’’انزی دی لیجنڈ‘‘ ایسا نہ کریں

سلیم خالق  ہفتہ 2 مارچ 2019
پی ایس ایل آئی ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز پیچھے چلے گئے، فوٹو: فائل

پی ایس ایل آئی ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز پیچھے چلے گئے، فوٹو: فائل

کل بھارت کی ایک ویب سائٹ پر کپتان ویرات کوہلی کا بیان دیکھا کہ ’’آئی پی ایل کی کارکردگی ورلڈکپ میں سلیکشن پر اثر انداز نہیں ہو گی‘‘۔

یہ بات بالکل درست ہے20 ٹوئنٹی کرکٹ کا 50 اوورز کے مقابلوں میں پرفارمنس سے بہت زیادہ تعلق نہیں بنتا،پھر یہ ان کھلاڑیوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہے جو پورے سال اچھا پرفارم کرتے چلے آئے مگر لیگ میں موقع نہیں ملا یا کارکردگی اچھی نہیں رہی تو نظرانداز کر دیا۔

پاکستان میں معاملہ الگ ہے یہاں جب سے پی ایس ایل آئی ڈومیسٹک کرکٹ کے پرفارمرز پیچھے چلے گئے، لیگ کی انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ اور عوامی دلچسپی نے پرفارم کرنے والوں کو راتوں رات اسٹار بنا دیا، بعض کو تو ٹیسٹ کیپ بھی مل گئی، یہ رحجان اچھا نہیں تھا اسی لیے پاکستانی ٹیم کو اگر آپ دیکھیں تو وہ متوازن دکھائی نہیں دیتی، کئی ٹیسٹ پلیئرز میں بیٹنگ کیلیے درکار صبروتحمل بھی موجود نہیں۔

پی ایس ایل شروع ہونے سے قبل ہی یہ بیانات سامنے آنے لگے کہ2،3نمایاں کھلاڑیوں کو میگا ایونٹ کیلیے انگلینڈ جانے کا ٹکٹ بھی مل جائے گا،زیادہ دور نہیں جاتے آپ سوشل میڈیا پر چلے جائیں محمد حسنین کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کیے جا رہے ہیں کہ اس نے 150 کی رفتار سے بولنگ کی قومی ٹیم میں شامل کر لینا چاہیے، یہ تو اس نوجوان کے ساتھ بھی زیادتی ہے، ابھی تو اس نے کھیلنا شروع ہی کیا ہے، تھوڑے عرصے مزید پرفارم کرنے دیں توپاکستان کیلیے بھی کھلا دیں۔

ایسے ہی عمر خان بھی اچھا پلیئر ہے اسے بھی تھوڑا تجربہ حاصل کرنے دیں پھر گرین کیپ سر پر سجانے کی باتیں کریں، ابھی سے اتنا نہ چڑھائیں کہ نوجوان پلیئرز توقعات کے بوجھ تلے دب جائیں۔

اب آپ یہ دیکھیں کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق ان دنوں یہ باتیں کر رہے ہیں کہ کپتان سرفراز احمد سمیت بعض کھلاڑیوں کو آسٹریلیا سے سیریزمیں آرام کرایا جائے گا، کیا یہ فیصلہ صحیح ہوگا؟

ورلڈکپ سے قبل اب پاکستان کو آسٹریلیا اور انگلینڈ سے ہی ون ڈے میچز کھیلنے ہیں، اس دوران کمبی نیشن آزمانے کا آخری موقع ہوگا،آپ کپتان کو ہی باہر بٹھانے کا سوچ رہے ہیں،یہ درست ہے کہ پاکستانی کرکٹرزگزشتہ کچھ عرصے سے نان اسٹاپ کھیل رہے ہیں اور انھیں آرام کا موقع دینا چاہیے، مگر ایسا پی ایس ایل کے دوران کیوں نہیں کیا گیا؟اس کی وجہ مالی مفادات کا وابستہ ہونا ہے۔

کوچ مکی آرتھر کراچی کنگز سے منسلک ہیں، جو قومی کرکٹرز ان کی ٹیم میں ہیں وہ انھیں کیوں آرام کرائیں گے انھیں تو لیگ جیتنی ہے،بابر اعظم، عماد وسیم اور محمد عامر کو تو انھوں نے کسی میچ میں ریسٹ نہیں دیا اور ساتوں میچز کھلائے، پھر آرتھر کیسے یہ بیان دے رہے ہیں کہ ’’کھلاڑی تھکاوٹ کا شکار ہوچکے اورانجرڈ ہو سکتے ہیں‘‘، انھوں نے بابر کے بارے میں بھی یہ خدشہ ظاہر کیا پھر بھی تمام میچز کھلائے، یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟

اسی طرح انضمام الحق کے مفادات لاہور قلندرز سے وابستہ ہیں اسی لیے انھوں نے فخرزمان پر زور نہیں دیا ہوگا کہ کسی میچ میں تو ریسٹ کرلو وہ بھی ساتوں میچز کے دوران ایکشن میں تھے،شاہین کو انجریز ہونے لگی ہیں، انھوں نے بھی پانچ میچز کھیل لیے،ملتان سلطانز کے شعیب ملک کو بھی آرام کی ضرورت تھی مگر انھوں نے بھی تمام آٹھوں میچز میں حصہ لیا،اب تو انھیں قومی کپتان بنانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔

پشاور زلمی کے حسن علی بھی بغیر آرام سات میچز کھیل چکے،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد نے بھی ریسٹ نہیں کیا اور ساتوں میچز میں حصہ لیا، کوچ فرماتے ہیں کہ فہیم اشرف اور شاداب خان بہت تھک چکے اور اسپنر کی گروئن انجری بھی شروع ہو گئی ہے،اس کے باوجود دونوں نے نان اسٹاپ8 میچز کھیلے، کیوں ان کو نہ روکا گیا، کوچ اور چیف سلیکٹر قومی ٹیم کو ترجیح نہیں دے رہے۔

انزی دی لیجنڈ(ٹویٹر پر وہ اپنا یہی نام لکھتے ہیں) اب تجربات کا وقت نہیں رہا، آرام کرانا ہے تو پی ایس ایل میں کرا لیتے انٹرنیشنل میچز میں ایسا نہ کریں، لیگ کی چکاچوند سے زیادہ متاثر نہ ہوں سارے سال پرفارم کرنے والے کرکٹرز کو دیکھیں، آپ نے ویسے ہی فواد عالم، صدف حسین،تابش خان سمیت کئی پلیئرز کے کیریئر تباہ کر دیے اور اب عابد علی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، جو حقدار ہیں انھیں مواقع دیں۔

ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ انضمام اپنے تمام منصوبے چپکے سے اپنے ’’خاص دوستوں‘‘ کو بتا دیتے ہیں، بورڈ خاموش تماشائی بنا بیٹھا رہتا ہے، حالانکہ چےئرمین احسان مانی اور ایم ڈی وسیم خان سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ میڈیا سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں رکھیں، میں نے چند دن قبل وسیم خان کو واٹس ایپ میسج کیا یقین مانیے چند سیکنڈز میں میڈیا ڈپارٹمنٹ کے ایک صاحب کا پیغام آ گیا ’’خیریت آپ کو وسیم صاحب سے کیا کام تھا؟‘‘

اسی طرح کچھ عرصے قبل چیئرمین بھی کہہ چکے کہ میڈیا ڈپارٹمنٹ والے کہتے ہیں کسی سے کوئی بات نہ کریں، اچھا ہے غیرملکی انداز پاکستان میں آزمایا جا رہا ہے، امید ہے کام بھی ویسے ہی ہوں گے، ہاں ہم لوگوں کو اس کی عادت نہیں اس لیے ایڈجسٹ کرنے میں مسئلہ ہوگا، ویسے بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ میں بھی ’’کنٹرولڈ میڈیا پالیسی‘‘ لائی جا رہی ہے،اس سے قبل نجم سیٹھی ’’ٹویٹر مافیا‘‘ اور دیگر ’’خفیہ طریقوں‘‘ سے میڈیا کے معاملات کنٹرول کرتے تھے۔

سب کا اپنا الگ الگ انداز ہے، ہمارا کام تو بس خبریں دینا ہے وہ پہلے بھی دیتے تھے اب بھی انشا اﷲ دیں گے، کوئی دھمکا کر روکتا تھا کوئی مختلف انداز سے ایسا کرے گا، مگر کام تو چلتا ہی رہے گا، ابھی توہم پی ایس ایل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ملکی مفاد میں کئی خامیوں سے نظریں ہٹائی ہوئی ہیں مگر آگے مشکل وقت آنا ہے،بھارت کیخلاف کیس میں کروڑوں روپے ڈوب گئے، حیرت ہے اس پر سب خاموش رہے، اب ورلڈکپ میں پاکستان کی پرفارمنس، ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم سے چھیڑ چھاڑ سمیت کئی ایسی چیزیں ہیں جو موجودہ پی سی بی حکام کا ہنی مون پیریڈ ختم کر سکتی ہیں،البتہ ہماری تو یہی خواہش ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہے کیونکہ اسی میں پاکستانی کرکٹ کی بقا ہے۔

 

(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پرفالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔