اگلی باری ہری پور جیل کی ہے

نصرت جاوید  جمعرات 1 اگست 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ڈیرہ اسماعیل خان پاکستان کے کسی دور دراز کونے میں بسا کوئی چھوٹا قصبہ نہیں ہے۔ پنجاب اور خیبرپختون خوا کے سنگم پر واقع ایک تاریخی شہر ہے جس کی اپنی بڑی قدیم روایات ہیں۔ پھولوں سے پیار کرنے والے اس شہر کو ’’ڈیرہ۔۔۔ پھلاں دا سہرا‘‘ بھی کہا جاتا ہے جس کے لوگ سادہ، مہمان نواز اور دل سے محبت کرنے والے ہیں۔ اس شہر کی دفاعی حوالوں سے بھی بڑی اہمیت ہے۔ میانوالی اور بھکر کے ذریعے اس کے راستے ہماری چند بڑی اہم تنصیبات اور آبی ذخائر کی طرف جاتے ہیں۔ پھر ٹانک ہے جو اسے جنوبی وزیرستان کے لوگوں اور وہاں کی ثقافت سے جوڑتا ہے اور پھر پشتونوں کے وہ تاریخی مقامات اور پڑائو جو بلوچستان کے ژوب تک چلے جاتے ہیں۔

اس شہر کی پولیس اور انتظامیہ کے لیے فرقہ واریت اور دہشت گردی بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بیرونی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بہت سارے خواتین و حضرات گزشتہ چند برسوں سے خود کو اس گمان میں مبتلا کیے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی نائن الیون کے بعد امریکا کے افغانستان پر قبضے سے شروع ہوئی۔ ڈرون حملوں نے اس کی شدت میں اضافہ کر دیا۔ امریکا ڈرون حملے روک دے، افغانستان سے واپس چلا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے اکثر میرا دل چاہتا ہے کہ ایک Crash Course کا بندوبست کروں تا کہ انھیں سمجھ میں آ سکے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر وحشت و بربریت کا آغاز نائن الیون سے نہیں ہوا تھا۔ پہلی اینٹ جنرل ضیاء نے 1979ء میں اپنے ایک فیصلے سے رکھ دی تھی۔ اس کے بعد ایران اور عراق کی جنگ شروع ہو گئی۔ ان دونوں ’’برادر ملکوں‘‘ نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے پاکستان کی سر زمین پر بھی اپنے اپنے چہیتوں کے گروپ بنائے۔ جنرل ضیاء کو مگر خوف اس بات کا رہا کہ اس کے خلاف تمام سیاسی قوتیں جمع ہو کر جمہوریت کو بحال کرنے کی مہم نہ چلا دیں۔

پھانسیوں اور کوڑوں سے وہ اس جدوجہد کے امکانات کی بے دردی کے ساتھ بیخ کنی کرتا رہا۔ شدت پسند مولویوں کو اس ضمن میں اس نے اپنا حواری سمجھا جو سادہ لوح نوجوانوں کو مذہب کے نام پر بجائے اس دنیا میں عزت و وقار سے زندہ رہنے کے ’’شہادت‘‘کے ذریعے جنت میں جانے کے راستے دکھاتے رہے۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں ہی 1980ء کے ابتدائی سالوں میں ڈیرہ اسماعیل بھی فرقہ وارانہ تفریق کا نشانہ بنا اور اس وقت سے آج تک اس تفریق میں مزید شدت آتی چلی گئی۔ اسی شدت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہماری حکومتوں کو ہمیشہ ایسے ضلعی اور پولیس افسران کی شدید ضرورت رہی ہے جو صرف دیانت دار ہی نہیں امنِ عامہ سے متعلق تمام امور اور جہتوں کو پوری طرح سمجھتے بھی ہوں اور ناگہانی حالات میں Quick Response اور قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال۔

اس سارے پس منظر کی موجودگی میں ہماری سیاسی قیادت اور میڈیا کی اکثریت منگل کی رات کو ہونے والے اس حملے کے بارے میں سفاکانہ اور مجرمانہ حد تک بے حس نظر آ رہی ہے جس کے ذریعے طالبان کے ایک بڑے ہجوم نے 20 گاڑیوں کو استعمال کرنے کے بعد انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کی طرح انگریزوں کے زمانے میں بنائی ایک جیل کو توڑ کر اس پر قبضہ کر لیا۔ جیل پر اپنا قبضہ جما لینے کے بعد ان لوگوں نے میگا فونز کے ذریعے نام لے لے کر ان قیدیوں کو اکٹھا کیا جن کی رہائی انھیں مقصود تھی۔ پانچ گھنٹے تک جاری اس کارروائی کے بعد وہ 200 سے زیادہ قیدیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اپنے تئیں عالم اسلام کی واحد ایٹمی ریاست بنی، ہماری حکومت اس سارے واقعے میں کہیں موجود نظر نہ آئی۔ اب حسبِ روایت ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو تحقیقات وغیرہ کرے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ ہم خوب جانتے ہیں کچھ بھی نہیں۔

اپنی خفت مٹانے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی کا قیام تو اس صورت مزید احمقانہ نظر آ رہا ہے جب ایک سے زیادہ قابل اعتبار اخبار نویسوں نے تاریخوں کے ساتھ وہ خطوط شایع کر دیے ہیں جن کے ذریعے مختلف انٹیلی جنس اداروں نے متعلقہ حکام کو بار بار متنبہ کیا تھا کہ پچھلے سال ہونے والے بنوں جیل کی طرح کا ایک حملہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر بھی ہونے والا ہے۔ مشتری ہوشیار باش۔

جب سے اس ملک میں ٹیلی ویژن کے لیے کی جانے والی صحافت کا آغاز ہوا ہے، ہم صحافیوں کا سارا غصہ اور توجہ صرف سیاست دانوں پر مرکوز رہتی ہے۔ میں ان کی نا اہلیوں کے دفاع کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ مگر ہمیں یہ بھی تو یاد رکھنا چاہیے کہ پولیس اپنے طور پر ایک ادارہ ہے۔ ریاست کے وسائل سے بنائے اس ادارے کا بنیادی کام ہی امنِ عامہ کو یقینی بنانا ہے۔ پولیس کی باقاعدہ بھرتی ہوتی ہے۔ اس کے بعد اچھی خاصی تربیت۔ بعد ازاں مختلف جگہوں پر پوسٹنگز کے ذریعے مرحلہ وار ترقیاں اور بالآخر ریٹائرمنٹ جس کے بعد تا عمر پنشن اور دیگر مراعات وغیرہ۔ اس ادارے کے لگے بندھے اور تقریباََ صدیوں کے تجربے کے بعد بنائے گئے ضوابطِ کار ہیں۔

کوئی انٹیلی جنس ادارہ جب کسی ضلع کی پولیس اور انتظامیہ کو کسی ممکنہ انہونی کے بارے میں باقاعدہ مراسلت کے ذریعے ٹھوس اطلاعات فراہم کرتا ہے تو ان اطلاعات کی روشنی میں ممکنہ خطرات  سے نبرد آزما ہونے کے لیے کسی ضلع کی پولیس اور انتظامیہ کو اپنے سیاسی سربراہو ں سے اجازت وغیرہ لینے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں ان کا یہ حق ضرور ہے کہ وہ ممکنہ واقعات کی روشنی میں اپنی صلاحیتوں کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے مزید ایسے وسائل کا مطالبہ کریں جو انھیں ناگہانی صورت حال سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب بنا سکتے ہیں۔ برسوں روزمرہ کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے کے بعد لیکن اب میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہماری پولیس اور ضلعی انتظامیہ اپنے مخصوص فرائض کو ادارہ جاتی خود مختاری کے بھرپور استعمال کے ذریعے انجام دینے کے عادی نہیں رہی۔

عمومی کرپشن سے کہیں بڑھ کر یہ مسئلہ مجموعی نا اہلی کا بن چکا ہے جس کا تدارک فوری طور پر کرنے کا بندوبست ہونا چاہیے۔ یہ سب نہ ہوا تو ڈیرہ اسماعیل خان کے بعد اگلی باری ہری پور جیل کی ہے اور پھر اس کے بعد یہ سلسلہ تھم کر نہ دے گا۔ امریکی افواج 2014ء کے اختتام پر افغانستان سے چلی جائیں گی۔ میڈیا میں ہم امریکی افواج کی اس پسپائی کو ’’اسلام کی فتح‘‘ کے طور پر بڑے فخر سے پیش کریں گے۔ ایسا کرنے کے بعد ہم بہت ہی سادہ لوح ہوں گے، اگر یہ باور کر بیٹھیں کہ امریکا جیسی سپر پاور کو ’’شکست‘‘دینے کے بعد ’’مجاہدین‘‘بندوقیںپھینک کر کھیتوں میں ہل چلانا، ہمارے گھروں میں کھانے پکانا اور ان کی چوکیداریاں شروع کر دیں گے۔ ’’فاتحین‘‘ کے لشکر اپنی تاریخی اور اتنی بڑی کامیابی کے بعد آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ وہ خوش نصیب جن کے پاس وسائل ہیں، اس پیش قدمی کے بعد ’’محفوظ ملکوں‘‘ کو ہجرت کر جائیں گے۔ بس ہم اور ’’فاتحین‘‘ یہاں رہ جائیں گے۔

لوں میں بس گئی۔ مطلب یہ ہے کہ شیکسپیئر کو تو ہم اردو کا جامہ پہنا سکتے ہیں۔ جامہ اچھا برا جیسا بھی ہو یہ شیکسپیئر کی قسمت ہے۔ مگر کرکٹ کے باب میں ہم کمنٹری تو اردو میں کر سکتے ہیں‘ خود کرکٹ کو اردو کا جامہ نہیں پہنا سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔