بلوچستان میں پائیدارامن قائم کرنے کی ضرورت ہے

ایکسپریس اردو  جمعـء 24 اگست 2012
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں ڈاکٹر غلام رسول اغوا کیس کی سماعت کے دوران آئی جی پولیس اور سیکریٹری داخلہ کی جانب سے اغوا کے کیسز میں پیش رفت سے متعلق بریفنگ اور رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں ڈاکٹر غلام رسول اغوا کیس کی سماعت کے دوران آئی جی پولیس اور سیکریٹری داخلہ کی جانب سے اغوا کے کیسز میں پیش رفت سے متعلق بریفنگ اور رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں بلوچستان کے حالات میں بہتری آئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں معاملات تاحال اطمینان بخش نہیں ہوئے ہیں‘ وہاں نہ صرف اغوا اور قتل کی وارداتیں جاری ہیں بلکہ دہشت گردی کے واقعات بھی روزانہ کی بنیاد پر رونما ہو رہے ہیں اور بدامنی تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ وہاں عام آدمی کو تحفظ حاصل نہیں ہے لیکن سرکردہ لوگوں کی سیکیورٹی کا سامان موجود ہے اسی لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں ڈاکٹر غلام رسول اغوا کیس کی سماعت کے دوران آئی جی پولیس اور سیکریٹری داخلہ کی جانب سے اغوا کے کیسز میں پیش رفت سے متعلق بریفنگ اور رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ اغوا کی وارداتوں میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

چیف جسٹس نے غیرقانونی گاڑیوں کے خلاف مہم چلانے کی ہدایت کی۔ انھوں نے اگلی سماعت پر سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو ہدایت کی وہ موٹر وہیکل آرڈیننس کے تحت رجسٹرڈ ہونے والی گاڑیوں کی مفصل رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ چیف جسٹس کی جانب سے غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا حکم غالباً اس لیے دیا گیا ہے کہ ایسی گاڑیاں وارداتوں میں استعمال ہوتی ہیں اور ظاہر ہے جب ایسی گاڑیاں موجود نہیں ہوں گی تو دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کی وارداتوں کا اندیشہ کم ہو جائے گا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں بالکل درست کہا ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے‘ حکومت کو جرائم پیشہ افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہیے۔

ان کا یہ کہنا بھی صائب ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں اگر بااثر افراد جرائم ملوث پائے جائیں تو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ ہمارے خیال میں بلوچستان میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیے چیف جسٹس کے احکامات پر عمل کرنا ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ہی کافی تاخیر ہو چکی ہے اور مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ بلوچستان کے حالات کو ٹھیک کر دے گی‘ مشرف کے دور میں بھی یہ باتیں ہوتی رہیں اور موجودہ حکومت بھی یہی نعرہ لگاتی رہی لیکن معاملات میں اطمینان بخش تبدیلی نہیں آئی۔

جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان حکومتوں نے اس مسئلے کی نوعیت اور شدت کو پہچانا ہی نہیں‘ گمبھیر صورتحال کے تدارک کے لیے اقدامات کیا کرتی‘ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے ایک پیکیج کا اعلان کیا جس پر کسی حد تک عمل درآمد بھی ہوا لیکن اس معاملے پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی توجہ کا یہ مسئلہ متقاضی تھا‘ اس معاملے میں حکومت کی دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کئی بار بلوچستان کے ایشو پر گول میز کانفرنس بُلانے کا اعلان کیا لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود وہ ایسی کوئی کانفرنس نہ بُلا سکے۔ اب جب کہ راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ اس اہم صوبے کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے باتوں سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔