ممنون حسین جیسی حیرانیاں برپا ہوتی رہتی ہیں

نصرت جاوید  جمعـء 2 اگست 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میرے چند بڑے ہی محترم ساتھی ان دنوں نواز شریف کو اس بات پر شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ انھوں نے ایوانِ صدر میں بٹھانے کے لیے ممنون حسین کا انتخاب کیوں کیا۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ ہمدردی کا اظہار سید غوث علی شاہ سے کیا جا رہا ہے۔ کچھ بھائیوں کو سردار مہتاب عباسی کے وہ دن یاد آ رہے ہیںجو انھوں نے جنرل مشرف کے زمانے میں ذلت اور اذیتوں میں گزارے تھے۔ سرتاج عزیز صاحب کوچاہنے والے تو ویسے ہی بے شمار ہیں۔ اگرچہ وہ نسلاََ پشتون ہیں مگر زمانہ طالب علمی سے رشتہ لاہور سے بنا کر اسے گہرا کرتے چلے گئے۔

ٹھنڈے اور تجربہ کار آدمی ہیں۔ ایوانِ صدر کے لیے انگریزی اصطلاح والے Tailor Made نظر آتے ہیں۔ چونکہ مندرجہ بالا حضرات کو نظر انداز کرتے ہوئے نواز شریف صاحب نے ہما ممنون حسین کے سر بٹھا دی اس لیے چند صحافیوں نے ان کی ’’خوبیوں‘‘ کو دریافت کرنے کی کوششیں بھی کیں۔ بڑی تحقیق کے بعد خوبی نکالی تو صرف اتنی کہ ممنون صاحب کے گھر والے ’’ربڑی دودھ‘‘ بہت مزے کا بناتے ہیں۔ نواز شریف پکے لاہوری سمجھے جاتے ہیں جس کا مطلب ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی نظر میں صرف کھانے اور بہت زیادہ کھانے کا شوقین سمجھا جاتا ہے۔ اس تناظر میں ممنون حسین کے انتخاب کو سامنے رکھ کر ان کی اور نواز شریف کی خوب بھد اُڑائی جا رہی ہے۔

اپنے کالموں کے ذریعے میں اکثر دانشوری بگھارنے کے مواقع تلاش کرتا رہتا ہوں۔ مگر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اپنے اندر کے رپورٹر سے ابھی تک نجات نہیں پا سکا اور محض ایک رپورٹر کے طور پر میں اصرار کر رہا ہوں کہ یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ وہ کونسا دن اور مرحلہ تھا جب نواز شریف صاحب نے ممنون حسین کو ایوانِ صدر بھیجنے کا قطعی فیصلہ کر لیا۔ میں یہ بات ماننے کو ہرگز تیار نہیں کہ وزیر اعظم ایک دن اچانک سو کر اُٹھے اور ممنون حسین کا انتخاب کر ڈالا۔

یہ بات درست ہے کہ میاں صاحب دل کی بات شاذ و نادر ہی زبان پر لاتے ہیں۔ مگر جن لوگوں پر وہ اعتماد کرتے ہیں، ان کی باتیں بڑے غور سے سنا کرتے ہیں۔ یقیناً انھوں نے ان لوگوں میں سے چند ایک سے اچانک پوچھا ہو گا کہ ’’ایوانِ صدر کے لیے ممنون حسین کیوں نہیں؟‘‘ میں ان لوگوں کے نام جاننا چاہتا ہوں اور دوبارہ وہ مرحلہ جب اس نام کو اپنانے کا قطعی فیصلہ کر لیا گیا۔ اپنی اس خواہش کے اظہار کے بعد میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور بھی ہوں کہ میں نے خود ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی ہرگز کوشش نہیں کی۔ میری کاہلی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد صدر کا عہدہ واقعتاََ نمائشی ہو چکا ہے۔ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی سے اندھی نفرت کرنے والے حضرات اس حقیقت کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔

یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اتنے بھی ’’ریموٹ کنٹرولڈ‘‘ نہیں تھے جتنا ہم نے زرداری کی نفرت میں فرض کر لیا تھا۔ جہاں ان کا بس چلتا تھا خوب من مانی کرتے تھے۔ مگر ان دونوں کو یہ بات سوٹ کرتی تھی کہ لوگ انھیں بے اختیار اور زرداری کی انگلیوں پر ناچتی کٹھ پتلیاں سمجھیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی تمام برائیوں کی ذمے داری آصف علی زرداری کے نام لگتی رہے اور وہ کونے میں بیٹھ کر اپنے حصے کی دہی کھاتے رہیں۔ آصف علی زرداری کا مسئلہ مگر یہ بھی تھا کہ وہ حکومتی پارٹی کے سربراہ بھی تھے۔ وزراء اور بیوروکریٹس کا وہ گروپ جسے گیلانی یا راجہ صاحب کے دربار میں پذیرائی نہ ملتی ایوانِ صدر کے پھیرے لگا کر سرگوشیوں کے جال بنتا رہتا۔ بالآخر ان سمیت نہ زرداری کے ہاتھ کچھ رہا نہ ان کے بنائے وزرائے اعظموں کے۔

نواز شریف اپنے اختیار میں کسی اور کی شرکت گوارا نہیں کرتے۔ اب تو 18 ویں ترمیم آ گئی ہے لیکن وہ جب اس ملک کے 1990ء میں پہلی بار وزیر اعظم بنے تو ایک جہاندیدہ بیوروکریٹ غلام اسحاق خان اس ملک کے صدر تھے جن کے پاس وہی اختیارات تھے جو جنرل ضیاء اور بعد ازاں مشرف نے فوجی وردی میں اس ملک کا ’’منتخب صدر‘‘ بن کر Enjoy کیے تھے۔ ان اختیارات کو غلام اسحاق خان استعمال کرنا بھی جانتے تھے۔ پھر آج کل جمہوریت اور اصولی سیاست کے بہت بڑے پرچارک بنے روئیداد خان جیسے لوگ ان کے مشیر تھے جنھیں لاہور سے آئے ’’ناتجربہ کار‘‘ وزیر اعظم کی ’’پھرتیاں‘‘ پسند نہیں تھیں۔ افسر شاہی ویسے بھی قواعد و ضوابط کے بھرپور استعمال کے نام پر نئے خیالات روکنے کی عادی ہوا کرتی ہے۔ غلام اسحاق خان کے دنوں کی ساری افسر شاہی اس وقت کے صدر کے ساتھ مل گئی۔

بعد ازاں جنرل اسلم بیگ اور آصف نواز جنجوعہ بھی ان کے ہم نوا ہو گئے۔ سول اور ملٹری افسر شاہی کے گٹھ جوڑ نے نواز شریف کو بطور وزیر اعظم اپنی پہلی مدت پوری نہ کرنے دی۔ دوسری بار جنرل مشرف اور ان کے حواری اپنا کام دکھا گئے۔ نواز شریف اب اٹھارویں ترمیم کے بعد والے وزیر اعظم بنے ہیں۔ اپنی اس حیثیت میں وہ خود کو حاصل اختیارات پوری طرح استعمال کریں گے۔ اس صورتحال میں صدر کوئی بھی بنتا حقیقی معنوں میں نمائشی ہی رہتا جیسے فضل الہی چوہدری اور رفیق تارڑ ہوا کرتے تھے۔ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی مجھے ممنون حسین کے انتخاب کے پیچھے نواز شریف کے کچھ دور رس اہداف موجود ہونا محسوس ہو رہے ہیں۔ مگر وہ کیا ہیں مجھے ہرگز خبر نہیں۔

بھلے وقتوں میں ہمارے حکمران خواہ وہ فوجی ہوں یا منتخب سویلین اپنے درباروں میں چند صحافیوں کو تھوڑی جگہ ضرور دے دیا کرتے تھے۔ بعض اوقات تو یہ گماں بھی ہوتا کہ اہم فیصلے یہ حکمران نہیں ان کے پسندیدہ صحافی کیا کرتے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں اس چلن کو اپنی انتہاء تک پہنچایا۔ دوسری بار ذرا محتاط ہو گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وہ آخری سیاست دان تھیں جو اپنے حامی اور مخالف صحافیوں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر لمبی اور تند اور تیز بحثیں کیا کرتیں۔ ان کے بعد والے سارے سیاست دان اب صحافیوں پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کرتے۔ بظاہر ان کی ضرورت سے زیادہ عزت کرتے ہیں مگر دل سے اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ اہم فیصلوں کی بابت تھوڑی بہت Brain Stroming کر لی جائے۔ ٹیلی وژن چینلز آ جانے کے بعد ہم صحافی بھی صحافی نہیں رہے۔ نظریہ ساز ’’گورو‘‘ بن گئے ہیں۔ سرخی پائوڈر لگا کر بھاشن دیتے ہیں۔ خبر کس چڑیا کا نام ہے عرصہ ہوا اس کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ چکے ہیں۔ اسی لیے حکمران ممنون حسین جیسی ’’حیرانیاں‘‘ برپا کرتے رہتے ہیں اور ہم انھیں سمجھنے کے بجائے ٹھوس خبر سے اپنی لاعلمی کو طعن و تشنیع کے سیاپے سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔