برما میں مسلم نسل کشی کی وجوہات

شبیر احمد ارمان  ہفتہ 25 اگست 2012
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

میانمار (برما) حکومت نے راکھین ریاست میں مسلمانوں کی نسل کشی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ انسانیت سوز موقف اختیار کیا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں کہ مسلم آبادی پر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے، علاقے میں تشدد کا آغاز کس بات پر ہوا؟ یہ طے کیا جانا ابھی باقی ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ روہنگیا میں مسلمانوں کو ہدف بنا کر ہلاک کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خوف زدہ مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہیں اور کیمپوں میں غذا کی قلت کے باوجود لوگ واپس جانے کو تیار نہیں۔

واضح رہے کہ ان دنوں اقوام متحدہ کے مندوب تھامس میانمار کے دورے پر ہیں، جہاں وہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ اٹھائیں گے۔یاد رہے کہ 3 جون 2012 کے دن بدھ مت لڑکی کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد میانمار کے شہر اراکان میں جیسے آگ بھڑک اٹھی۔ بدھ مت انتہا پسندوں نے کئی گائوں جلا ڈالے، یوں یہ سلگتی ہوئی چنگاری پورے میانمار میں خوف ناک آگ کی صورت اختیار کر گئی۔ میانمار میں گذشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران لاتعداد مسلمان قتل اور 10 ہزار لاپتا ہوئے، سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پرتشدد واقعات کے بعد ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

سفّاکی کی انتہا اس وقت عروج پر پہنچی جب برما کی افواج کو راکھینی صوبے میں فسادات کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن ان افواج کے فسادات میں جانبداری برتنے اور فسادات میں حصّہ لینے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، یعنی فوج نے نسلی فسادات روکنے کے بجائے اسے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈائون میں تبدیل کردیا۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ میانمار کے صدر نے اپنے ایک اخباری بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ ’’ان روہنگیا مسلمانوں کو اراکان صوبے سے نکال کر کسی دوسرے ملک میں بسا دیا جائے۔‘‘

برما کے اخباروں نے مسلمانوں پر اس بے جا اور بہیمانہ ظلم کے خلاف لکھتے ہوئے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ کسی مسلمان نے مبینہ طور پر ایک بدھ لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تھی، جس کی بنیاد پر بدھ عوام مشتعل ہوگئے۔ انھوں نے ابتدا میں مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگانا شروع کی اور بعد میں مقامی پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ مل کر ان کا قتلِ عام شروع کردیا، حالانکہ بدھ لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی کا عدالت نے سخت نوٹس لیا تھا اور اس نوجوان کو گرفتار بھی کرلیا تھا لیکن مسئلہ کچھ اور تھا۔

یہ روہنگیا مسلمان آٹھ صدی قبل برما میں آئے تھے اور اراکان صوبے میں اپنی بود و باش اختیار کی تھی۔ اس صوبے میں کل آبادی آٹھ لاکھ کے قریب ہے جب کہ میانمار (برما) میں مسلمانوں کی تعداد 4 فیصد ہے۔ یہ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود تعلیم اور تجارت میں اپنا مضبوط مقام بناچکے ہیں جب کہ مقامی آبادی (بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد 80 فیصد ہے) ان کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ نہیں ہیں۔ غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے جس نے مسلمان اقلیت کو اکثریت کے غیظ و غضب کا نشانہ بنادیا ہے۔

بنگلہ دیش ایک مسلم ملک ہے۔ میانمار کے صوبے اراکان کی سرحد اس سے ملتی ہے، خون میں لت پت لٹے پٹے اور قتل و غارت گری کے شکار یہ مسلمان جب پناہ کے لیے بنگلہ دیش کی سرحد پہنچے تو وہاں سرحدی محافظوں نے انھیں بنگلہ دیش میں داخل ہونے نہیں دیا اور انھیں واپس فساد زدہ علاقوں کی طرف دھکیلا گیا۔ حالانکہ ان مسلمانوں میں بنگلہ دیشی مسلمان بھی شامل ہیں جو کئی دہائیاں قبل اراکان صوبے میں آکر بس گئے تھے۔ اس طرح بنگلہ دیش ہر لحاظ سے پست دِکھائی دے رہا ہے۔امریکا جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا پرچار کرتا رہتا ہے ہنوز اس مسلمان کشی پر لب بہ مہر ہے۔

مغربی میڈیا کا تعصبانہ رویہ بھی عیاں ہے جنھوں نے انتہا پسندی کا لفظ خواہ مخواہ مسلمانوں سے جوڑے رکھا ہوا ہے۔ اگر یہ قتل عام کوئی مسلمان کرتا تو آج دنیا بھر کا میڈیا اسلام کو انتہا پسندی سے تعبیر کرتا۔ غیروں کو چھوڑیں ہمارا مسلمان پاکستانی میڈیا کا کردار بھی اس حوالے سے مایوس کیے ہوئے ہے جس شدّت کے ساتھ اس انسانی مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے، اس میں وہ ناکام دِکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے میانمار میں قتل و غارت گری کے خلاف قرارداد منظور کی ہوئی ہے لیکن سفارتی سطح پر پاکستان بھی خاموش ہے۔ ترکی اور متحدہ عرب امارات سمیت انسانی عالمی تنظیموں نے اس معاملے پر اقوام متحدہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

ایران نے میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کو سامراجی سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار کے مسلمانوں کا قتل عام خاص اہداف کے تحت جاری ہے اور نسلی تصفیہ کی یہ سازش سامراج نے بنائی ہے، جس کا ہدف شام کے حالات سے رائے عامہ کو منحرف کرنا ہے۔حیرت ہے آنگ سان سوچی جیسی جمہوریت پسند لیڈر آف دی اپوزیشن نے بھی مسلم کمیونٹی کے خلاف ہونے والی بربریت اور غیر انسانی کارروائیوں پر اس درجے کا احتجاج کرنا مناسب نہیں سمجھا جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔مسلمان ممالک کی تنظیم (او آئی سی) نے میانمار میں قتل و غارت کے شکار مسلمانوں کی حالتِ زار بہتر کرنے کے لیے متعدد اقدامات کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

جینوا میں مسلم سفیروں کے ہونیوالے اجلاس میں دارالحکومت ینگون میں تعینات مسلم ممالک کے نمایندوں کو متاثرہ صوبے اراکان کے دورے کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کی پرتشدد لہر بنگلہ دیش سے یہاں آکر بسنے والے مسلمانوں کی امیگریشن کے خلاف نسلی احتجاج کا شاخسانہ ہے یا بدھ جنگجو اس حربے سے نسلی تطہیر کے ساتھ ساتھ اپنی اکثریتی و مذہبی بالادستی مستحکم بنانے کے جتن کر رہے ہیں۔ اس کا تعین تو کوئی تحقیقاتی کمیشن ہی کرسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔