کیا ہم آزاد ہیں؟

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعرات 1 اگست 2013
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

بلاشبہ آج عالم اسلام کے وہ ممالک جہاں بدامنی، انارکی،انتشاراوردہشت گردی کا راج ہے ان میں بیرونی ہاتھ پوری قوت کے ساتھ ملوث ہے،ان متاثرہ ممالک میں بد قسمتی سے ہمارا وطن عزیز بھی شامل ہے اور روز بروز دیگر متاثرہ ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں بھی بم دھماکوں، دہشت گردی اور قتل وغارت میں اضافہ ہی ہورہاہے اور محض حکومت کی تبدیلی بد امنی کی ناسورکا کوئی شافی وکافی علاج معلوم نہیں ہورہا، حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو دشمن کا ہدف پاکستان ہے اور وہ اپنے ان ناپاک عزائم سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور آج پاکستان کا کوئی صوبہ ایسا نہیں جو دہشت گردی کا شکار نہ ہو، دہشت گردی کا کینسر پورے ملک میں سرائیت کرتا جارہا ہے اگرچہ دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا نیٹ ورک روز بروز ہمارے ملک میں مضبوط ہورہاہے اور ان کے اہلکار بھی دندناتے پھررہے ہیں، تاہم یہ بھی ایک دلخراش حقیقت ہے کہ ان دشمنوں کے اصل آلہ کار کوئی اور نہیں بلکہ  ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں جو چند سکوں کے عوض اپنے ہم وطنوں کی قیمتی جانوں سے کھیلنے کے لیے بخوشی برضا ورغبت سرگرم عمل ہوئے پڑے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی مساجد وبازار میں دھماکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو یا لاہور کی فوڈ اسٹریٹ میں معصوم جانوں کا نقصان اور صوبہ پنجاب کے دہشت گردی پر مبنی دیگر بھیانک واقعات، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی اور مکمل تعاون میں ملوث نادیدہ بھارتی ہاتھ یا عروس البلاد کراچی کی روشنیاں چرانے اور اسے مسلسل دہشت گردی وقتل وغارت کے  اندھیروں میں دھکیلنے کی سازش سب کے تانے بانے اور ڈانڈے بیرونی دشمن قوتوں سے ملتے ہیں اور اب تو جب پوری دنیا کے سامنے بھارت کا یہ مکروہ چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے کہ اس نے خود ممبئی حملے کرائے تاکہ پاکستان کو اس میں ملوث کرکے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرکے ایک انتہا پسند ودہشت گرد ملک قرار دلایا جائے۔

ایسے چشم کشا حقائق سامنے آنے کے بعد اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طرف پاکستان کو طالبان سے خطرہ ہے تو دوسری جانب بھارت سے بھی انتہائی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، تیسری جانب یہود ونصاریٰ کی بھی دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان پر جو خونخوار نظریں لگیں ہوئی ہیں انھیں بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن پھر دلخراش حقیقت یہی ہے کہ ان سب کے آلہ کار ہمارے ہی زر خرید مسلمان بھائی ہیں جو اپنے بھائیوں کی جانیں لینے اور اپنی ہی پاک سر زمین کو خون میں نہلانے، اسے کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے میں ہمہ تن گوش مصروف عمل ہیں۔

آج ہمارا اسلامی معاشرہ سیرت وکردار کے لحاظ سے اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ ہم صرف برائے نام ہی مسلمان رہ گئے ہیں اﷲ نے مسلمانوں کے جان ومال جنت کے بدلے خریدے لیکن آج نام نہاد چند مسلمانوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں وتوانائیاں دشمن پاکستان ودشمنان اسلام کو فروخت کردیں اور آخرت پر دنیا کو فوقیت وترجیح دے دی،آپ ہمارے معاشرے کے عام آدمی پر غورکریں وہ بھی آپ کو کردار کا کمزور، جھوٹ بولتا ہوا، کم بولتا ہوا، غیبت کرتا ہوا، چوری کرتاہوا، چغلی کھاتا ہوا، بے ایمانی، فراڈ ودھوکہ دہی کرتا ہوا، حق تلفی کرتاہوا، وعدہ خلافی کرتاہوا، خیانت کرتاہوا، مغلظات بکتاہوا، بد اخلاقی کرتاہوا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کرتا اور جھوٹی گواہیاں اور لغو شہادت دیتا اور رشتے داروں، غربا، فقرا ومساکین کی حق تلفی کرتا ہوا اور اپنے احساس ذمے داری سے آشنا اور دینی وملی تقاضوں سے نابلد ہی نظر آئے گا، سوائے چند لوگوں کے جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے!

بھائی بھائی کو ڈسنے میں لگا ہوا ہے، ہماری حکومتیں بھی عوام دشمنی پر اتری ہوئی ہیں اس صورتحال نے دشمن کے کام کو مزید آسان کردیاہے، یہ وطن دشمن کی سازشوں اور ہماری غفلتوں اور نا اہلیوں کا مرثیہ پڑھ رہا ہے، انتہائی قربانیوں، انتھک محنت اور عظیم جدوجہد کی بدولت دنیا کے نقشہ پر ابھرا ہوا ہے، آزادی ہمیں موروثی جائیداد میں نہیں ملی قیامت کا سماں اور حشر کا نظارہ تھا خون دریا عبور کرکے پیارا وطن پاکستان معرض وجود میں آیا، ہندوئوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور جلد ہی اس کا وجود ختم ہوجائے گا۔ لیکن اﷲ کے فضل وکرم سے اس سال14اگست کو قیام پاکستان کو 66برس مکمل ہورہے ہیں اور اﷲ نے تمام تر سازشوں، نامساعد حالات، ہماری اپنی نا اہلیوں وکمزوریوں کے باوجود وطن عزیز کو سنبھالا دیا ہوا ہے لیکن اگر ہم نے اب بھی اپنی روش تبدیل نہ کی، اﷲ کی نا فرمانی نہ چھوڑی، حقوق العباد اورقومی وملی حقوق کی خلاف ورزی نہ چھوڑی اور احساس ذمے داری کا مظاہرہ نہ کیا تو پھرکہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خدانخواستہ اﷲ کے بڑے عذاب کا شکار ہوجائیں اور وطن عزیز کی صورت میں ملی اﷲ کی یہ عظیم دینی نعمت سے محروم ہوجائیں۔

آج آزادی کو 66برس مکمل ہورہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سازشوں کے ساتھ ساتھ خود  اپنوں ہی کے ستم کا بھی مسلسل شکار ہیں گویا غلامی کی ایک قسم آج بھی ہم پر مسلط ہے اگر ہم کلی طورپر آزاد ہوتے تو آج یہ گھٹن نہ ہوتی تشدد نہ ہوتا، قتل وغارت نہ ہوتا، ظلم وستم نہ ہوتا، عدم انصاف کا واویلا نہ ہوتا، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم نہ ہوتا، مہنگائی وگرانی کا جن آزاد نہ ہوتا خودکشیوں کا تسلسل نہ ہوتا، خود سوزیوں کا دھواں نہ ہوتا، ٹیکسوں کی بھرمار نہ ہوتی، حقوق انسانی کی پامالی نہ ہوتی، ٹارگٹ کلروں کی آزادی نہ ہوتی، خون انسانی کی ارزانی نہ ہوتی۔ آج جب وطن عزیز اپنی آزادی کے 66برس میں داخل ہورہاہے تو تحریک پاکستان کے رہنمائوں کی ارواح جس کرب اور اذیت سے گزررہی ہیں اس کا اندازہ ہم اپنے ملکی حالات اور حکومتوں کے طرز حکمرانی سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔ آزادی صرف جھنڈا اور جھنڈیاں لگانے اور رنگا رنگ تقریبات آزادی منانے وسجانے کا نام نہیں بلکہ آزادی نام ہے اس حقیقی وسچے احساس کا جس کی ہمارا دل اور ضمیر خود گواہی دے کہ واقعی ہم آزاد، خوش حال، پر امن، ترقی یافتہ وبنیادی ضروریات زندگی سے آراستہ اور بڑے بڑے مسائل اور چیلنجزسے قطعی آزاد ہیں لیکن آج ایسا کچھ نہیں صرف وعدے ہیں، دعوے ہیں اور وہی انتظار ہے۔

خدارا یہ ملک سیاستدانوں وحکمرانوں کی عیاشیوں، شاہ خرچیوں، کرپشن، کروڑوں عوام کے خون پسینے کی قومی دولت کو لوٹنے اور بینک اکائونٹس اور جائیدادیں بیرونی ملک بنانے کے لیے معرض وجود میں نہیں آیا تھا اس پاک سرزمین پر ان ذلتوں کے مارے غریب اور بد قسمت عوام کا حق آپ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ لاوارث عوام گزشتہ 66برس سے بے وقوف بناکر ظلم وستم، زیادتی، نا انصافی، کرپشن، مہنگائی وبے روزگاری اور بنیادی ضروریات زندگی سے محرومی کی چکی میں مسلسل پس رہے ہیں جن کی امیدوں پر قائم خوبصورت خوابوں کا ملک دشمن بیرونی عناصر کے ہمراہ خود اپنے نام نہاد ہمدردوں اور غم خوار سیاست دانوں، مفاد پرستوں، موقع پرستوں اور منافقوں نے بھی سر عام قتل عام کیا ہے آج یہ پاک سرزمین اور مظلوم قوم اس جشن آزادی پر یہی سوال کررہی ہے کہ کب ہوںگے ہم آزاد… حقیقی معنوں میں آزاد؟ اپنے اور پرائے کی مسلسل غلامی سے حقیقی ودائمی آزاد… آخر کب ٹوٹیںگی غلامی کی یہ زنجیریں…آخر کب…؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔