رہائشی عمارت میں ماہانہ ایک کروڑ کی بجلی چوری پکڑی گئی

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 2 اگست 2013
زینب پلازہ کی لفٹیں اورائیرکنڈیشنز چوری کی بجلی سے چل رہے تھے، یونین عہدیدار گرفتار۔   فوٹو: فائل

زینب پلازہ کی لفٹیں اورائیرکنڈیشنز چوری کی بجلی سے چل رہے تھے، یونین عہدیدار گرفتار۔ فوٹو: فائل

کراچی:  بجلی چوری کے خلاف بنائی گئی ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم نے رہائشی عمارت پر چھاپہ مار کر ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کی ماہانہ بجلی چوری کا سراغ لگالیا۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے بڑے بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کے بعد ایف آئی اے کی ٹیم نے خفیہ اطلاع پر گلشن اقبال بلاک 17 میں واقع رہائشی عمارت زینب پلازہ میں چھاپہ مارا تو انکشاف ہوا کہ 380 فلیٹس پر مشتمل رہائشی عمارت میں کے ای ایس سی کی جانب سے فراہم کردہ کنکشن کے علاوہ پی ایم ٹی اور مین لائن سے غیرقانونی طور پر حاصل کیے گئے دیگر2 کنکشن بھی موجود ہیں، ایف آئی اے حکام نے کے ای ایس سی کے تکنیکی عملے کی مدد سے جب غیرقانونی کنکشنز کا کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ عمارت کی لفٹیں، ایئرکنڈیشنز اور پانی کی موٹریں چوری کے کنکشن سے چلائی جارہی تھیں جبکہ قانونی کنکشن کے ذریعے صرف پنکھے ، فریج اور دیگر بجلی کے چھوٹے آلات چلائے جاتے تھے تاکہ کے ای ایس سی حکام کو اس سلسلے میں شک نہ ہو۔

کے ای ایس سی کے انجینئرز کی جانب سے لگائے جانیوالے تخمینے کے مطابق عمارت میں ماہانہ ایک کروڑ20 لاکھ روپے کی بجلی چوری کی جارہی تھی ، ایف آئی اے کی ٹیم نے زینب پلازا کی یونین کے عہدیدار آفتاب کو حراست میں لے کر تفتیش کی تو مزید انکشافات ہوئے ، آفتاب کے مطابق یونین بجلی کے بل کی مد میں ہر رہائشی سے ماہانہ ایک مخصوص رقم وصول کرکے غیرقانونی کنکشن فراہم کرتی ہے ذرائع نے بتایا کہ رہائشیوں سے وصول کی جانے والی رقم کا ایک حصہ کے ای ایس سی کے عملے کو بھی دیا جاتا تھا تاہم ایف آئی اے حکام مزید شواہد جمع کررہے ہیں۔

ایف آئی اے نے اس سلسلے میں بجلی چوری کا مقدمہ درج کرکے یونین عہدیدار کو باقاعدہ طور پر گرفتار کرلیا ہے، ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے جاوید اکبر ریاض کے مطابق بجلی چوری کے خلاف ملک گیر سطح پر جاری کریک ڈائون کے دوران مقدمات درج اورمتعدد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے تاہم بجلی کمپنیوں کو پہنچائے جانے والے نقصان کی مناسبت سے یہ اب تک سامنے آنے والی سب سے بڑی بجلی چوری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔