چیئرمین پیمرا عدالتی فیصلے کے برعکس عہدے پر براجمان

اسد کھرل  جمعـء 2 اگست 2013
رشید احمد 26 مئی کو ریٹائر ہو چکے،حکومت نے ایم پی ون اسکیل دیا نہ کنٹریکٹ کیا.۔ فوٹو : فائل

رشید احمد 26 مئی کو ریٹائر ہو چکے،حکومت نے ایم پی ون اسکیل دیا نہ کنٹریکٹ کیا.۔ فوٹو : فائل

لاہور:  الیکٹرانک میڈیا کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے کے سربراہ چیئرمین پیمرا رشید احمد سپریم کورٹ کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر اپنے عہدے پر براجمان ہیں اور قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں، وہ اپنی کرپشن کی سابق عادت کے باعث کروڑوں کے ذاتی اثاثے بنا چکے ہیں۔

نیب نے اس سارے معاملے کی انکوائری شروع کردی ہے۔ چیئرمین پیمرا و سابق پرنسپل انفارمیشن آفیسر رشید احمد سمیت پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کے دیگر کئی افسروں کیخلاف متعدد کیسز اور انکوائریاں ایف آئی اے میں زیر التوا ہیں۔ نیب کو دی گئی محمد عمران کی درخواست سے انکشاف ہوا ہے کہ رشید احمد کے قریبی رشتہ دار کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میسرز سم (ایس آئی ایم ایم) کیخلاف بھی تحقیقاتی انکوائری نیب راولپنڈی اسلام آباد دفتر میں زیر التوا ہے جس میں ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو بھاری رقوم دینے کی منظوری شامل ہے۔ اس درخواست میں لگائے گئے الزامات کے تحت ایف آئی اے نے میسرز سم کے ڈائریکٹرز اور پی آئی ڈی کے حکام اور سرکاری حکام کیخلاف سیکشنز 420، 468 ، 471، اور 109 کے تحت ایف آئی آر درج کر رکھی ہے۔ ایف آئی اے نے یہ ایف آئی آر پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (پی اے آر سی) کے ڈائریکٹر شعبہ تعلقات عامہ کی درخواست پر درج کی ہے۔

پی اے آر سی کے شکایت کے مطابق میسرز سم نے پی آئی ڈی اور حکومتی ذمہ داران کی مدد سے جعلی این او سی کے ذریعے 28 ملین کی رقم حاصل کی تھی۔ سپریم کورٹ نے 15جنوری 2013 کو جو حکم جاری کیا تھا اس کے پیرا نمبر چھ میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’چیئرمین پیمرا کے عہدے پر کسی ایسے شخص کو تعینات کیا جائے گا جو پیمرا آرڈیننس میں دی گئی سخت اور غیر معمولی شرائط پوری کرتا ہو اور یہ بھرتی عام انداز میں نہیں ہوگی۔ مزید برآں یہ تعیناتی شفاف طریقے سے عمل میں لائی جانی چاہئے تا کہ پیمرا آرڈیننس میں دیئے گئے معیار پر پورا اترا جا سکے‘‘۔ سپریم کورٹ کے 15 جنوری 2013 کے فیصلے کی روشنی میں موجودہ چیئرمین پیمرا کی تعیناتی سپریم کورٹ کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔اسی طرح عدالتی فیصلے کے بعد رشید احمد کی مختلف عہدوں پر تعیناتیاں بھی خلاف قواعد پائی گئی ہیں جن میں ان کا بطور پچھلی تاریخوں پر انفارمیشن سیکرٹری اور چیئرمین پیمرا تعینات ہونا ہے۔ قواعد وضوابط کے مطابق اگر چیئرمین پیمرا رشید احمد کی تعیناتی قانونی ہے تو 26 مئی 2013 کو ان کی ریٹائرمنٹ پر چیئرمین پیمرا کی سیٹ اس تاریخ کو خالی ہو جاتی ہے۔

میڈیا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وفاقی سیکرٹری انفارمیشن رشید احمد کو 26 مئی 2013 کو ان کی ریٹائرمنٹ سے ٹھیک تین ماہ قبل انہیں 26 جنوری 2013 کو بطور چیئرمین پیمرا تعینات کیا گیا تھا۔ 26 مئی 2013 کو ریٹائرمنٹ کے بعد رشید احمد کو ایم پی ون سکیل کے تحت کنٹریکٹ نہیں دیا گیا اور اس طرح قواعد و ضوابط کے تحت چیئرمین پیمرا کی سیٹ اسی دن خالی ہوگئی تھی۔ اگر کسی حاضر سروس افسر کو کسی متعین مد ت والی پوسٹ پر تعینات کیا جائے تو اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ یا متعینہ مدت دونوں میں سے جو پہلے ہو تک کام کرسکتا ہے۔

ریٹائرمنٹ کی تاریخ پہلے آنے کی صورت میں حکومت ایم پی ون سکیل دے سکتی ہے یا اسی آفیسر کی خدمات کو کنٹریکٹ پر حاصل کر سکتی ہے تا کہ وہ فاضل عدات کے 15 جنوری کے فیصلے پر پورا اتر سکے تاہم پیمرا کے موجودہ چیئرمین کو ایم پی ون سکیل نہیں دیا گیا اور اس طرح چیئرمین پیمرا کا عہدہ خالی ہے اور حکومت کی طرف سے اس عہدے پر نئی تعیناتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نہایت شفاف اور کھلے طریقے سے کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ عہدے پر تقرری پیمرا آرڈیننس میں درج مقاصد اور شرائط پر پورا اترتی ہے۔ اگر حکومت چاہے بھی تو رشید احمد کو بطور چیئرمین پیمرا برقرار نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ سپریم کورٹ نے کسی سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی دوبارہ کنٹریکٹ پر تعیناتی پر پابندی لگا رکھی ہے کیونکہ یہ سارا مرحلہ سپریم کورٹ کے 15 جنوری 2013 کے فیصلے کی روشنی میں صاف اور شفاف تصور نہیں کیا جاسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔