مسلم لیگیوں کا اتحاد

شیر محمد چشتی  جمعـء 24 اگست 2012

مسلم لیگ، پاکستان کی خالق جماعت ہے۔ قائداعظم اور ان کے دستِ راست وزیراعظم لیاقت علی خان پاکستان کو دنیا میں باعزت مقام دِلوانے میں کامیاب ہوگئے اور پاکستان کو قائم و دائم اور مضبوط بنانے کے لیے اہم خدمات انجام دیتے رہے لیکن بدقسمتی سے قائداعظم جلد ہی وفات پاگئے اور پاکستان کی تعمیر کا سارا بوجھ لیاقت علی خان کے کاندھوں پر پڑ گیا۔ یہ فریضہ وہ بڑی خوش اسلوبی سے نبھا رہے تھے کہ دشمنوں نے سازش کے ذریعے ان کو شہید کرکے پاکستان اور پاکستانی قوم کو یتیم کردیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ انتشار کا شکار ہو کر کمزور ہوگئی حتیٰ کہ 1958 میں ملک میں مارشل لاء لگادیا گیا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی۔

1962 میں سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو کچھ مسلم لیگیوں نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی سربراہی میں مسلم لیگ کنونشن کو آرگنائز کیا۔ جب کہ دیگر مسلم لیگیوں نے اس سے اختلاف کیا اور ایک الگ مسلم لیگ بنام ’’کونسل مسلم لیگ‘‘ بنائی۔ ان دونوں گروپوں میں عوامی حمایت کونسل مسلم لیگ کو حاصل تھی لیکن سرکاری سرپرستی کنونشن مسلم لیگ کو حاصل تھی۔ چنانچہ 1968 میں صدر ایوب کے اقتدار کے زوال کے بعد سرکاری سرپرستی ختم ہوگئی اور کنونشن لیگ تتر بتر ہوگئی۔

صدر ایوب کے بعد جنرل یحییٰ برسر اقتدار آئے۔ ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے اقتدار اور اختیار کے مالک بن گئے۔ انھوں نے اپنی الگ پارٹی ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ بنا کر مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا اور اسے کھڑا نہیں ہونے دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق پاکستان میں برسر اقتدار آئے، انھوں نے مسلم لیگ کو محمد خان جونیجو وزیراعظم پاکستان کی رہنمائی میں منظم ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی اور نہ ہی اپنا کوئی الگ گروپ بنایا۔ محمد خان جونیجو کے دور میں مسلم لیگ مرکز اور چاروں صوبوں میں برسر اقتدار آگئی، ان مسلم لیگی حکومتوں نے مرکز اور صوبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور پوری قوم کو متحد کیا۔

محمد خان جونیجو کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف بنے، ان کے دور میں بھی مسلم لیگ مرکز اور چاروں صوبوں میں برسر اقتدار رہی۔ اس دور میں بھی مسلم لیگ کا کوئی دوسرا گروپ نہیں تھا۔ متحدہ مسلم لیگ اپنے جواں سال انقلابی ذہن رکھنے والے مقناطیسی شخصیت کے حامل وزیراعظم میاں نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کو ترقی اور خوش حالی کے میدان میں آگے ہی آگے لے جارہی تھی۔ یہاں تک کہ تمام دنیا کی مخالفت کے باوجود پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر اسے ایک ناقابلِ تسخیر قوت بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ لیکن مفاد پرست عناصر کو مسلم لیگ کی یہ کامیابیاں ہضم نہ ہوسکیں اور ایک سازش کے تحت شب خون مار کر عوامی حکومت کو ختم کرکے ملک پر جنرل پرویز مشرف کی آمریت مسلط کردی گئی۔

جب جنرل پرویز مشرف صدر بھی بن گئے تو انھوں نے یہ محسوس کیا کہ حکومت چلانے کے لیے ایک سیاسی پارٹی کی حمایت ضروری ہے۔ پرویز مشرف کی SOS اپیل پر چوہدری برادران اپنا تعاون پرویز مشرف کی جھولی میں ڈالنے کے لیے تیار ہوگئے۔ دونوں بھائیوں نے مسلم لیگ کو منظم کیا اور یہ قائداعظم مسلم لیگ کہلائی۔ اس دور میں بھی مرکز اور صوبوں میں مسلم لیگی حکومتیں قائم ہوئیں۔ چوہدری شجاعت حسین کچھ عرصے وزیراعظم بھی رہے،البتہ چوہدری پرویز الٰہی صوبہ پنجاب میں پانچ سال تک وزیر اعلیٰ رہے۔ انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے صوبہ پنجاب میں بڑے ترقیاتی کام کیے، ان کی کارکردگی دوسرے صوبوں سے کہیں بہتر رہی۔ اسی اثنا میں باقی مسلم لیگیوں نے ان سے اختلاف کیا اور مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے حزب اختلاف کے فرائض ادا کرتے رہے۔

2008 میں جب عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ق) پر پرویز مشرف کی آمریت کی چھتری کو عوام نے پسند نہیں کیا اسے مرکز، صوبہ پنجاب، صوبہ خیبر پختون خوا اور صوبہ سندھ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، البتہ صوبہ بلوچستان میں اسے واضح اکثریت سے جیت حاصل ہوئی لیکن چوہدری برادران اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے، کیونکہ ان کے بلوچستان اسمبلی کے ممبران نے اپنی حکومت بنانے کے بجائے پیپلز پارٹی کی تابع داری قبول کرلی۔ اس طرح یہ چوہدری برادران کے لیے ان کی پارٹی کی طرف سے پہلی بغاوت تھی۔ اس کے بعد پنجاب اسمبلی میں ان کے پچاس کے قریب ممبران نے اپنا الگ گروپ بنا کر قائداعظم مسلم لیگ سے بغاوت کرکے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کردیا۔ یہ چوہدری برادران سے دوسری بغاوت تھی۔

مسلم لیگ (ن) جو پہلے ہی حکومت بناچکی تھی۔ ان ممبران سے مزید حمایت ملنے سے مضبوط ہوگئی۔ پنجاب اسمبلی کے ممبران کی واضح اکثریت نے پہلے اپنا پارلیمانی لیڈر دوست محمد کھوسہ کو چنا، بعد میں شہباز شریف کو اپنا وزیر اعلیٰ بنایا جو اب تک وہاں حکمراں چلے آرہے ہیں۔ مسلم لیگ نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی سربراہی میں بہترین حکومت بنائی اور بڑے ترقیاتی اور تعمیراتی کام کیے اور اب بھی کررہے ہیں۔ مسلم لیگ صوبہ پنجاب میں اپنی بہترین انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے نہایت کامیاب چلی آرہی ہے۔اسی دوران چوہدری برادران کے ساتھ ایک اور واقعہ پیش آیا، وہ اس طرح کہ پیپلز پارٹی کی مرکز میں حکومت کی ناقص کارکردگی اور سندھ میں صوبائی حکومت کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے ان کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ان سے نالاں ہوگئی۔

اس طرح اس نے دو تین جھٹکوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو مضمحل کرکے آکسیجن ٹینٹ میں پہنچادیا۔ اس سے پیپلز پارٹی کی حکومت اکثریت کا اعتماد کھو کر اقلیتی حکومت بن گئی اور کئی دن تک اس صورت حال سے دوچار رہی۔ اسے دیکھ کر صدر اور وزیراعظمکے لیے سیاسی طور پر مشکلات پیدا ہو گئیں، انھوں نے چوہدری برادران سے رابطہ کرکے SOS کی اپیل کی اور حکومت بچانے کے لیے مدد مانگی۔ چوہدری برادران ان کی مدد کو پھر تیار ہوگئے اور حکومت بچانے کے لیے ممبران اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری کردی۔ لیکن اس کی ان کو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ وہ اس طرح کہ ان کے پارٹی کے بیشتر زعما نے ان سے اس بارے میں اختلاف کیا اور بغاوت کرکے اپنا ہم خیال گروپ بنا کر مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کردیا۔ اس طرح یہ ان کے ممبران کی ان کے خلاف تیسری بغاوت تھی۔

ان بغاوتوں کے بعد مسلم لیگ (ق) میں چوہدریوں کے ساتھ صرف چند ممبر رہ گئے ہیں، وہ بھی اس لیے کہ انھوں نے ان کو نام کی وزارتیں دلوائی ہوئی ہیں۔ اب چوہدریوں کو چاہیے کہ وہ بھی دیگر ممبران کی طرح مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوجائیں کیونکہ اب وہی اصل مسلم لیگ ہے اور (ق) لیگ تو ختم ہی ہوچکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نواز شریف یا کسی اور کی جاگیر نہیں، یہ سب کی پارٹی ہے۔ نئے یا پرانے مسلم لیگی اور دوسرے افراد کو بھی اس میں خوش آمدید کیا جاتا ہے اور ان کا خوش اسلوبی سے استقبال کیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ قائدین کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب بھی پاکستان مسلم لیگ کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کی حکومت آتی ہے، تو یہ بات مسلم ہے کہ مسلم لیگیوں کے آپس میں اختلافات کی وجہ سے آتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔