میں بزدلوں کے ساتھ ہوں

طلعت حسین  جمعـء 2 اگست 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official

www.facebook.com/syedtalathussain.official

گر ے ہوئے کو سب لاتیں مارتے ہیں۔ جس پر بزدلی کا داغ لگ جائے وہ طعنوں سے نہیں بچ سکتا۔ جیتے ہوئے کو ہار پہنائے جاتے ہیں۔ بہادری سب کو پسند ہے۔ لوگ اپنے بچوں کے نام سورماوں پر رکھ دیتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان کے جیل حملے کے دوران خوف زدہ اور تھراتے ہوئے سیکیورٹی اہلکار مشین گنوں کو چھوڑ کر گٹروں اور نالیوں میں گھس گئے۔ جو مورچہ بند تھے وہ وہیں دبک گئے۔ جن کو آرمڈ گاڑیاں فراہم کی گئی تھیں، وہ طالبان کے جھتوں کی آمد کا سنتے ہی بگٹٹ بھاگ نکلے۔ جان بچانے کی خواہش ایسی غالب آئی کہ ساری زندگی کی تہمت مول لے لی۔ ٹوپی اور پیٹی کی عزت خاک میں ملا دی۔ پیشہ ورانہ جرات پر لات مار دی۔ اپنے ادارے کی لاج کا شیرازہ بکھیر دیا۔ ایک صوبائی وزیر باتدبیر پہلے ان اہلکاروں کی بہادری کی داستانیں سناتے رہے مگر پھر جب معلومات سامنے آئیں تو ایک اور وزیر امین گنڈاپور نے پولیس کی اس پست ہمتی پر بین شروع کر دیا۔ اخبار میں چھپنے والے ایک بیان میں انھوں نے فرمایا اِن کی بزدلی پر اُن کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔

مگر میں بزدلوں کے ساتھ ہوں، پولیس کی اس کارکردگی پر پریشانی بھی ہے اور صدمہ بھی مگر کسی کو ہمت کر کے یہ سوال تو اٹھانا چاہیے کہ ان ہٹے کٹے اسلحے سے لیس جوانوں نے ایسی خوفناک پسپائی کیوں اختیار کی۔ وہ کون سے محرکات تھے جنہوں نے اُن کو طالبان کے سامنے مٹی کا ڈھیر بنا دیا۔ جس میں سے وہ دھول اڑاتے ہوئے بزور بازو سیکڑوں قیدیوں کو رہا کرا کے اور چند ایک کو ذبح کر کے آسانی سے واپس چلے گئے۔ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے اُن بہادروں کو جو اِس وقت بزدل اہلکاروں پر استہزاء کر رہے ہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا۔ خیبر پختو نخوا میں پولیس اور دوسرے سیکیورٹی اہلکار مخمصہ کی اُس چکی میں پس رہے ہیں جو مرکز اور صوبے کے قائدین روز پیستے ہیں اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں کرتے۔ پولیس یا کوئی بھی قانون کا نفاذ کرنے والا ادارہ واضح احکامات اور پالیسی کے تحت کام کرتا ہے۔ ابہام، وہم، غیر یقینی صورت حال اِس کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔

صوبے کی حکومت ابھی تک یہ طے نہیں کر پائی کہ طالبان اُن کے ناراض بھائی ہیں، رنجیدہ دوست ہیں، ریاست کے دشمن ہیں، نظام کو خطرہ ہیں یا نظام کی ناانصافیوں کے خلاف راہ راست سے بھٹکے ہوئے باغی۔ عمران خان سے لے کر تحریک انصاف کا ایک عام ورکر ہر وقت ایک ہی جملہ بولتا رہتا ہے ’’یہ جنگ ہماری نہیں ہے اور جب امریکا افغانستان سے چلا جائے گا تو پہاڑوں پر چڑھے، غاروں میں چُھپے اور شہروں اور قصبوں پر قابض طالبان سے بات کر کے معاملات طے کر لیں گے‘‘۔ ایک عام سپاہی یا درمیانے درجے کا افسر جب اِس ماحول میں مورچہ بند ہوتا ہے تو حملہ آور طالبان اُس کو آنے والے دنوں کے دوست نظر آتے ہیں۔ وہ اُن پر گولی چلانے یا اُن کا سامنے کرنے کے احکامات کو وقتی ضرورت سمجھتا ہے۔ اور اُن کو ماننا دانشمندی۔ اُس کو یہ معلوم نہیں کہ گولی چلانے پر اُس کو میڈل ملے گا یا جوتے پڑیں گے۔ وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ گولی چلا کر طالبان سے ذاتی اور خاندانی جنگ کیوں مول لے۔

ریاست نے کس کو تحفظ فراہم کیا ہے کہ اُس کو یہ یقین ہو کہ فرائض کی ادائیگی میں جان جانے کے بعد اُس کی اولاد، گھربار، رشتہ دار وحشیانہ اور غضب ناک ردعمل سے محفوظ رہیں گے۔ اِن اہلکاروں نے اپنی آنکھوں سے اپنے ساتھیوں کے خاندان اجڑتے دیکھے ہیں۔ انھوں نے نام نہاد میڈیا میں یہ بحث ہوتے بھی سنی ہے کہ اپنی زمین پر مارا جانا شہادت کا عظیم درجہ ہے یا ایک ایسی ہلاکت جو امریکا کی پالیسیوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اگر حملہ آور طالبان کل کو معاہدوں کے ذریعے حکومت کے ساتھ مل کر اس معاشرے کا حصہ بننے والے ہیں تو اُن پر گولیاں چلانا ایک بے مقصد کوشش ہے۔ یا دوسری طرف اگر یہ جھتے اتنے ہی طاقت ور ہیں کہ سیکڑوں کوس کا سفر کر کے، حفاظتی حصاروں کو پھلانگتے ہوئے قیدیوں کو چھڑا کر ایسے لے جاتے ہیں جیسے بارات دولہن کو تو پھر اُن سے لڑائی مول لینا خودکشی کے مترادف ہے۔

جہاں تک معاوضے اور سہولتوں کا تعلق ہے ہم نے اُن میں اضافہ کر کے دیکھ لیا۔ زخموں پر پیسوں کا وقتی مرہم کسی ادارے میں جرات پیدا کرنے کا باعث نہیں بن سکتا۔ کوئی جان پیسے سے قیمتی نہیں۔ خود اعتمادی، حوصلے، ہمت کا تعلق نفسیاتی کیفیت سے ہے جو پو لیس جیسے اداروں میں سیاسی قیادت اپنے فیصلوں کے ذریعے پیدا کرتی ہے۔ جب تمام تر سیاسی مینڈیٹ کے باوجود صوبائی انتظامیہ شکیل آفریدی جیسے ایک قیدی کو اپنے پاس رکھنے سے معذوری کا اظہار کر رہی ہو تو اِس صوبے کے سیکیورٹی اہلکار کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟ یہی ناں کہ قیدیوں کو چھڑانے والے، قید کرنے والوں سے کہیں زیادہ طاقت ور ہیں۔ چلیں شکیل آفریدی کا تعلق تو امریکا سے ہے۔

بنوں جیل کے واقعہ نے مقامی اور غیرملکی طالبان کی قوت کو ثابت کیا۔ اُس کے بعد سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعہ تک تمام نظام جوں کا توں رہا۔ الیکشن کے باوجود کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا مگر چونکہ سیاستدانوں کے پاس ووٹ ہیں اُن کے چاہنے والے سوشل میڈیا پر بڑ ے متحرک ہیں لہذا اُن کی غلطیاں کون گنے۔ اُن کو مورد الزام کون ٹھہرائے گا۔ یہ سب تو صاحب بہادر ہیں لہذا بہت بہاد ر ہیں۔ کمزور دل اور غیرت سے عاری تو وہ غریب ہے جو ڈھیلی ڈھالی یونیفارم اور ٹیڑھی ٹوپی کے ساتھ آرمی سے مستعار لی ہوئی بندوق تھامے ایک ایسی چیک پوسٹ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے جہاں پر پینے کا پانی موجود نہیں ہے۔ اضافی مدد تو دور کی با ت ہے۔ بزدلی کا طعنہ دینے والے گنڈاپور صاحب کو اگر ان حالات میں چیک پوسٹ پر تعینات کر دیا جائے تو ناجانے وہ ہمت کے کتنے نئے باب رقم کر پائیں گے۔

ویسے جس امتحان میں اِن بہادروں نے کامیاب ہونا تھا اُس میں اُن کی کارکردگی عائلہ ملک کے جعلی سرٹیفیکٹ میں دیے ہوئے نمبروں سے بھی کم تر ہے۔کہتے ہیں معلومات نہیں تھیں۔ دستاویزات موجود ہیں، حملہ آور کہاں سے آ رہے تھے۔ بتا دیا گیا تھا، کتنے ہوں گے۔ معلوم تھا، کہاں سے آئیں گے۔ یہ بھی پتا تھا، کیسے حملہ کریں گے۔ اس کا بھی تجزیہ کر دیا گیا تھا، کس دن حملہ ہو سکتا ہے۔ وہ بھی بتلا دیا گیا تھا۔ صوبائی اور مرکزی حکومت کا کوئی ادارہ ایسا نہیں تھا جس کے پاس اِس ممکنہ اور شرمناک واقعہ کی آمد کی خبر نا ہو۔

انھیں معلومات کی بنیاد پر حملہ آوروں سے نپٹنے کے لیے مصنوعی مشقیں بھی کی گئی تھیں مگر چونکہ اعلیٰ سیاسی قیادت کی توجہ کا فقدان تھا اور ہر کو ئی یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ عام سا معاملہ ہو گا لہذا کسی بہادر نے وقت نکال کر اِس طرف توجہ نہیں دلائی۔ نواز شریف اپنے ہاتھوں سے چنے ہوئے صدر کی بلائیں لے ر ہے تھے اور وزیراعلیٰ ان سیاسی معاملات کے علاوہ توانائی کا بحران حل کرنے کی کوشش کر ر ہے تھے۔ طالبان کے جھتوں کے سامنے متذبذب پولیس اہلکاروں کو متضاد ہدایات کے سائے تلے کھڑا کرنا ایک خطرناک بے وقوفی تھی جس کی ذمے داری لینے کو کوئی تیار نہیں۔ بزدلوں سے کہیں زیادہ خطرناک وہ بے وقوف ہیں جو طالبان کی اس جیت اور اپنی کمزوری کو سیاسی رنگ میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں بزدلوں کے ساتھ ہوں، مجھے اُن سے ہمدردی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔