توجہ دی جائے تو لاکھوں سیاح پاکستان آئیں، محمود بھٹی

قیصر افتخار  اتوار 3 مارچ 2019
بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پرآمادہ کرنے کی ضرورت ہے، ڈریس ڈیزائنر محمود بھٹی۔ فوٹو: فائل

بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پرآمادہ کرنے کی ضرورت ہے، ڈریس ڈیزائنر محمود بھٹی۔ فوٹو: فائل

پاکستانی نژاد فرانسیسی فیشن ڈیزائنرمحمود بھٹی کا شماردیارغیرمیں بسنے والے ان چند افرادمیں ہوتا ہے جن کی صلاحیتوں کی بدولت پاکستان کا نام خوب روشن ہوا۔ کہنے کوتووہ ڈریس ڈیزائنر ہیں لیکن فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیارغیر میں وطن عزیزکا نام روشن کرنے والوں کی فہرست بڑی طویل ہے لیکن ان میںمحمود بھٹی کی شخصیت ایسی ہے کہ جن کی کامیابیاں نوجوانوں کے مشعل راہ بن چکی ہیں۔

ڈریس ڈیزائنرمحمود بھٹی نے فیشن کی دنیا میں قدم تو رکھا لیکن یہ پہلا قدم انہوں نے فیشن کا گھر مانے جانیوالے ملک فرانس میں آگے بڑھایا۔ اپنی خدادادصلاحیتوںکے بل پرڈریس ڈیزائننگ کے شعبے میں ایسی منفرد پہچان بنائی ہے کہ آج ان کا شمار فیشن ورلڈ کے معتبر ناموں میں ہوتاہے۔ محمود بھٹی نے نا صرف بیرون ممالک میں شناخت بنائی بلکہ پاکستان میں فیشن انڈسٹری کی بنیاد رکھنے میں بھی انہوں نے اہم کردارادا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے آج پاکستان فیشن انڈسٹری ترقی کے سفر پرآگے بڑھ رہی ہے۔

دوسری جانب ان کا فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ وطن عزیزسے ہزاروں میل دوربسنے والے محمود بھٹی کا دل ہروقت پاکستان کیلئے دھڑکتا ہے اوروہ پاک وطن کی ترقی کیلئے ہروقت کوشاں رہتے ہیں۔ جب بھی ملک کوئی قدرتی آفت آتی ہے تومحمود بھٹی دل کھول کراپنے پاکستانی بہن بھائیوں کی مدد کیلئے ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بہت سے فلاحی اداروں میں بچوں کی تعلیم وتربیت، علاج معالجہ سمیت دیگرپراجیکٹس میں ان کا تعاون برسوں سے جاری ہے، جس کووہ ہمیشہ پس پردہ رکھتے ہیں۔

محمود بھٹی کی زندگی کے بارے میں تواب بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ کس طرح سے انہوں نے خود کوایک کامیاب انسان بنانے کیلئے محنت کی ۔ کیونکہ وہ اپنی جدوجہد کی کہانی ٹی وی چینلز کے پروگراموں ، اخبارات کے انٹرویوز اوراپنی زندگی پربننے والی ڈاکومنٹری میں بتا چکے ہیں۔ واقعی ہی ان کی زندگی کی کہانی ایک فلم کی طرح ہی لگتی ہے۔ وگرنہ ایسی مثالیں توزندگی میں بہت کم ملتی ہیں۔ جس میں ایک بے سہارا لڑکا بنا کچھ سوچے سمجھے فرانس جیسے ملک کواپنی منزل بناتا ہے، جہاں درجہ حرارت منفی ہوتا ہے، مگرکسی نے خوب کہا ہے کہ جولوگ سچی لگن اورجذبے کے ساتھ اپنی منزل کی جانب قدم بڑھاتے ہیں، انہیں ایک دن منزل مل ہی جاتی ہے۔ ایسا ہی محمود بھٹی کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے جوبھی کام کیا اس کواپنی محنت اورصلاحیت سے منفرد کردکھایا۔ نہ زبان کی سمجھ اورنہ ہی ڈیزائننگ کی کوئی تربیت، دکان کی صفائی سے مارکیٹنگ اورپھربطورڈیزائنر ملبوسات کا انداز فرانس کے بسنے والوںکو ایسا بھایا کہ انہوں نے فیشن کی دنیا میں بھٹی کوآنے کا ویزہ جاری کردیا۔ پھر کیا تھا وہ کام کرتے رہے اوردس روپے کوترسنے والاشخص چند برسوں میں ارب پتی بن گیا۔

محمود بھٹی اکثر پاکستان آتے ہیں اوران کے ہمراہ اب ان کی اہلیہ جورجیا بھی ہوتی ہیں، اس دوران جہاں وہ اپنے قریبی دوست احباب سے ملاقاتیں کرتے ہیں ، وہیں ’’ایکسپریس‘‘ کو خصوصی انٹرویوبھی دیتے ہیں اورہر بار ان کی زندگی کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے دلچسپ گفتگوکی، جوقارئین کی نذرہے۔

انٹرویومیں اس مرتبہ محمود بھٹی نے فیشن کی بات کی اورنہ ہی فلاحی کاموں کی، ان کا فوکس توبس پاکستان کی موجودہ صورتحال اوراس کی ترقی پررہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جس کواللہ تعالیٰ نے تمام نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ مگرمسائل کہہ لیں یا وسائل کی کمی ، ان نعمتوں سے ہم لوگ ابھی تک استفادہ نہیں کرپائے۔

اس وقت پاکستان کی اکانومی کا کوئی حال نہیں ہے لیکن دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک ایسی ہی صورتحال سے گزرچکے ہیں لیکن ان کی ثابت قدمی اوربہتر پالیسی کے تحت نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ چین جوہمارا پڑوسی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سپرپاوربن چکا ہے، جس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔ اس کے پیچھے کوئی ایسا فارمولا نہیں چھپا کہ ہم پریشان ہوجائیں۔ بس ایک ہی بات ہے جوپوری پاکستانی قوم کوسمجھنی ہے کہ ہمیں اپنے اپنے شعبے میں دن رات کام کرنا ہے۔ مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ اب ان کوبیرونی قرضوں سے نہیں بلکہ خود محنت کرکے ختم کرنا ضروری ہوچکا ہے۔ اس کیلئے خاصا مشکل وقت بھی آئے گا لیکن جب محنت ، لگن اورچاہت کے ساتھ کام کا سلسلہ شروع ہوگا توہمارا دیس ایک نئی مثال بن کرسامنے آجائے گا۔ اس وقت ہمیں ایک دوسرے کوبرا بھلا کہنے کی بجائے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑکرساتھ چلنے اورآگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

بلاشبہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے بہت سے لوگ دنیا کے دوسرے ممالک میں اپنی صلاحیتوں کی بدولت ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں لیکن انہیں جب پاکستان میں کام کرنے کا مشورہ دیا جائے توفوری انکارکردیتے ہیں۔ اس کیلئے حکومت کوایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ دیارغیرمیں بسنے والے یہاں واپس آئیں اورسرمایہ کاری بھی کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان بے پناہ مسائل کا شکار ہے۔ دہشتگردی ، بے روزگاری، تعلیم، بجلی، پانی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ، علاج معالجہ سمیت بے پناہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگ کرپشن کرنے پرمجبورہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاریخی عمارتیں کسی بھی ملک کی پہچان ہوتی ہیں، اس حوالے سے ہمارا ملک بھی تاریخی عمارتوں اورورثہ سے مالا مال ہے لیکن مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد اورشالامارباغ سمیت دیگرتاریخی عمارتوں کی خوبصورتی مانند پڑچکی ہے۔ ان تاریخی عمارتوں کو ان کی اصل شکل میں واپس لانے کیلئے کام کرنا آج کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں نیا پاکستان بنانا ہے اوردنیا بھرسے لوگوں کویہاں آنے پرمجبورکرنا ہے تواس کیلئے ہمیں اپنے تاریخی ورثے کواستعمال میں لانا ہوگا۔

دنیا بھرمیں تاریخی عمارتیں لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہیں۔ خاص طورپرمغربی ممالک میں بسنے والے تواس طرح کی عمارتوں کے بڑے دلدادہ ہوتے ہیں۔ مگربدقسمتی ہی کہہ لیں کہ پاکستان میں بہت کچھ ہے لیکن سیاح نہیں ہیں۔ میں نے ان عمارتوںکی حالت کوبہترکرنے کیلئے کچھ آئیڈیا تیارکئے ہیں اگران پرعملدرآمد کرلیا جائے تومیں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری تمام تاریخی عمارتیں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اصل شکل میں واپس آسکتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں محمود بھٹی نے کہا کہ تاریخی عمارتوں کے علاوہ ہمارے ملک کے شمالی علاقہ جات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ دنیا کے اکثرلوگ سوئزرلینڈ جاتے ہیں لیکن ہم اگرغیرملکی سیاحوںکو بہترماحول فراہم کریں اورتحفظ کے ساتھ سہولیات دیں توشاید ہمارے ملک میں آنے والوں کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں دنیا کاخوبصورت پہاڑی سلسلہ ہے، آبشاریں، جھیلیں اوربرفانی علاقے ہیں، جو بیرون ممالک بسنے والوں کیلئے تفریح کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن اس کیلئے بھی کچھ نہیں کیا جارہا۔

موجودہ حکومت جو نئے عزم کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، انہیں اس بارے میں ضرور سوچنا چاہئے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں جب بیرون ممالک سے سیاح آنے لگیں گے توکاروبار بڑھے گا اورلوگوںکو بہترروزگارملے گا۔ ویسے توہمارے ملک میں ایسے سے ایسا علاقے اورمقامات ہیں، جن کے ذریعے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ۔ فی الوقت ان پراجیکٹس کو مکمل کرنے کیلئے غیرملکی ماہرین کی نہیں بلکہ ایک قابل ٹیم کی ضرورت ہے جودن رات محنت کے ساتھ کام کرے تواس کیلئے زیادہ سرمایہ کاری بھی ضروری نہیں ہوگی۔

محمود بھٹی نے کہا کہ فیشن یونیورسٹی، میڈیکل کالج اور نرسنگ سکول کے ساتھ ساتھ میں نے کچھ نئے منصوبے بھی ڈیزائن کئے ہیں اورمیری ٹیم ان پرکام شروع کرنے سے پہلے کاغذی کارروائی کوحتمی شکل دے رہی ہے، جونہی یہ سب مکمل ہونگے توہم ان پرکام شروع کرینگے۔

انٹرویو کے دوران محمود بھٹی کی اہلیہ جورجیا جن کا تعلق برازیل سے ہے لیکن گزشتہ پچیس برس سے فرانس میں رہتی ہیں سے بھی گفتگوجاری رہی۔ جورجیا کوفرینچ زبان آتی ہے لیکن اب پاکستان آنے کی وجہ سے انہوں نے انگریزی زبان بھی سیکھنا شروع کردی ہے اوراس کے علاوہ ٹوٹی پھوٹی اردو بھی بولنے کی کوشش کرتی ہیں۔

جورجیا نے زیادہ بات تونہ کی لیکن مختصرگفتگوکے دوران انہوں نے بتایا کہ انہیں پاکستان کے لوگ اوران کاخلوص بہت اچھا لگتا ہے۔ جس چاہت سے یہاں مجھے خوش آمدید کہا جاتا ہے ، اس پربہت خوشی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پرپالک گوشت اورسموسے بہت اچھے لگتے ہیں، ویسے بھی اب تومیں پاکستانی کھانے بھی شوق سے کھاتی ہوں، اگریہ کہوں کہ فرانس اوربرازیل کے بعد پاکستان میرا گھر ہے توغلط نہ ہوگا، کیونکہ اب یہاں میرے بہت سے دوست بن چکے ہیں اوران کے ساتھ اکثررابطہ رہتا ہے، جہاں تک بات محمود بھٹی نے اپنی گفتگومیں پاکستان کی تاریخی عمارتوں اورشمالی علاقہ جات کا زکر کیا ہے توواقعی ہی یہ دو شعبے دنیا بھرکے سیاحوں کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

دنیا بھر سے لاکھوں سیاح یورپ میں آتے ہیں اورمختلف ممالک میں گھومتے ہوئے ایسے مناظردیکھ پاتے ہیں لیکن پاکستان میں توایک ٹکٹ میں بہت سے مزے ہیں۔ یہاں دنیا کے بلند اورخوبصورت ترین پہاڑی سلسلے ہیں، تاریخی ورثہ، ریگستان، سمندر اوربہت کچھ یہاں پرہے لیکن تھوڑی سی توجہ کے ساتھ اس کوبہتربنایا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اب وقت آچکا ہے کہ پاکستان کومسائل سے مقابلہ کیلئے تیارہونا چاہئے لیکن اس کیلئے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عوام کوبھی ان کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔