کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں لیا، ’’بہاؤ‘‘ جیسا ناول اب خود بھی نہیں لکھ سکتا

اقبال خورشید  اتوار 3 مارچ 2019
ممتاز ادیب، مستنصر حسین تارڑ سے ہونے والی ملاقات کی رُوداد۔ فوٹو: ایکسپریس

ممتاز ادیب، مستنصر حسین تارڑ سے ہونے والی ملاقات کی رُوداد۔ فوٹو: ایکسپریس

دریا کبھی یکساں نہیں رہتا۔۔۔وہ بدلتا رہتا ہے۔ کبھی خاموش، کبھی غصیل، کبھی مٹیالا، کبھی شفاف۔

مسلسل بہتے ہوئے وہ موسمی اثرات قبول کرتا ہے، جغرافیائی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ بدلتا جاتا ہے۔ اور یوں ہر بار دریا اپنے ملاقاتی کو ایک نئی کہانی سناتا ہے۔ ایک ان کہی کہانی۔

ہزاروں قارئین کی زندگی پر دیر پا اثرات مرتب کرنے والے عہدساز ادیب، مستنصر حسین تارڑ بھی ایک ایسے ہی دریا کے مانند ہیں، جن سے ہر ملاقات میں، ہر مکالمے میں ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے۔

گذشتہ دنوں ’ادب فیسٹول پاکستان‘ میں شرکت کے لیے وہ کراچی آئے، تو اُن کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی، جس میں اردو کی تاریخ کے اِس مقبول ترین لکھاری نے اردو زبان، اپنے ہم عصروں، اردو ادب کے مستقبل پر، اپنے مخصوص بے ساختہ انداز میں تفصیلی اظہار خیال ہے۔

اس روز موسم خوش گوار تھا۔ آسمان پر بادل تھے۔ ہم کراچی جم خانے پہنچے، تو وہ منتظر تھے۔ نشست سنبھالنے کے بعد پوچھا کیے، آپ نے اپنے کیریئر میں ناول لکھے، سفر نامے ، ڈرامے لکھے، ڈراموں میں کام کیا، وہ کون سا کام تھا، جس میں خود کو تخلیقی طور پر زیادہ مطمئن اور مسرور محسوس کیا؟ تو کہنے لگے کہ میں جو بھی کام کرتا ہوں، پوری سنجیدگی سے کرتا ہوں، اور اُس میں مکمل طور پر شامل ہوجاتا ہوں۔

’’ چاہے کمپیئرنگ ہو، ایکٹنگ ہو، سفرنامہ ہو، ناول ہو، I am totally committed to it۔ اور اُس وقت وہ میرے لیے سب سے اہم ہوتا ہے، میں تخصیص نہیں کرتا کہ یہ میرے لیے زیادہ اہم ہے، وہ کم اہم۔ البتہ جب آپ ایک ناول لکھتے ہیں، تو اس کی باگیں آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں، سفرنامہ لکھتے ہوئے آپ کو کراچی سے لاہور جانا ہے، تو راستہ میں گلگت نہیں آئے گا، وہ راستہ طے شدہ ہے۔ البتہ ناول طے شدہ نہیں ہوتا۔ کم از کم میرے ناول طے شدہ نہیں ہوتے۔ ناول میں چیزوں کو manipulate کرنے کا اختیار ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ تخلیق کار خود کو چھوٹا سا خدا سمجھتے ہیں، کیوں کہ تخلیق کر رہے ہوتے ہیں۔ جس طرح کئی لوگ خدا سے باغی ہوجاتے ہیں، اِسی طرح کچھ کردار ناول نگار سے باغی ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنا راستہ خود بناتے ہیں، اور وہاں سے ناول بڑا بنتا ہے، کیوں کہ اگر تمام کردار آپ کی مرضی کے مطابق چل رہے ہیں، تو آپ کی زبان بول رہے ہیں، آپ کی فکر کی تقلید کر رہے ہیں، لیکن اگر باغی ہوجاتے ہیں، تو اُن کی اپنی فکر سامنے آتی ہے۔ تو ناول لکھتے ہوئے تخلیقی عمل کی جو طمانیت ہوتی ہے، وہ الگ ہے۔ تاج محل جنھوں نے بنایا ہوگا، انھوں نے کہا ہوگا کہ خدا، تو نے ہمیں بنایا، اور دیکھ ہم نے تاج محل بنایا۔ تو ناول میں یہ معاملہ ہے۔‘‘

زندگی کے ایک خاص موڑ پر تارڑ صاحب نے شوبز کی دنیا ترک کی، اور خود کو کلی طور پر لکھنے کے لیے وقف کردیا۔ اِسی تناظر میں ہم نے پوچھا، شہرت تو بڑی سحرانگیز ہوتی ہے، کیا یہ مشکل فیصلہ نہیں تھا؟ کہنے لگے،’’کسی زمانے میں لگاتار دو برس میں گیلپ کے سروے میں پاکستان کا مقبول ترین شخص ٹھہرا۔ اب یہ شہرت کی انتہا ہوسکتی ہے۔ تب میں کسی محفل میں گیا، وہاں اور بھی لکھنے والے تھے، مگر بہت سے لوگ میری طرف آئے۔ جب میں فری ہوا، تو دیکھا، ممتاز مفتی مجھے گھور رہے ہیں۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ تم میں بڑا رائٹر بننے کی تمام تر صلاحیتیں ہیں، مگر تم نہیں بن سکو گے۔ یہ شہرت تمھیں کھا جائے گی۔ میں نے انھیں کہا کہ مفتی صاحب، میں حلفیہ کہتا ہوں، میں نے کبھی اِسے سنجیدگی سے نہیں لیا، یہ ایک عارضی معاملہ ہے۔ میڈیا میری مجبوری ہے، کیوں کہ مجھے گھر کا خرچ چلانا ہے۔ کہنے لگے، نہیں اگر میڈیا نہیں چھوڑو گے، تو میں تم سے بات نہیں کروں گا۔ خیر، چند برس بعد انھوں نے مجھے خط لکھا، جس کے مندرجات میں پورے بیان نہیں کرسکتا، مگر انھوں نے مجھ سے معذرت کی، اور لکھا کہ تم نے مجھے غلط ثابت کیا، شہرت تم پر اثرانداز نہیں ہوسکی۔ آگے انھوں نے ایک حوالہ دیا کہ فلاں پر شہرت نے اثر کیا، اور اس میں جو ٹیلنٹ تھا، وہ اس کا اظہار نہیں کرسکا۔‘‘

گو تارڑ صاحب نے تذکرہ تو نہیں کیا، مگر ہمارے ذہن میں پہلا خیال اشفاق احمد کا آیا، اسی تناظر میں پوچھا، کیا اشفاق احمد نے ناولز نہ لکھ کر اپنے فن کے ساتھ ناانصافی کی؟

ان کا کہنا تھا کہ اشفاق صاحب اپنے عہد کے نمایندہ شخصیت تھے۔ بنیادی طور پر وہ داستان گو تھے۔ اُن جیسی گفتگو بہت کم لوگ کرسکتے ہیں۔ ’’میں نے ان کے کئی ڈراموں میں کام کیا، روحی بانو کے ساتھ میں نے جو ڈرامے کیے، زیادہ تر اُن ہی کے لکھے ہوئے تھے۔ میں انھیں ٹیلی ویژن کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈراما نگار مانتا ہوں، انھوں نے جن موضوعات کو اٹھایا، لوگ آج بھی اٹھانے سے گھبراتے ہیں، یہ تو ہوئی ڈرامے کی بات۔ اگر لٹریچر کی بات کی جائے، تو وہاں لوگ ٹھوس ثبوت مانگتے ہیں، اور ثبوت انھوں نے کم چھوڑے۔ ریڈیو میں بہت دل چسپی تھی، تلقین شاہ ایک کلاسیک تھا، پھر ’زاویہ‘ تھا، مگر میری یہ خواہش تھی کہ وہ ناولز لکھتے کہ ان میں تمام تر صلاحیت موجود تھی، جب کہ بانو آپا نے ’راجہ گدھ‘ لکھ دیا۔ البتہ یہ ان کی صوابدید اور اختیار تھا۔ اگر انھوں نے مناسب سمجھا کہ ریڈیو اور ٹی وی کو زیادہ وقت دیں، اپنی بابا شخصیت کو زیادہ پراجیکٹ کریں، تو یہ ان کا اپنا انتخاب تھا۔‘‘

کیا ناول نگاری اور سفرنامہ نویسی کا فن یک سر الگ ہے؟ تارڑ صاحب اِس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ اُن کے بہ قول،’’بالکل، سفرنامہ طے شدہ ہے۔ آپ تھوڑا اِدھر ادھر نکل جائیں گے، بس۔ جیسے ’سنو لیک‘ میں مَیں قرۃ العین طاہرہ کو یاد کرتا ہوں، وہ الگ معاملہ ہے، مگر ناول طے شدہ نہیں ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں، ہر گام پر ہمیں ایک کہانی نظر آتی ہے، مجھے نہیں آتی۔ کچھ ادیب کہتے ہیں کہ پورا تصور ذہن میں آگیا، میرے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا، کوئی سچویشن ہوتی ہے، فقرہ آتا ہے، احساس ہوتا ہے، جو مجھے تحریک دیتا ہے۔‘‘

تارڑ صاحب نے کہیں لکھا تھا کہ عبداللہ حسین واحد ادیب ہیں، جن سے اُن کی دوستی تھی۔ اُن کی بابت پوچھا، تو فرمایا،’’ہم دونوں ایک دوسرے کے رازداں تھے۔ وہ ایک ایب نارمل انسان تھے، اور میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کوئی نارمل ادیب بڑا ادیب نہیں بن سکتا، کیوں کہ قاری آپ سے ایب نارمل اور معمول سے ہٹ کر لٹریچر اور کرداروں کی توقع کرتا ہے، اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب آپ ایک بے راہ رو قسم کی زندگی گزاریں۔ اور وہ تمام تجربات آپ کے پاس ہوں۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں، ناول کے لیے ایک ولی اللہ سے لے کر ایک طوائف تک، تمام طبقات کے تجربات آپ کے پاس ہونے چاہییں، تب ہی آپ ناول لکھ سکتے ہیں۔ عبداللہ حسین کے پاس وہ تمام تجربات تھے۔ کم لکھا، کیوں کہ عرصہ دراز وہ باہر رہے، مگر جتنا بھی لکھا، وہ بالکل مختلف لکھا۔‘‘

وہ کراچی میں ایک فیسٹول میں شرکت کے لیے آئے تھے، اِسی تناظر میں پوچھا، آج میگاایونٹس ہورہے ہیں، ادبی کانفرنسیں، میلے ، فیسٹولز، کیا یہ سرگرمیاں فروغ ادب میں معاون ہیں، یا پھر وہ ادبی نشستیں ، جو ماضی میں ہوا کرتی تھیں، زیادہ اثر انگیز تھیں؟ بلاتامل کہا،’’وہ نشستیں زیادہ اثرانگیز تھیں۔ یہ کمرشل سرگرمی ہے، اسپانسر آتے ہیں۔ ہم جیسوں کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دیگر ادیبوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ لوگ مل بیٹھتے ہیں۔ میرے نزدیک پیمانہ یہ ہے کہ فیسٹول میں ادیبوں کی کتابیں کتنی فروخت ہوئیں؟ اگر نہیں ہوئیں، تو وہ فیسٹول بے معنی ہے۔ میرے نزدیک اہم یہ ہے کہ لوگ کتابیں خریدیں۔ پھر  یہ کہ نئے ٹیلنٹ کی آب یاری ہو۔ وہ نہیں ہورہی۔ یہاں اسٹارز زیادہ بلائے جاتے ہیں، بدقسمتی سے میں بھی ان اسٹارز میں شامل ہوں۔ میں دو تین درجن ایسے اہم ادیبوں کا حوالہ دے سکتا ہوں، جنھیں میں نے کبھی کسی فیسٹول میں نہیں دیکھا۔ یہ بہت ناانصافی ہے۔‘‘

ہم نے کہا، آپ نے اکثر اپنے کالموں میں الطاف فاطمہ کا ذکر کیا، وہ بھی نوّے برس کی عمر میں گذشتہ سال ہم سے جدا ہوگئیں۔ کہنے لگے، الطاف فاطمہ صوفی اور درویش قسم کی خاتون تھیں۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ کئی بار اکیڈمی آف لیٹرز نے انھیں اپروچ کیا کہ ہم پرائیڈ آف پرفارمینس کے لیے آپ کا نام دے دیتے ہیں، مگر انھوں نے منع کر دیا۔ حالاں کہ انھیں مالی مسائل درپیش تھے، مگر انھوں نے مالی معاونت گوارا نہیں کی۔ یہ کہہ دیا کہ آپ مجھے ترجمے کا کام دے دیں۔ الگ تھلگ رہتی تھیں۔ میرا اُن سے خاص تعلق تھا، کوئی پچاس برس پہلے سے۔ ان کی پرانی کوٹھی تھی، میں وہاں جایا کرتا، ان سے باتیں کیا کرتا۔ میرے لیے ایک fascination  یہ بھی تھی کہ ان کے ماموں سید رفیق حسین تھے، اور میرے نزدیک دنیا بھر میں کسی نے جانوروں کے بارے میں اتنا اچھا ادب نہیں لکھا، جتنا سید رفیق حسین نے لکھا ہے۔ وہ دراصل انسان نہیں تھے، ایک بارہ سنگھا تھے، ایک شیر تھے۔ وہ ان جانوروں کے قالب میں ڈھل جاتے تھے۔ تو الطاف فاطمہ کی زبان میں بناوٹ نہیں تھی، وہ ایسی رواں اور سریلی تھی کہ دل میں اترتی چلی جاتی۔ ان کے کسی افسانے میں ایک جملہ پڑھا، تو میں نے سوچا کہ یہ صورت حال، جو الطاف نے ایک جملے میں لکھی، اگر مجھے لکھنی ہوتی، تو شاید پورا صفحہ لکھتا۔ میرے سفرناموں کو وہ بہت سراہتی تھیں، خاص کر ’اندلس میں اجنبی‘ کے کوٹس مجھے بھیجا کرتی تھیں۔ ان کے جانے کا بہت دکھ ہوا۔ اِس وجہ سے بھی وہ ادیبوں کی جو Rat race ہے، کبھی اس کا حصہ نہیں بنیں، مین اسٹریم میں آئی ہی نہیں۔ اور انھیں اُس کا کوئی غم بھی نہیں تھا۔‘‘

کیا لکھنے والا تخلیقی عمل کے دوران اُس شہرت اور محبت کا دباؤ محسوس کرتا ہے، جو اُس کے حصے میں آئی، کیا تارڑ صاحب کبھی ایسے کسی تجربے سے گزرے؟ اس کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ اُن کے بہ قول، لکھتے وقت میں ان چیزوں سے ماورا ہوتا ہوں۔ مجھے یہ فکر نہیں ہوتی کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں، اسے بقائے دوام حاصل ہوگی، پسندیدگی حاصل ہوگی، یا یہ بڑا ادب بنے گا۔ اس وقت میں اُس میں اتنا شامل ہوتا ہوں کہ میں فقط اپنے لیے لکھ رہا ہوتا ہوں۔ تو کوئی پریشر نہیں ہوتا۔ ہاں، ایک بات کا دھیان رکھتا ہوں، میں قاری کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ یہ میرے ذہن میں ہوتا ہے کہ مجھے بات کو سہل کرنا ہے۔ بہت سے دوست کہتے ہیں کہ قاری خود کو ایجوکیٹ کرے، ہماری سطح پر آئے، مگر میں ایسا نہیں کرتا، میں خود کو تھوڑا نیچا کرکے قاری کی سطح پر چلا جاتا ہوں۔‘‘

اگر وہ ابلاغ کو اہمیت دینے والے ادیبوں کے قبیلے سے ہیں، تو اُس پُرپیچ ادب کو کیسے دیکھتے ہیں، جو انور سجاد کے قبیلے کے ادیبوں نے لکھا؟ کہنے لگے،’’انور سجاد ماڈرن اسٹوری کے بانیوں میں سے ہیں۔ انور کی نثر میں ایک خاص ردھم ہے، اس میں ایک پیٹرن ہے۔ انور نے، بلراج من را نے جو کچھ لکھا، اس کا اثر ہے، اس سے بچا نہیں جاسکتا۔ اُسے ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔ وہ اہم تھا۔ تجربات ہوتے رہتے ہیں، نئے لکھنے والے ان سے سیکھتے ہیں، اور اپنی راہ خود نکالتے ہیں۔‘‘

عام رائے ہے کہ اردو ادب یوں عالمی دنیا تک نہیں پہنچا کہ یہ کم زور ہے، مگر اِسی خطے کی کہانیاں بیان کرنے والے یہاں کے انگریزی ادیب بین الاقوامی اعزازات حاصل کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بہ طور سوال ان کے سامنے رکھا، تو کہنے لگے،’’ترجمے کا شعبہ اردو میں بہت کم زور ہے، بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ترکی، عربی زبانوں میں دنیا بھر کا عالمی ادب موجود ہے۔ چینی حکومت کی دعوت پر میں سنکیانگ گیا۔ وہاں ایغور زبان بولی جاتی ہے، جس کا ہم نے نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ آپ تو یہی کہتے ہیں کہ اردو کی بڑی دھوم ہے، ٹھیک ہے، دھوم ہوگی، ایغور کی تو دھوم نہیں، مگر اس میں بھی تمام روسی ادب، کلاسیکی ادب موجود ہے۔ اور ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ شاید یہ سبب ہو کہ انگریزی ہماری سیکنڈ لینگویج ہے، جسے خواہش ہوتی ہے، وہ انگریزی میں پڑھ لیتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اردو ادب کم زور ہے، اس کا ترجمہ ہوا ہی نہیں، وہ پہنچا ہی نہیں۔ میں نے جو ایرانی، ترکی اور دیگر زبانوں کے ناولز پڑھے ہیں، ہمارے ناول ان سے کم تر نہیں، مگر ان کا ترجمہ نہیں ہوا۔ اب آتے ہیں کہ انگریزی میں لکھنے والوں پر۔ یہ اچھی بات ہے کہ لوگ انگریزی میں لکھ رہے ہیں، میری انگریزی اچھی ہوتی، تو شاید میں بھی لکھتا، مگر جب بین الاقوامی سطح پر کوئی فہرست ترتیب پاتی ہے، تو اِس خطے کے انگریزی میں لکھنے والے اُس میں جگہ نہیں بنا پاتے۔ ہاں، یہاں ان کی اہمیت ہے۔ اور بہت سے اچھے لکھنے والے ہیں۔ محمدحنیف، ندیم اسلم ہیں، ایم ایچ نقوی اور کاملہ شمسی ہیں، مگر ان میں سے بیش تر وہی موضوع اور کردار دہرا رہے ہیں، جو ہم کب کے لکھ چکے۔ دراصل تراجم کے لیے پورے ادارے چاہییں۔ اب جنوبی کوریا کو نوبیل انعام نہیں ملا، تو اُنھوں نے مہم شروع کر رکھی ہے۔ یہاں ایسا معاملہ نہیں ہے، حکومتوں کی سطح پر ادب کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔‘‘

راقم الحروف نے جو ناولز پڑھے، اُن میں جنھوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا، مستنصر حسین تارڑ کا ’بہاؤ‘ ان میں سے ایک ہے۔ تین عشروں قبل شایع ہونے والے اس ناول کا شمار اب کلاسیک میں ہوتا ہے، ادبی جریدے ’ذہن جدید‘ کے سروے میں اس کا ذکر اردو کے دس بہترین ناولز میں کیا گیا، بی بی سی نے اس کا موازنہ مارکیز کے ’تنہائی کے سو سال‘ سے کیا۔ تو ہم نے پوچھا، آج جب پلٹ کر دیکھتے ہیں، تو اپنی تخلیقات میں اِسے کہاں کھڑا پاتے ہیں؟ کہنے لگے کہ ’بہاؤ‘ جیسا ناول اب وہ خو د بھی نہیں لکھ سکتے۔ ’’پانچ ہزار سال پہلے جانا، ایک خاص کیفیت میں کلام کرنا، وہ میں دوبارہ نہیں کرسکتا۔‘‘

اُنھیں اپنے ناولز کا اردو کے کلاسیک ناولز سے موازنہ پسند نہیں۔ بہ قول اُن کے،’’جب بھی میرا کوئی ناول چھپتا ہے، اور اگر اچھا ہوتا ہے، تو کراچی میں اس کا موازنہ کیا جاتا ہے کہ ’آگ کا دریا‘ سے اچھا ہے یا نہیں۔ ہندوستانی ادیب ، مشرف عالم ذوقی نے میرے ناول ’خس و خاشاک زمانے‘ کو ’آگ کا دریا‘ سے آگے کی چیز قرار دیا تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہر ادیب اپنی جگہ اہم ہوتا ہے، موازنہ ممکن نہیں۔ ہم اورحان پامک کا موازنہ یاشر کمال سے نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارے ہاں موازنہ ہوتا ہے۔ قرۃ العین لاہور آئیں، تو چند نقاد بیٹھے۔ انھوں نے ابتدائی تمام سوالات ’آگ کا دریا‘ کے بارے میں کیے، وہ واک آؤٹ کر گئیں کہ میں نے اُس کے بعد بھی چار پانچ ناولز لکھے ہیں، آپ نے وہ نہیں پڑھے؟ جب مجھ سے باربار پوچھا گیا کہ کیا آپ ’آگ کا دریا‘ جیسا ناول لکھ سکتے ہیں، تو میں نے تنگ آکر کہا کہ نہیں، وہ تو عینی آپا کا ہے، مگر قرۃ العین حیدر بھی ’بہاؤ‘ نہیں لکھ سکتیں۔‘‘

ہم نے کہا، لگتا ہے، ناول کی بحث ’آگ کا دریا‘، ’اداس نسلیں‘ اور ’خدا کی بستی‘ پر آن کر ختم ہوجاتی ہے، تو انھوں نے ہم سے اتفاق کیا۔ کہنے لگے،’’دراصل آپ کو علم نہیں ہے۔ پتا ہی نہیں کہ کیا کیا لکھا جارہا ہے۔ آپ اسی پر تکیہ کرتے ہیں، جو آپ نے لکھا، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘

تارڑ صاحب کی شہرت کے کئی اسباب، مگر جس ہنر نے ہمیں گرویدہ بنایا، وہ ناول نگاری ہے۔ اُن کا آخری ناول ’اے غزال شب‘ تھا، جس کے بعد خاموشی چھا گئی، چند برس پہلے کراچی میں ملے، تو انھوں نے یہی کہا تھا کہ فی الحال کوئی ناول ذہن میں نہیں، مگر رواں برس کے آخر میں ’منطق الطیر، جدید‘ آیا، جو فرید الدین عطار کے کلاسیک کا ماڈرن روپ ہے۔ اِس بار ملے، تو ہم نے پوچھا، یہ وقفے کیسے ختم ہوا؟

ان کا کہنا تھا،’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ناول لکھتے ہوئے ہی آپ کے ذہن میں کوئی نیا خیال، کوئی ایسی چیز آجاتی ہے، جس پر آپ مستقبل میں قلم اٹھائیں۔ ’اے غزال شب‘ کے بعد میرے پاس ایسا کوئی خیال نہیں تھا، نہ ہی میں لکھنا چاہتا تھا۔ مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ عطار میرے مرشد ہیں، میں پچاس سال سے اُن کے پرندوں کے عشق میں مبتلا ہوں، تو ان کا ایک تازہ ترجمہ انگریزی میں ہوا، اور انگریزی میں ترجمے ہوتے رہے ہیں۔ جیسے رومی کا پہلے بھی ترجمہ ہوا تھا، مگر بعد میں جو ترجمہ ہوا، اس کی وجہ سے اُنھیں دنیا کا سب سے بڑا صوفی قرار دیا گیا۔ تو ’منطق الطیر‘ کے پہلے بھی تراجم ہوئے، مگر جو تازہ ہوا، وہ میں نے پڑھا، تو میرے ذہن میں آیا کہ جیسے پرانی داستانوں کو بار بار لکھا جاتا ہے، ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں کو بار بار لکھا گیا، تو یہ بھی ایک کلاسیک ہے، اس کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ گو فریدالدین عطار کے نقش قدم پر چلنا، اپنے پیروں کو جلانے کے مترادف ہے، مگر ’بہاؤ‘ کے بعد جس ناول کو لکھتے ہوئے میں نے چیلینج محسوس کیا، وہ جس طرح کہتے ہیں، کچھ چیزیں اترتی بھی ہیں، وہ ’منطق الطیر جدید‘ ہی ہے۔‘‘

ہم نے کہا،’آگ کا دریا‘، ’اداس نسلیں‘،’کئی چاند تھے سر آسماں‘، ان کے مصنفین نے خود ہی اپنے ناولز کا ترجمہ کیا، کبھی ایسا خیال آپ کے ذہن میں آیا؟ تو کہا،’’مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں ’راکھ‘ کا ترجمہ کروں، تو دو سال لگ جائیں گے، تو دو سال میں ترجمہ کیوں کروں؟ نیا ناول کیوں نہ لکھوں؟ اگر ’راکھ‘ اور ’بہاؤ‘ میں قوت ہے، تو لوگ بعد میں خود ہی اُن کا ترجمہ کر لیں گے۔ میرے پاس جو محدود ٹائم ہے، میں چاہوں گا کہ جو بھی مجھ پر اتر رہا ہے، اُسے قلم بند کروں، دوسری بات یہ ہے کہ جب آدمی خود ترجمہ کرتے ہیں، تب یا تو اُسے ایڈٹ کرتا جاتا ہے، یا پھر اُسے تبدیل کرتا جاتا ہے، جس سے اُس کی ہیئت تبدیل ہو جاتی ہے۔ عبداللہ حسین نے ترجمہ کیا، قرۃ العین نے کیا۔ آج آپ اُنھیں پڑھ ہی نہیں سکتے، ان میں Readability ہے ہی نہیں۔ اس کے برعکس میرے ناول ’اے غزال شب‘ کا ’لینن فار سیل‘ کے نام سے ترجمہ ہوا، اس کی سیل بھی ہوئی، اور اس میں Readability بھی ہے، کیوں کہ کسی اور شخص نے کیا ہے۔ ’بہاؤ‘ کا بھی ہوچکا ہے، پروفیسر سفیر اعوان نے کیا ہے، ’راکھ‘ کا بھی ہوچکا ہے، یہ ابھی شایع ہوں گے۔ البتہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر انگریزی میں ترجمہ ہو، تو وہ بین الاقوامی قاری تک بھی پہنچے۔ ورنہ یہ لاحاصل مشق ہے۔ گھر کی بات گھر ہی میں رہ جاتی ہے۔ اس میں حکومت کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘

ہم نے ذہن میں کلبلاتا ایک سوال داغا؛ کیا اردو زبان میں بڑا ناول لکھنے کی سکت نہیں؟ کہنے لگے، ’’اردو ایک نومولود زبان ہے، اس کی اپنی محدودات ہیں۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اِس کی عمر کیا ہے۔ فارسی، عربی اور انگریزی کی عمر طویل ہے۔ ’مراۃالعروس‘ اور ’امراؤ جان ادا‘، جو اردو کے ابتدائی ناولز ہیں، وہ ناول کی تعریف پر پورے اترتے ہی نہیں، اس زمانے میں دنیا میں کیا کچھ لکھا جارہا تھا۔ تو اردو کی اتنی عمر نہیں ہے۔‘‘

لاہور کا عشق ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ اس تعلق پر کہتے ہیں،’’کیوں کہ میں پلا بڑھا لاہور میں ہوں، گو میرے خاندان کا پس منظر دیہات کا ہے۔ کچھ روز قبل میں لاہور کے سب سے قدیم گورا قبرستان میں گیا۔ اس میں امریکا سے آئے ریوینٹ فورمین کی قبر تھی، جسے دیکھ کر میں سناٹے میں آگیا، کیوں کہ نام کے نیچے لکھا تھا:’فاؤنڈر آف رنگ محل مشن ہائی اسکول اینڈ فارمن کرسچن کالج لاہور‘۔ اب میں رنگ محل اسکول کا پڑھا ہوا ہوں، میرے بچے فارمن کرسچن کالج کے پڑھے ہوئے ہیں۔ اب یہ ربط کسی اور شہر کے ساتھ نہیں بن سکتا۔ مختصراً یہ کہ میرے پاس دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں مستقل قیام کے بہت اچھے مواقع تھے، مگر میں نے لاہور کے لیے سب کچھ چھوڑ دیا۔‘‘

ہم نے کہا، کبھی بڑے بڑے ادیب کالم لکھا کرتے تھے، مگر اب یوں لگتا ہے کہ سیاسی کالم جلد ادبی کالموں پر غالب آجائیں گے۔ تارڑ صاحب کہنے لگے،’’سیاسی کالم اب ادبی کالموں پر غالب آگئے ہیں۔ سیاسی کالموں کی یوں اہمیت ہے کہ ان کے ذریعے آپ کسی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں، کسی کے دوست ثابت ہوسکتے ہیں۔ کوئی آپ کو نواز سکتا ہے، گاڑی دے سکتا ہے۔ ادبی کالم لکھنے کا اس تناظر میں تو کوئی فائدہ نہیں۔ مگر میری مجبوری تھی کہ میں ادبی کالم ہی لکھ سکتا تھا۔ (ہنستے ہوئے) ورنہ مجھے بھی کوئی بنگلا یا گاڑی دے دیتا۔ خیر، یہ صنف اب زوال ہی کی جانب جارہی ہے۔‘‘

روانگی کے سمے ہم نے سوال کیا، آپ نے ہمیشہ خود کو چیلینج کیا ہے، اب اگلا چیلینج کیا ہے؟ کہنے لگے،’’کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے، کچھ نہ لکھوں، اب سکت کم ہوتی جارہی ہے۔ لکھنے کے لیے طاقت، سکت چاہیے۔ کالم میرا ذریعہ معاش ہے، وہ لکھتا رہوں گا، اُسے ادب شمار نہیں کرتا۔ میرے خیال میں کافی لکھ لیا ہے۔ کوئی نئی چیز نہ آجائے، تو شاید کچھ نہ لکھوں۔‘‘

٭ روحی بانو کا خلا کیوں پُر نہیں ہوگا؟

روحی بانو اور تارڑ صاحب ٹی وی ڈراموں میں ساتھ جلوہ گر ہوئے، دوران گفتگو اس بے بدل اداکارہ اور اس کے المیوں پر بھی بات ہوئی۔ کہنے لگے، ’’کئی المیے ایسے ہوتے ہیں، جو معاشرہ آپ پر نافذ کردیتا ہے۔ وہ دوسروں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ روحی کے مسائل پر میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ ایک طرف گورنمنٹ کالج کے فلسفی طالب علم تھے، دوسری طرف ان کا گھر تھا۔ وہ اکثر اپنے پاگل پن میں مجھ سے کہا کرتی کہ ’تم میرے ہیرو ہے، مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔‘ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فلاں کا خلا پُر نہیں ہوگا، میں اس پر کوئی خاص یقین نہیں رکھتا۔ البتہ جتنے بھی لوگ گئے، ان میں میرے نزدیک روحی وہ واحد شخصیت ہے، جس کا خلا پر نہیں ہوگا ۔ اس جیسی اور بھی اچھی، خوب صورت، باصلاحیت اداکارئیں آئیں گی، لیکن اس کے حسن میں جو حزن ہے، اور اس کی اداکاری میں جو سوگواری ہے، اور پھر اُس کی جو بے ساختگی اور پاگل پن ہے، وہ ہمیں پھر نہیں ملے گا، یہ کاک ٹیل وہی بنا سکتی ہے۔‘‘

٭میں، انتظار حسین اور پرندے

انتظار حسین اور مستنصر حسین تارڑ، شاید یہ دو ہی ادیب ہیں، جنھوں نے زندگی کے بڑے حصے فقط لکھا، کوئی ملازمت نہیں کی۔ انتظار صاحب کا فکشن بھی موضوع بحث بنا۔ کہتے ہیں،’’انتظار صاحب اور ہمارے محور مختلف تھے۔ ہماری ثقافت، زبان، زندگی کے بارے میں رویے مختلف تھے۔ وہ ادب برائے ادب کے قائل تھے، ہم تھوڑے بہت ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ اُن کا ماخذ اساطیر تھی۔ البتہ انھوں نے جو کچھ لکھا، اس کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ ان کا اپنا دبستان ہے، اپنا اسکول ہے۔ میر ا اور اُن کا جو تھوڑا بہت واسطہ تھا، وہ پرندوں کے حوالے سے تھا۔ وہ بھی پرندوں میں دل چسپی رکھتے تھے، اور باقاعدہ مجھ سے پوچھا کرتے تھے۔ تو قدرت کے ساتھ، پرندوں اور مناظر کے ساتھ جو لگاؤ تھا، وہ ہم دونوں میں یکساں تھا۔‘‘

٭لاہور لحاظ نہیں کرتا

تارڑ صاحب نے ایک بار کہا تھا کہ انتظار حسین کو انتظار حسین بنانے میں لاہور نے کلیدی کردار ادا کیا، تو ہم نے پوچھا، کیا لاہور کی برکات سے آپ بھی مستفید ہوئے؟ کہا،’’بالکل، میں اُس کے بیچ میں موجود تھا۔ ہماری بیجوں کی ایک دکان تھی۔ ادھر جسٹس کیانی، ملکہ پکھراج آتی تھیں۔ مرزا ادیب ادھر آیا کرتے تھے، اشفاق احمد کا گزر ہوتا تھا۔ ٹی ہاؤس میں لیجنڈز بیٹھا کرتے تھے۔ کشورناہید، جمیلہ ہاشمی، ساحرہ کے گھر میں، میرے گھر میں، آپا حجاب کے گھر میں محفلیں ہوتی تھیں۔ اُن کا اثر ہوا ہے۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاہور آدمی کی مالی حیثیت سے متاثر نہیں ہوتا۔ ایک واقعہ بھی سنایا۔ ’’ایک بار زبیر رضوی، جو بہت اچھے شاعر اور ’ذہن جدید‘ کے مدیر تھے، لاہور آئے، تو ہم نے حلقہ ارباب ذوق میں بلایا۔ حبیب جالب کی صدارت تھی، زبیر رضوی نے اپنی ایک نظم سنائی، جس پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ بلکہ ایک مصرعے پر روحی بانو بے تحاشہ ہنسنے لگیں۔ بڑی مشکل سے اُنھیں چپ کروایا۔ تب حبیب جالب نے کہا:’میاں صاحب زادے، کوئی کام کی چیز ہے، تو سناؤ، یہ لاہور ہے۔‘ تب انھوں نے ایک غزل سنائی، جس پر انھیں داد ملی، بعد میں انھوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب میں دہلی میں یہ نظم سناتا ہوں، تو پچاس ہزار کا مجمع کھڑا ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا، یہی فرق ہے لاہور اور دہلی میں، لاہور لحاظ نہیں کرتا۔‘‘

٭ کراچی شہر نہیں ہے، جزیرہ ہے!

کراچی بھی آنا جانا رہتا ہے۔ پوچھا، اِس شہر کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ کہنے لگے،’’کراچی شہر نہیں ہے، یہ ایک تجارتی حب ہے۔ لاہور اور کراچی کے مزاج میں بہت فرق ہے۔ اِس کا اپنا مزاج ہے۔ میں نے لٹریچر فیسٹول میں کہا تھا کہ کراچی ایک جزیرہ ہے، یہ شاید دیگر شہروں سے کٹا ہوا ہے۔‘‘

٭مدینہ منورہ اور ایک غیرمطبوعہ ناول

ہم نے پوچھا، آپ نے دنیا کے کئی شہر دیکھے، کون سا شہر بار بار دیکھنے کو جی چاہتا ہے؟ کچھ ساعت توقف کیا، پھر کہنے لگے،’’مدینہ منورہ۔ میرا اس شہر سے ایک روحانی تعلق ہے۔ میں نے ایک ناول لکھ رکھا ہے، کسویٰ کا سوار۔ ساڑھے تین سو صفحات کا ہے، رسول کریمﷺ کی زندگی پر، مگر اُسے میں ابھی شایع نہیں کروارہا۔ خیر، تو ایک ذاتی قسم کا تعلق ہے۔ البتہ میں روایتی معنوں میں مذہبی نہیں۔ اس شہر میں بار بار جانے کی خواہش رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے ہے۔ میری یہ بھی آرزو ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک فلیٹ لے کر دو تین ماہ نارمل زندگی بسر کروں، لوگوں سے ملوں، چلوں پھروں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔