لائن آف کنٹرول

جاوید قاضی  اتوار 3 مارچ 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

میں نے یہ کہا تھا کہ تاریخ اپنے تعاقب میں خو د کو ڈھونڈ رہی ہے۔ لکیریں ہیں کہ پڑتی نہیں ، اٹھتی نہیں ، مٹتی نہیں اور لہو ہے جو ٹپک ٹپک کر بہہ رہا ہے۔ وہ لہو جس کی کوکھ میں فقط بھوک اگا کرتی ہے۔ کتنے پریوار ہیں مائیں ہیں بہنیں ہیں اور وہ اپنے خاوند ، بیٹوں اور بھائیوں کی راہ تکتے چوکھٹ پر کھڑی ہیں اس گھر کے آنگن میں جہاں مسکان رہا کرتی تھی۔ اب کے بار اداسیوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

ہم جو ٹویٹر پر گھمسان کی جنگ لڑ رہے ہیں انھیں کچھ بھی خبر نہیں کہ میدان جنگ کیا ہوتا ہے، شمشیر کیا ہوتی ہے کس طرح بازو میں ڈھال پکڑتے ہیں توپوں کی گرج ہوتی ہے اور دور میدان سے کس طرح پھر گھر اجڑتے ہیں۔ ہمارے سوشل میڈیا کے سپاہی یہ نہیں جانتے ۔ اب کی بار نفرت سے پر بیانیہ کہیں اور نہیں یہیں بن رہا ہے۔ وہ جنگ جو ہو بھی چکی یا نہیں، جیتنے والے جیت چکے یا نہیں ہمیں اس سے کچھ بھی غرض نہیں۔ ہماری جنگ جاری ہے۔ نفرت کے تودے برس رہے ہیں کہ نفرت کے کاروبار پر کوئی بدستور وزیر اعظم ہندوستان بننا چاہتا ہے۔

یہ بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے ۔ ہمیں بھی دشمن درکار ہے کہ ہمارا بھی کاروبا چلتا رہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ خطہ صدیوں سے حملوں کی زد میں رہا ہے۔ جب بھی جنگ ہوئی جو بھی لگی پانی پت پر لگی اور آخری جنگ جب لگنے لگی تو محمد علی شاہ رنگیلا نے 1738میں نادر شاہ کی اتنی بڑی فوج دیکھ کر سفید جھنڈا لہرایااور اسے قلعے کی چابی دی مگر نادر شاہ ڈاکو تھا اسے تخت نہیں تخت پر لگا ہیرا کوہ نور چاہیئے تھا۔ وہ لوٹ مار کی جس کی تا ریخ میں کوئی مثال نہیں خون کی وہ ندیاں بہائیں کہ شاید بغداد کے فرات و دجلا میں تاتاریوں نے بھی نہ بہائی ہوں ۔

اب کی بار اس میں ہم سب کود پڑے ہیں ۔ بڑے بڑے صحافی جو سچ لکھتے لکھتے ، حب الوطنی کے نام پر اسی سچ کو اسپن کر رہے ہیں اور سلام پیش کر رہے تھے جب ہندوستان کے جہاز لائن آف کنٹرول پار کر کے ہمارے آزاد کشمیر تک آگئے تھے۔ ایک چھکا تھا آغاز الیکشن 2020 ہوچکا تھا اور مودی کا گراف آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا تھا۔ اور پھر ایک دن جیسے کسی اوور کی طرح تبدیل ہوا تو جیسے کلین بولڈ تھا جب ہمارے جہازوں نے ہندوستان کے دو جہاز گرادیے۔ ثبوت خود بول رہے تھے ۔ مودی کا گراف ایک جھٹکے میں فلک پیما سے زمین بوس ہوگیا۔

مگر ہندوستان میں بہت سی آوازیں تھیں جو دب گئیں ۔ اروندھتی رائے جیسی آوازیں جو کہہ رہی تھیںکہ مودی جنگ کو ہوا مت دو۔ یہ جنگ ہے اس میں جیت کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ ان جنگوں کی زد میں پورا برصغیر ہے۔ یہاں جمہوریت دو ملکوں میں ہے ، ایک ہندوستان اور دوسرا پاکستان۔ ان کی جمہوریت ہماری جمہوریت سے بہت آگے ہے، ادارے ہیں ۔ سپریم کورٹ ان کی دنیا کی عظیم کورٹوں میں سے ایک ہے۔ مگر ان کے بیانیہ کو ایڈوانی بابری مسجد کے نام پر ڈس گیا۔ ہندوستان کو فرقہ وارانہ فسادات جھگڑے تاریخ سے ملے وہ سلجھے نہیں بلکہ اور الجھ گئے اور اس طرح جمہوریت ہندوستان کی بھی یر غمال ہے۔ ان کی جمہوریت مسلمان دشمنی اور پاکستان دشمنی پر یرغمال ہوتی ہے۔ وہ بھی کشمیر جوں کا توں چاہتے ہیں۔ ہماری جمہوریت بیچاری سسک سسک کے جی تو رہی ہے مگر اس بار بات اور بگڑ گئی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ جمہوریت ہمارا ہتھیار ہے۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کا ہتھیار ۔ ہمار ی معیشت ہمارا ہتھیار ہے، وہ معیشت جو کہ اپنا dividend دینے میں نچلی سطح تک جائے۔ ہمارا دشمن یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ جیش محمد کا حملہ ، پلوامہ وغیرہ تو ایک بہانہ ہے۔ وہ ہم پر اس وقت وار کرتا ہے جب ہم اپنے اندر کے بحرانوں میں پھنسے ہوتے ہیں۔ 1971ء میں اس نے یہی کیا تھا۔

ہمارے یہاں بھی بہت سے ہیں جو جنگ کو ہوادے رہے ہیں لیکن ہندوستان سے کم۔ بڑا آسان ہے تغمہ سجانا ، محب وطن ہونے کا سرٹیفیکٹ لینا لیکن ان زمانوں میں وہ آوازیں جو جنگ کے خلاف بول رہی ہوتی ہیں وہ سرحد کے اس پار ہوں یا اس پار ان کے سننے کی اشد ضرورت ہے۔ کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ حب الوطنی خود کاروبار بن جاتی ہے ۔ اس کی مثال خود نریندر مودی ہے وہ اگر اس فلم کا ہیرو ہے تو ولن پاکستان ہے۔ اور ہمارے یہاں بھی دائیں بازو کی انتہا پسند سیاست کو ہیرو بننے کے لیے ایک ولن کی ضرورت ہے۔

اب یوں کرتے کرتے اکیسویں صدی میں داخل ہوگئے ہیں ۔ جہاں جنگ کا بیانیہ فرسودہ سا لگتا ہے۔ ہم تھک بھی گئے ہیں، ہم تنہا بھی ہوگئے ہیں ۔ اسی چکوال سے ہیں من موہن سنگھ ، میں ان کو پلوامہ کے پس منظر میں سن رہا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا ہماری جنگ بھو ک اور افلاس سے ہے ، جہالت سے ہے۔ اب جنگ کی بات کرنا تو جگ ہنسائی ہے۔ اسے محفل سے نکال دیں جو  جنگ کی بات کرے۔

مجھے خان صاحب نے یوٹرن سمجھادیا ۔ اور اگر یہ یوٹرن ہے تو ایسے یوٹرن کو سلام ہو ۔ جس سے جنگ ٹل جاتی ہے، مودی کے منہ میں کیا رہ جاتا ہے۔اس کا پورا چنائو کا پلان مٹی میں مل جاتا ہے ۔ ہمارے ذوالفقار علی بھٹو اسی ہندوستان دشمنی پر چھکے لگا کر لیڈر بنے تھے۔ جب جنرل ایوب لال بہادر شاستری سے تاشقند میں معاہدہ کر رہا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا تو اوڑہنا بچھونا،روٹی پانی یہی کشمیر اور ہندوستان دشمنی تھا۔اس سے یہاں پر بھی بڑے بڑوں کے چولھے جلتے تھے۔

ہماری جمہوریت ابھی تناور درخت نہیں بنی۔ یہ ارتقا کے جو چند زینے چڑھی تھی اسے وہ بھی اترنے پڑے۔ ہمارے ڈار صاحب کی معاشی پالیسیوں نے اور میاں صاحب اور زرداری صاحب کی بری حکمرانیوں کا بھی اسی میں عمل دخل ہے تو کچھ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی جمہوریت کے پروان چڑھنے کے اتنے حق میں نہیں ہے۔

مگر دشمن کے سامنے سب سے بڑا ہتھیار ایٹم بم نہیں جمہوریت ہے۔ یہ وہی موڑ ہے جہاں 1965 میں بھی اور 1971 میں بھی اس کی کمزوری نے ہمیں جنگ میں پامال کیا۔ تصور کریں اگر جنگ چل پڑتی ۔ ڈالر کہاں جاتا ، سونے کی قیمت آسمانوں سے باتیں کرتی۔ کھانے کی اشیاء اسٹور سے غائب ہوجاتیں۔ وہ جو روزانہ دہاڑی پر کام کرتے ہیں وہ کہاں جاتے۔ ان کے گھروں میں فاقوں کا راج ہوتا۔ جنگ کی بات کرنا حب الوطنی نہیں ۔ جنگ ایک دکان ہے ۔

اچھا ہوا ہم نے ان کا ایک جہاز گرایا۔ اور پائلٹ بچ گیا ، اس کا بیٹا یتیم ہونے سے اور اس کی بیوی بیوہ ہونے سے بچ گئے۔ مگر مودی کی نفرت خود اپنی آگ میں جل گئی ۔ وہ لوک سبھا کے چنائو سے پہلے بدلے کے لیے بے قرار تھا اسے کانگریس کو شکست دینی تھی۔

ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ انھوں نے بھی یہیں رہنا ہے اور ہم نے بھی۔ ہماری تاریخ ان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اتنے گہرے رشتے ہیں تاریخی اعتبار سے جو ہمارے اس خطے میں کسی اور کے ساتھ نہیں۔ ہمیں اس خطے میں رہنا ہے ہماری خارجہ پالیسی میں اس کی اولیت ہونی چاہیے۔

ہمیں کشمیریوں کی اخلاقی اور ہر سطح پر مدد کرنی چاہیے۔ کشمیر میں ابھی لائن پڑی ہے سرحدیں نہیں۔ لیکن اگر یہاں سے کوئی جہاد کرنے وہاں جاتا ہے وہ عمل درست نہیں۔ ہمارے لیے بہت سے چیلینجز ہیں ۔ ایک مضبوط پاکستان ہی کشمیر کی لوگوں کی آزادی کی ضمانت ہے اور اگر پاکستان مضبوط نہ ہوگا یہ جنگ کشمیر ی ہار جائیں گے۔ پاکستان مضبوط ہوگا جب اس کے ادارے مضبوط ہوں گے ، عدالتیں آزاد ہونگی ۔ اس کی معشیت مضبوط ہوگی وہ بحیثیت وفاق مضبوط ہوگا اور سب سے بڑی بات پاکستان بھرپور جمہوریت کا طلب گار ہے یہ نہیں کہ دس سال جمہوریت اور پھر دس سال یہاں آمریت ہو۔

ہمیں تمام سیاسی قیادت کو آن بورڈ لینا ہوگا ۔ ایک متحد ، ماڈریٹ پاکستان خود پاکستان کا دفاع ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔