’’کیڑی کے گھر بھگوان‘‘

عبدالقادر حسن  جمعـء 2 اگست 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دنیا بھر کے لیے ایک سپر پاور مگر پاکستان کے لیے آقا و مولا اور سب کچھ، امریکا کے وزیر خارجہ نے بالآخر کچھ وقت نکال لیا اور کیڑی کے گھر بھگوان آ گیا۔

ہمارے حکمرانوں نے تو ان کا جو استقبال کیا، وہ ہمارے وزیر خزانہ کو معلوم ہی ہے کہ بذریعہ عالمی مالیاتی ادارے امریکا کا بھرپور تعارف ان کو ایک بار پھر ہو چکا ہے۔ باقی تعارف وہ تھا جو عمران خان نے کرایا۔ عمران نے امریکیوں کی خواہش اور پسند کے برعکس ان کے سفارت خانے جا کر امریکی سفیر سے ملنے سے انکار کر دیا۔ یوں تو ہمارے جیسے لوگوں کا انکار بھی کیا ہوتا ہے لیکن اس انکار نے ہماری طبیعت خوش کر دی۔ ہم خوشابیوں کے پڑوسی میانوالی کے نیازیوں کا اکھڑ پن ہمارے ہاں بہت مشہور ہے۔ ابوجہل کا جب سر کاٹنے لگے تو اس نے کہا کہ گردن کندھے کے قریب سے کاٹیں تا کہ سربلند رہوں۔ عمران خان بھی گردن جھکا کر اس امریکی سفارت خانے نہیں ایک امریکی افسر کے گھر سر بلند کر کے امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کے لیے پہنچے۔

پاکستان کے اس لیڈر کی طاقت تو ظاہر ہے وہی ہونی ہے جو اس کے ملک کی ہے لیکن امریکی اسے پاگل پن کہیں یا کچھ اور ذرا مبالغہ سہی عمران اس سیاسی مقتل میں سر اٹھا کر گئے اور اپنے ضمیر کو مطمئن کر کے اس امریکی گھر سے باہر آئے۔ بات اتنی بڑی نہیں کہ اس پر کالم آرائی کی جائے لیکن حالات نے اس عام سے واقعہ اور ملاقات کو بھی بڑا بنا دیا ہے اور میرے جیسے کمزور پاکستانی بھی جھرجھری لے کر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے ہیں اور ادھر ادھر دیکھنے لگے ہیں کہ ہم کہاں ہیں اور جسم پر چٹکی بھر کر یقین کر رہے ہیں کہ کیا ہم زندہ سلامت یہ سب دیکھ سن رہے ہیں ورنہ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہمارے لیے جانیں قربان کرنے والوں کے مصائب یا سزائیں بھی ہمیں کسی دوسرے ملک کا اندرونی مسئلہ نظر آتی ہیں۔

حیران کن بات ہے بلکہ ناقابل یقین کہ جن لوگوں نے پاکستان کی بقاء اور اتحاد کے لیے جانیں لڑا دیں اور لڑاتے چلے جا رہے ہیں، وہ تو کبھی مبینہ طور پر پاکستان کے ضامن ہونے کی تاریخ رکھنے کے باوجود اس ملک کی سلامتی پر قربان ہو رہے ہیں اور ہم پاکستان کے حامی یہاں باقی ماندہ پاکستان میں بیٹھے عیش کر رہے ہیں۔ اس وقت اتفاق سے بارش برس رہی ہے اور ہم اس موسم کو انجوائے کر رہے ہیں۔ برسات میں ٹھنڈی ہوا سے بہتر موسم اور کوئی نہیں ہوتا اور دور کسی دوسرے ملک میں ہماری بقاء کے لیے لڑنے مرنے والے ہم سے دور ہیں اور ہمارے موسم کو بدمزہ نہیں کر رہے کہ غیرملک میں ہیں اور یہ اس غیرملک کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔ ہمارا مسئلہ تو ان دنوں پاکستان توڑنے میں سب سے بڑا حصہ دار ہونے والے بھارت کے ساتھ بھائی چارہ قائم کرنا ہے اس کو اپنے کھیتوں کا پانی تحفہ میں دینا ہے اور ہمارے اس پانی سے بننے والی بجلی خریدنا ہے اور ہاں بجلی سے یاد آیا کہ آج سے ہماری بجلی اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ اس سے ہر شے مہنگی ہو گئی ہے۔ بازار کے نرخ بدل گئے ہیں۔

پہلے سے ہی جان لیوا گرانی کی کیا کمی تھی کہ اس پر یہ اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔ ایک سادہ مزاج پاکستانی نے بجلی کے نئے نرخوں کا سن کر بے ساختہ کہا کہ ہمارے حکمرانوں کا اصل ارادہ کیا ہے کیا ہمیں قسطوں میں مارنا ہے، بہتر ہے کہ یک مشت ہی مار دیں اور ہمیں دھوتی والوں کے سپرد کر دیں جو پہلے تو ہمیں اپنی دھرتی ماتا سے علیحدگی کی سزا دیں گے پھر ہمیں اپنی خدمت کے لیے زندہ رہنے کی اجازت دیں گے۔ سوویت یونین میں علاج معالجے کا انتظام بہت اعلیٰ تھا۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ ان کا ملک سرکاری مزدوروں کا ملک ہے اور مزدور کی صحت مندی اسٹیٹ کی مجبوری ہے۔ ہم گستاخ پاکستانیوں سے بھی یہی مزدوروں والا سلوک کریں گے لیکن سوویت یونین کی طرح کوئی سہولت دیے بغیر جیسے جنگ میں بے کار انسانوں اور گھوڑوں کو مار دیا جاتا ہے۔ اب آٹا فی الحال فی تھیلا دس روپے بڑھ گیا ہے۔ ہم آٹا خور قوم ہیں۔

بابر نے جب ہندوستان میں دیکھا کہ لوگ دال کے ساتھ روٹی کھا رہے ہیں تو اس نے تعجب کیا کہ یہاں لوگ اناج کو اناج کے ساتھ کھاتے ہیں۔ ہماری بنیادی غذا یعنی پیٹ بھرنے کا سب سے بڑا ذریعہ آٹا ہے اور دانہ گندم ایک نعمت ہے۔ پنجابی کہتے ہیں کہ جنہاں دے گھر دانے اوہناں دے جھلّے بھی سیانے کہ جن کے گھر دانے ہوں تو ان کے گھر کے پاگل بھی عقل مند سمجھے جاتے ہیں۔ آٹا مہنگا کرنا قوم کو غریبوں کو جن کی اکثریت ہے بھوکا مارنا ہے۔ میں سچ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے حکمران اسمبلیوں کے اراکین وغیرہ میں کسی کا بھی اصل مسئلہ آٹا نہیں ان کے مسائل دوسرے ہیں جو ہم عام لوگوں کی سمجھ میں بھی نہیں آتے۔ ہمارے دشمن بڑی باریک بینی سے ہماری حالت دیکھ رہے ہیں اور پاکستانی قوم کی دن بدن بدلتی ہوئی نفسیات کو دیکھ رہے ہیں کہ یہ قوم اب کس مقام پر ہے ہماری حالت تو یہ ہے کہ وہ جہاں چاہیں ہمیں ضرب لگا دیں اور دیکھیں کہ ہمارا ردعمل کیا ہوتا ہے یہی ردعمل ہمارے قومی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔

گنجائش نہیں رہی ورنہ میں اس ملک کے شریف ترین رہنما سید منور حسن کی افطاری کا ذکر ضرور کرتا جس میں گرتے پڑتے مگر بڑے شوق کے ساتھ حاضر ہوا۔ صحیح افطار کرنے والوں کے لیے مناسب‘ لذیز اور ہلکی غذا سے انھوں نے روزہ کھلوایا مگر سب کے پیٹ بھر گئے۔ اس افطاری والی ملاقات سے پیٹ نہیں بھرا، میں عید کے بعد ان سے ملنا چاہتا ہوں کہ میرے اصل گھر کی صورت اب کیا ہے۔ اچھرہ کے ذیلدار پارک سے مجھے منصورہ تک کا سفر یاد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔