بھارت دوستی ایک قومی جرم

عبدالقادر حسن  ہفتہ 2 مارچ 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے بھارت نواز دوست بھارت کے ساتھ دوستی کی جتنی کوشش کرتے ہیں بھارتی حکمران پاکستان سے نفرت کا اظہار کر کے اس کو ختم کر دیتے ہیں لیکن اس بار بار کی ناکامی کے باوجود داغ اپنی جمائے جاتا ہے اور دونوں طرف کے نام نہاددانشور اوردوسری قسم کے خواتین وحضرات کے وفود وقتاً فوقتاً دونوں ملکوں میں خیر سگالی کے دوروں میں مصروف رہتے ہیں اور واہگہ کی سرحدی لکیر کو اپنے بار بار کے دوروں سے مٹانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

دشمنی کو کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا لیکن اگر ایک فریق دشمنی پر اترا ہوا ہو اور اس کی عیاری اور کمینہ پن سب پر واضح ہو تو پھر دوستی کی مسلسل کوششیں ایک حماقت ہی کہی جا سکتی ہیں اور کمینے پن پر اترا ہوا دشمن دوستی کی کوششوں کو ہماری کمزوری اور بزدلی سے تعبیر کرنا شروع کر دیتا ہے ۔

بھارت کے ساتھ دوستی اور دشمنی کسی سے چھپی نہیں ۔بھارت کے ساتھ دوستی کی کوئی تاریخ نہیں البتہ دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس دشمنی کے نتیجہ میں بھارت کے ساتھ ہماری باربار جنگیں بھی ہوئیں۔ کشمیر میں ان دنوں بھی جنگ جاری ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ایک طرف باقاعدہ فوجی طاقت ہے اور دوسری طرف بے قاعدہ فوج اور ان کے ساتھی ہیں جن کو بھارت رائج الوقت زبان میں دہشت گرد کہتا ہے اور ہم گزشتہ ایک دہائی سے کشمیر پر خاموشی کو بہتر سمجھ رہے ہیں۔

بھارت نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جوکردار ادا کیا اور جس طرح پاکستان کے ایک اندرونی مسئلہ میں کھلی مداخلت اور جارحیت کی اس کے بعد ایسے دشمن کے ساتھ دوستی کا سوچنا بھی ایک قومی جرم ہے ۔

اگر بھارت نے اپنی اس حرکت پر کوئی معذرت بھی کی ہوتی اور اس کو اپنے عمل سے ثابت بھی کیا ہوتا تو شاید کوئی ایسی صورت نکل سکتی تھی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان حالات سازگارہوجاتے لیکن تب سے اب تک بھارت نے ہمیشہ کسی نئی جارحیت ہی میں دھمکی دی ہے اور اب تو یہ عالم ہے کہ بھارت میں پٹاخہ بھی پھوٹے تو وہ بنا سوچے سمجھے اس کا الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے اور پاکستان کے خلاف حقارت کی زبان استعمال کرتا ہے کیونکہ اس کی پشت پناہی امریکا اور اسرائیل کر رہے ہیں اور ہمارے اندر موجود بھارتی خوشامدی حضرات اس کی کاسہ لیسی پر لگے رہتے ہیں ۔

بھارت نے پاکستان کے خلاف کسی بڑی جنگ سے پہلے ایک نفسیاتی جنگ شروع کر رکھی ہے کبھی وہ ہمارے حصے کے پانی پر دریائوں پر ڈیم بنانے کا اعلان کرتا ہے تو کبھی وہ ہمارے ہاں شورش پیدا کرنے کے لیے اپنے ایجنٹ بھیجتا ہے ۔ دراصل بھارت اس نفسیاتی جنگ میں چاہتا ہے کہ ہم اس کے ساتھ کاروباری، سماجی اور آزادانہ آمدورفت کے تعلقات استوار کر لیں اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا ہے ۔

ہم نے اپنے ملکی وقار کو دائو پر لگا کر کاروباری تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی اور اپنی ذاتی تقریبات میں ان کو مدعو بھی کرتے رہے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھارت کے ہندو کا ذہن تبدیل نہ ہو سکا اور جب بھی موقع ملا اس نے پاکستان کے خلاف اپنا مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی ۔ بھارت کی شروع سے یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان اس کی طفیلی ریاست بن کر رہے وہ نہ تو پاکستان کے وجود سے انکار کرتا ہے اور نہ ہی کھلے دلوں اسے تسلیم کرتا ہے وہ ایک کمزور پاکستان کے حق میں ہے جس طرح بھارت کے دوسرے پڑوسی ہیں اور بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں ۔

بھارت کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان بھارت کی بڑائی کو تسلیم کر لے ۔ اس کی بالادستی کو ہضم کرے اور ایک کمتر درجے کا ملک بن کر زندہ رہے۔ پاکستان کی ایسی زندگی بھارت کے لیے ایک خوشخبری ہے شاید مشرقی پاکستان سے بھی بڑی خوشخبری کہ بھارت کا کوئی حکمران کبھی یہ کہہ سکے کہ ایک بار نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبویا تھا دوسری بار بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے۔

ایسی ہی خواہشوں کے بل بوتے پر بھارت پاکستان کے خلاف باربار مہم جوئی کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ابھی تک اسے کامیابی نہیں مل سکی بلکہ جب بھی اس نے ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی ہمیشہ اس کو منہ کی کھانی پڑی۔ بھارت کی ان مہم جوئیوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ پاکستان کا وہ مہلک ہتھیار ہے جو کہ اپنی اعلی ٹیکنالوجی کی وجہ سے بھارت کے اسی قسم کے ہتھیاروں سے کئی گنا بہتر اور موثر ہے، یہ برتری ڈاکٹر قدیر خان کی مرہون منت ہے جنہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی قسم کھائی اور پھر اپنے عمل سے اسے ممکن کر دکھایا ۔

بھارت کی جانب سے حالیہ مہم جوئی کی کوششیں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں جو وہ ایک مدت سے کرتا آرہا ہے لیکن ہمیشہ ان کوششوں سے اسے نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی بھارت کو برابری کی بنیاد پر دوستی کا واضح پیغام دیا جسے سمجھنے میں شاید بھارتیوں نے غلطی کی حالانکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بار بار کہا کہ اگر بھارت دوستی کی جانب ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے لیکن اگر بھارت نے کسی مہم جوئی کی کوشش کی تو اس کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔

اس واضح پیغام کے باوجود بھارت نے روائتی کمینے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں کارروائی کی کوشش کی جس کو ہمارے شاہینوں نے نہ صرف ناکام بنا دیا بلکہ بھارت کا ایک جنگی طیارہ پاکستانی حدود میں مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو قیدی بھی بنا لیا ۔ مجھے پائلٹ کے قیدی بنانے سے 65 کی جنگ کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے ۔ وادیٔ سون کے سب سے اونچے پہاڑ سکیسر پر فضائیہ کا راڈارقائم ہے جنگ کے دوران ایک بھارتی پائلٹ نے اس کو تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا اپنا طیارہ پاکستانی شاہینوں کا نشانہ بن گیا اور پائلٹ سمیت ہمارے ساتھ والے گائوں سوڈھی جے والی میں گر گیا جس میں پائلٹ بھی ہلاک ہو گیا۔

میرے بڑے بھائی میاں سلطان مرحوم کو جب اس کا علم ہوا تو وہ فوری طور پر طیارے کے ملبے کی جگہ پر پہنچ گئے اور بھارتی پائلٹ کا سر کاٹ کراپنے ساتھ گائوں لے آئے اور اپنے ڈیرے پر لٹکا دیا جس کو بعد میں فوجی آکر لے گئے۔ پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے بھارتی فوجی طیارے کا پائلٹ خوش قسمت ہے کہ اس کو وادیٔ سون کے اعوان نہیں ملے ورنہ ہمارے وزیر اعظم کو اس بھارتی جارح کی واپسی کا اعلان کرنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑتی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔