر فائز نہیں رہنا چاہتے تھے۔

فخرو بھائی اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت خوش و خرم رخصت ہوئے کہ عام انتخابات کے بعد عضو معطل بن کر اپنے منصب سے چمٹے رہنا اُن کو کسی طور پر گوارا نہیں تھا۔ آئینی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے انھوں نے عام انتخابات کو صاف شفاف اور پر امن بنانے کے لیے اپنی آخری اننگ پیرانہ سالی کے باوجود بڑے طمطراق سے کھیلی۔ اگرچہ الیکشن کمیشن میں چاروں صوبائی حکومتوں کے نامزد کردہ ارکان ایک لمحے کے لیے بھی اکل کھرے اور سادہ اطوار فخرو بھائی سے ہم آہنگ نہ ہو سکے کہ وہ آئین اور قانون کے بجائے اپنے نامزد کنندگان کے زیادہ وفادار تھے اور انھوں نے ہر مرحلے پر حق وفاداری کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔

بہر حال پیارے فخرو بھائی کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اس راز سے پردہ اُٹھانا ہو گا، اس سوال کا جواب دینا ہو گا کہ بار بار اور پر زور اصرار کے باوجود کراچی شہر میں پولنگ بوتھوں پر فوج کی تعیناتی کیوں نہیں ہو سکی تھی جس کی وجہ سے شہر نگاراں کے باسی آزادانہ ماحول میں اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کر سکے۔ صرف ڈاکٹر عارف علوی اپنے بے مثال حوصلے اور حکمت عملی سے کامیابی کی منزل پا سکے جب کہ ساری دنیا میں جہاد برپا کرنے کے دعوی دار، اپنے ووٹوں کی حفاظت کرنے اور بزعم خود مقامی ’طاغوت‘ کا مقابلہ کرنے کے  بجائے چڑھتی دوپہر میں دم دبا کر بھاگ گئے، بائیکاٹ کر گئے کہ انھیں صرف عالمی طاغوت کا مقابلہ کرنے کا کاروبار مرغوب اور پسند ہے۔

فخرو بھائی سے اس کالم نگار کو زیادہ راہ و رسم نہیں رہی کہ وہ اپنی ذات میں مگن رہنے والے بزرگ تھے۔ اُن سے آخری ملاقات یکم، دو مئی کو کراچی جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں ہوئی تھی جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ فرائض مکمل ہونے کے بعد ایک لمحے کی تاخیر نہیں کروں گا واپس گھر چلا جائوں گا۔ بچوں جیسی معصومیت اور دل آویز مسکراہٹ والے فخرو بھائی کے ہاتھوں کو بوسا دیا تو کہنے لگے کیوں گنہگار کرتے ہو اور پھر انھیں یاد دلایا کہ کس طرح ہم نے انھیں آخری بار مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا۔

اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ 1997ء میں جب لغاری سردار فاروق احمد خان نے اپنی ’بہن‘ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تو اپنی ساکھ بنانے کے لیے منت سماجت کر کے اور کڑے احتساب کے خواب دکھا کر فخرو بھائی کو وزیر قانون بننے پر آمادہ کر لیا، پھر ایک مقدمے میں ان سے مشورہ کیے بغیر کراچی کے ایک وکیل کو سرکاری طور پر نامزد کر دیا جو قواعد کی خلاف ورزی تھی۔

’اپنا گریبان چاک‘ والے مطیع اللہ جان ان دنوں ایک خبررساں ادارے میں اس کالم نگار کے ساتھی رپورٹر تھے۔ آئین اور قانون کی پیچیدگیوں اور نزاکتوں کا کماحقہ ادراک رکھنے والے مطیع اللہ جان نے فخرو بھائی سے رابطہ کر کے ان کا موقف جاننا چاہا تو فخرو بھائی نے کہا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو میرے استعفیٰ کا انتظار کرو اور پھر شام تک فخرو بھائی اپنا کام دکھا چکے تھے۔ کہتے ہیں کہ مرحوم فاروق لغاری نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے فخرو بھائی کی بڑی منتیںکیں، انھیں وزیر تعلیم بنانے کی کوشش کی لیکن فخرو بھائی کو بھلا کون سمجھا سکتا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم ایک بار پھر مستعفی ہو چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی آخری اننگ بھی شاندار طریقے سے کھیلی ہر چند کہ کچھ کم ظرفوں نے ان پر انگلیاں اُٹھائیں لیکن وہ فخرو بھائی کی سچائی اور سادگی کے نور سے روشن شبیہہ کو نہ دھندلا سکے۔ ان کے قدموں کے روشن نقوش پا آنے والے زمانوں میں ہماری آیندہ نسلوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔

الوداع فخرو بھائی الوداع!

حرف آخر یہ کہ ریاض سے آمدہ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کو رمضان کے آخری عشرے میں اسامہ بن لادن کی تلاش میں معاونت کرنے والے امریکی ایجنٹ شکیل آفریدی اور ماضی کے کمانڈو اور آج کے قیدی جنرل پرویز مشرف کی رہائی کے لیے بے پناہ ’برادرانہ‘ دبائو کا سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انھیں استقامت عطا فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔