پاک بھارت نئی جنگ کے سائے

مبین مرزا  اتوار 3 مارچ 2019
نریندر مودی اور ان کی حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات کا جائزہ اقتدار کے اس پورے دورانیے میں بآسانی لیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

نریندر مودی اور ان کی حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات کا جائزہ اقتدار کے اس پورے دورانیے میں بآسانی لیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پاکستان اور ہندوستان پڑوسی ہیں اور روایتی حریف بھی۔ پچھلے ستر اکہتر برس کی تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں ممالک نے زیادہ وقت حریفانہ طور اختیار کرتے اور مخمصانہ تیور دکھاتے ہوئے گزارا ہے۔

چار جنگیں ہی نہیں، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی یا سرحدوں پر مسلسل جھڑپ جسے اب اسٹریٹی جیکل اسٹرائیک کہا جاتا ہے، کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ان دنوں بھی دونوں ملکوں کے مابین ماحول کشیدہ اور فضا خراب ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم نے گذشتہ دنوں جس طرح کے بیانات دیے، ان کی وجہ سے خطے پر جنگ کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔

صورتِ حال اس حد تک تشویش ناک ہے کہ امریکی صدر نے گزشتہ چند دنوں میں دو بار یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تناؤ کو کم کرنے کے لیے کوشش کی جارہی ہے اور یہ کہ حالات پر مسلسل نظر رکھی جارہی ہے۔ صرف امریکا ہی نہیں، کئی اور ممالک، مثلاً چین، سعودی عرب اور ترکی نے بھی اس سلسلے میں نہ صرف اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، بلکہ دونوں ممالک کو ذمے دارانہ طریقے اور سفارتی عمل کے ذریعے حالات درست کرنے کی تاکید کی ہے۔ ظاہر ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ دونوں ملک جوہری طاقت رکھتے ہیں۔

حالیہ تناؤ کی فضا اُس وقت بنی جب پلوامہ میں ہندوستان کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی ایک گاڑی پر حملہ کیا گیا جس میں چالیس سپاہی جوان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ ہمیشہ کی طرح اس واقعے پر بھی ہندوستان نے سخت طیش اور نہایت جارحانہ رویے کا اظہار واقعے کی تحقیقات کے بغیر کرتے ہوئے پاکستان پر تخریب کاری کا الزام لگایا اور پاکستان کو اس میں ملوث قرار دیا۔ یہ الزام ہندوستان کی اعلیٰ ترین سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے لگایا گیا، جس کے نتیجے میں یک لخت دونوں ملکوں میں حربی تصادم کا ماحول بن گیا۔

بعد ازاں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کی نہ صرف مذمت کی، بلکہ اسے دہشت گردی کا تسلسل بھی قرار دیا جس نے لگ بھگ دو دہائی سے زیادہ عرصے سے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور پاکستان، ہندوستان کے ساتھ ساتھ افغانستان اور ایران بھی جس کا ہدف بنتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کے جنگ کی دھمکی پر بھی ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ایسی صورتِ حال میں پاکستان اپنے دفاع کے بارے میں حکمتِ عملی کا سوچے گا نہیں، بلاتأمل اور بلاتاخیر ایسا ہر ممکن اقدام کرے گا۔

اس صورتِ حال پر عالمی ذرائع کی مسلسل توجہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، اور نہ ہی اس توجہ کا سبب یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان روایتی حریف ہیں اور اُن کے درمیان تناؤ کی فضا بنتی رہتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس خطے میں جنگ کے بادلوں کا امڈ آنا عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دیتا ہے۔ اس لیے کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، اور ان کے درمیان اگر خدانخواستہ واقعی جنگ چھڑتی ہے تو وہ اس علاقے کی آبادی ہی کے لیے ہول ناک تباہی کا ذریعہ نہیں ہوگی، بلکہ اس کی لپیٹ میں دنیا کا اور بھی خاصا بڑا علاقہ آئے گا اور اس کے اثرات تو بہت دور دور تک پہنچیں گے۔ اس لیے عالمی برادری یا امریکی صدر کی طرف سے آنے والے بیانات دراصل کروڑوں انسانوں اور ایک وسیع علاقے تک پھیل جانے والے حالات پر تشویش کا اظہار ہے۔

حیرت انگیز سائنسی ایجادات اور دنیا کے وسیع و عریض علاقے کے تجارتی منڈی بن جانے کے باوجود، اب یہ حقیقت عام آدمی کی نظروں سے بھی پوشیدہ نہیں کہ اس دور کا سب سے بڑا اور نہایت منافع بخش کاروبار دراصل اسلحے کا کاروبار ہے۔ تاہم اسلحے کی تجارت کرنے والے ممالک بھی اس سچائی سے واقف ہیں کہ اب دنیا کے کسی بھی خطے میں جنگ چھڑنے اور خاص طورپر جوہری اسلحے کی جنگ کا مطلب صرف اس خطے کی نہیں، بلکہ ایک بڑے علاقے تک پھیلی ہوئی جنگ ہوگا اور اس کا نقصان پہلی دوسری دونوں عالمی جنگوں کے مجموعی نقصان سے تو اس قدر زیادہ ہوگا کہ فی الحال اس کا تخمینہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔

اب جہاں تک بات ہے پلوامہ کے واقعے کی— اس کے بارے میں کوئی بھی ہوش مند اور انسانی احساس رکھنے والا شخص افسوس اور مذمت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ بے مقصد انسانی جانوں کا زیاں کسی کے لیے اور کسی بھی صورت میں قابلِ قبول یا قابلِ برداشت نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ انسانی زندگی خواہ وہ کتنی ہی عام اور ادنیٰ سطح پر ہو، اس کائنات کی بہرحال سب سے بیش قیمت شے ہے۔ اس کا کوئی مول ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ الگ بات کہ اس دنیا کے حالات اور حقائق روز طرح طرح سے اس سچائی کی نفی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ دنیا میں اب جتنی سہولت سے اسلحہ پھیل چکا ہے، اس طرح تو بچوں کے کھلونے بھی نہیں ملتے۔ پلوامہ میں ہونے والے واقعے کو پاکستان میں بھلا کیوں کر سراہا جاسکتا تھا، یا اسے کس طرح کامیابی کا نشان سمجھا جاسکتا تھا؟

ساری دنیا جانتی ہے، پاکستان گزشتہ دو عشروں سے دہشت گردی کے خلاف مسلسل اور سخت جنگ میں مصروف ہے۔ دہشت گردی نے دنیا کے ایک بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، لیکن پاکستان میں اس نے جو مشکلیں اختیار کیں اور پاکستان جس طرح کے حالات سے دوچار ہوا، کوئی دوسرا ملک نہیں ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی سیاسی مقتدرہ اور عوام دونوں نے پوری دنیا میں سب سے زیادہ قیمت چکائی ہے۔ یہ قیمت معیشت، سفارت، امنِ عامہ اور ترقیات جیسے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے سارے ہی شعبوں میں بہ یک وقت ادا کی گئی ہے۔ گذشتہ چند برس سے پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن آپریشن جاری ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر مختلف اور متعدد چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔

اس کے ساتھ پاکستان کے حالیہ تناظر کے حوالے سے یہ حقائق بھی نظر میں رکھنا ضروری ہیں کہ پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں ہے۔ اس لیے وہ داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر ایک دباؤ کا سامنا کررہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ ملک میں اس وقت ایک ایسی سیاسی قیادت نظامِ حکومت چلا رہی ہے، جس کے پاس حکومت، سفارت اور معیشت تینوں کے سنبھالنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اس پر متحدہ اپوزیشن بھی بار بار دباؤ ڈالنے کا موقع پیدا کررہی ہے۔ پاکستان میں برسرِاقتدار جماعت آئی ایم کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کے باوجود ابھی تک خاطر خواہ نتائج تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ دوسری طرف ملک میں کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف کیے گئے اقدام نے بھی حکومت کے لیے اقتدار کو آزمائشی مرحلہ بنایا ہوا ہے۔ ملک کی سیاست اور عسکری قیادت دونوں بہ یک وقت متعدد چیلنجز کا سامنا کررہی ہیں۔

ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی غورطلب بات ہے کہ جس وقت پلوامہ میں یہ واقعہ ہورہا ہے، عین اس موقعے پر پاکستان میں سعودی عرب کے ولی عہد دورے پر ہیں۔ ان کی آمد کا سب سے اہم مقصد پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات کے استحکام کا جائزہ لینے کے بعد معاشی معاہدے کرنا ہے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان کا ایسے کسی محاذ کا کھولنا تو دور کی بات ہے، سوچنا بھی محال ہے۔ اس لیے کہ ایسی کسی کارروائی سے پاکستان کوئی ہدف حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کام یابی کے لیے راہ ہموار کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس کے برعکس ایسا کوئی بھی ایڈونچر اس کے لیے مشکلات کا در کھول سکتا ہے۔ امنِ عامہ کے حالات اور معیشت کے لیے کیے جانے والے اقدامات بے کار ہوسکتے ہیں۔ اپنے خطے میں ہی نہیں، عالمی سطح پر اس کے لیے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں کہ جب سعودی ولی عہد کے منصوبوں کے معاہدے کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں، امریکا اور پاکستان کے مابین بہت اطمینان بخش صورتِ حال نہیں ہے، پاکستان تخریب کاروں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کا تصور بھی کیسے کرسکتا ہے، جب کہ وہ خود ان کے خلاف مسلسل حالتِ جنگ میں ہے۔ ان سارے داخلی اور خارجی حالات اور واقعات کو سامنے رکھنے کے بعد کیا کوئی ذی شعور شخص پلوامہ کے افسوس ناک واقعے میں پاکستان کے کردار کا گمان بھی کرسکتا ہے؟ عقلِ سلیم اس سوال کا جواب کسی تأمل کے بغیر نفی میں دیتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ پھر کس بنیاد پر وزیرِاعظم ہندوستان نریندر مودی نے اس واقعے کے بعد فی الفور یہ الزام پاکستان پر دھر دیا؟ اس کام میں آخر انھیں ایسی کیا جلدی تھی کہ انھوں نے واقعے کی تحقیقات تک کا انتظار بھی ضروری نہ سمجھا اور یہ تک بھول گئے کہ جس منصب پر وہ براجمان ہیں، وہ ان سے ذمے دارانہ رویے اور بردبار لہجے کا تقاضا کرتا ہے۔ انھیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ ان کا غیرعقلی ردِعمل خطے کے کروڑوں انسانوں کو آگ میں جھونک سکتا ہے۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ انھوں نے فی الفور پاکستان کو جنگ کی دھمکی کے انداز میں جو بیان دیا اس کو ریاست کے صرف انتہا پسند ٹی وی چینلز نے اچھالا اور ملک میں اشتعال کو پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن دوسری طرف آزاد خیال اور معتدل طبقہ مودی کی اس بات پر ردِعمل کا اظہار کرتا رہا اور ساتھ ہی دوسری سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن نے ان کی رائے کو مسترد بھی کیا، بلکہ ان کے بیان کو خود اپنے ملک کے لیے منفی قرار دیا گیا کہ اس طرح ریاست میں انتہاپسند طبقہ قابو سے باہر ہوگا اور ملک میں انتشار اور فساد پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

وزیراعظم مودی کے اس بیان پر را کے سابق چیف، پرانے سیاست دانوں اور اشرافیہ کے متعدد نمائندہ افراد نے رد کیا۔ دلائل سب کے الگ الگ، لیکن بنیادی مؤقف ایک تھا کہ اس نوع کے بیانات ان کے اپنے عوام اور ملک کے مفاد میں نہیں ہیں اور خطے میں بھی انارکی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ہندوستان کے متعدد علاقوں اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں جس طرح ہندو انتہا پسندی کے واقعات ہوئے ہیں، ان سے ایسے سارے خدشات کو تقویت ملتی ہے، جن کا اظہار خود ہندوستان کے بعض سیاسی رہنماؤں نے بالخصوص کیا ہے۔ جموں و کشمیر کی سابقہ وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی نے جو اسی بی جے پی حکومت کے تعاون سے وزارتِ اعلیٰ کے منصب تک پہنچی تھیں، انھوں نے بھی اپنی حکومت کے رویے اور اقدامات کو کھلے لفظوں میں ہدفِ تنقید بنایا ہے۔

نریندر مودی اور ان کی حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات کا جائزہ اقتدار کے اس پورے دورانیے میں بآسانی لیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ جب وہ گجرات کے وزیرِاعلیٰ تھے، اس وقت ہونے والے فسادات اور مسلمان اقلیت کے منظم قتلِ عام کے واقعات بھی سب کو یاد ہیں۔ مودی اور ان کی سیاسی جماعت دونوں آج بھی بلاشبہ اپنے انتہا پسند رویے سے پہچانے جاتے ہیں۔ خود ان کے ملک کا معتدل ہندو طبقہ بھی ان کے بارے میں اسی رائے کا اظہار برملا کرتا ہے۔ اپنے سیاسی کیریئر میں اور خاص طور پر پچھلے پندرہ سترہ برسوں میں انھوں نے ملک میں انتہا پسند جذبات کو جس طرح سیاسی مہم جوئی کے لیے استعمال کیا ہے، وہ سب کچھ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ خود کو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کے پردھان منتری کی حیثیت سے پیش کرنے والے نریندر مودی ملک اور بیرونِ ملک اپنے نعروں کے برعکس ایک انتہا پسند ہندو راہنما کی پہچان رکھتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اگر یہ کہا جارہا ہے کہ پلوامہ کا واقعہ خود بھارتی اداروں کی اپنی کارروائی ہے جسے بھارتیہ جنتا پارٹی مستقبل قریب میں ہونے والے انتخابات میں اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہے تو کیا اس رائے کو قطعی طور پر رد کیا جاسکتا ہے؟ ہندوستان کی بیشتر اقلیتیں، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اور پاکستان کے عوام اس سوال کا جواب یکساں طور پر نفی میں دیتے ہیں۔

1984ء میں سکھوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کے بعد سے ہندوستان کی حکومت سنبھالنے والی ساری سیاسی جماعتوں نے اپنے ملک میں اقتدار کے سیکولر اور جمہوری امیج کو سب سے زیادہ بڑھوا دینے پر ہمیشہ بہت توجہ دی ہے۔ موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابی مہم کے لیے تو بے شک ’’اب راج کرے گا ہندو‘‘ کا نعرہ استعمال کرکے ہندو اکثریت کے جذبات کو متحرک کرکے اپنے ووٹ بینک کو وسعت دی اور اقتدار حاصل کیا تھا، لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد اس جماعت نے بھی حکومت کے سیکولر نظریات اور جمہوری رویوں کا خوب پرچار کیا۔ تاہم اقتدار کی طاقت کو مودی سرکار نے ہر ممکن ذریعے سے اپنی انتہاپسند پالیسیز کے لیے استعمال کیا ہے۔ اب جب کہ وہ حکومتی دورانیہ پورا کررہی ہے اور اسے آنے والے دنوں میں انتخابات کا سامنا ہے تو ملک کے باشعور اور سیکولر مزاج لوگ اس بات کا کھلے بندوں اظہار کررہے ہیں کہ اگلے چناؤ کے لیے عوامی جذبات پر اثرانداز ہونے کے لیے اس کے پاس کوئی سامان نہیں ہے۔ پلوامہ کے واقعے کے بعد ایسے سب افراد اور طبقات نے اسے خود حکومتی کارروائی قرار دیا اور صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ یہ مودی سرکار کے گھناؤنے ہتھکنڈے ہیں۔

پلوامہ کے واقعے کے بعد جیشِ محمد نے اس کی ذمے داری قبول کی تھی، جس کے لوگ پاکستان میں بتائے جاتے ہیں، لیکن کیا وہ صرف پاکستان میں ہیں؟ نہیں، وہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر، افغانستان اور ایران میں بھی اپنی کارروائیوں سے اپنے وجود کا سراغ دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے کسی بھی علاقے میں کسی واقعے کے بعد اس کا کریڈٹ لینے سے یہ کیسے ثابت ہوسکتا ہے کہ اس کے پس منظر میں اس ملک کی حکومت کوئی کردار ادا کررہی ہے۔ علاوہ ازیں پلوامہ واقعے کی ابتدائی رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ جس خودکش بم بار نے اس گاڑی پر حملہ کیا، اس کا نام عادل احمد ڈار تھا اور وہ کشمیر کا باشندہ تھا۔ اس کے بارے میں کی گئی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ مارچ 2018ء سے وہ اپنے اہلِ خانہ سے لاتعلق تھا اور کسی سے اس کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ان ابتدائی معلومات کی روشنی میں بھی یہ بات واضح ہے کہ نریندر مودی نے جو الزام پاکستان پر لگایا ہے، وہ قطعاً درست نہیں ہے، اور اس کا اصل مقصد مقتدر اقوام کی توجہ حاصل کرنا اور آئندہ انتخابات کے لیے نعروں کی گرماگرم فضا تیار کرنا ہے۔

اب سوال یہ ہے، کیا ہندوستان اس وقت پاکستان پر حملہ کرے گا؟ یہ ٹھیک ہے کہ مودی اور اُن کی پارٹی انتہاپسند ہی نہیں، اقتدار پرست بھی ہیں۔ ایسے لوگ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں، لیکن حالات مودی سرکار کو پاکستان سے جنگ کی اجازت بالکل نہیں دیتے۔ انھوں نے اچھی طرح واویلا کرکے دیکھ لیا ہے، لیکن عالمی برادری سے انھیں وہ جواب نہیں ملا جو پاکستان پر چڑھائی کی جرأت اُن میں پیدا کرسکے۔ اس وقت چین، روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے ممالک نے جس طرح پاکستان سے سفارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں، اور خود امریکا اور پاکستان کے مراسم میں بھی جو بہتری کا رخ سامنے آرہا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان پاکستان جنگ کا اس وقت امکان نہیں ہے، اور بالفرضِ محال مودی سرکار ایسی کسی جہالت کا مظاہرہ کرنے پر تل گئی تو یہ پاکستان سے کہیں زیادہ ہندوستان کے خلاف اقدام ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔