’’ہم دو دن چھپے رہے‘‘ کشمیری طلبہ کی بپتا

سید عاصم محمود  اتوار 3 مارچ 2019
پلوامہ حملے کے بعد پورے بھارت میں نفرت کے ہرکارے انتہا پسندوں نے نہتے کشمیریوں کو اپنا ٹارگٹ بنالیا، خصوصی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

پلوامہ حملے کے بعد پورے بھارت میں نفرت کے ہرکارے انتہا پسندوں نے نہتے کشمیریوں کو اپنا ٹارگٹ بنالیا، خصوصی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

جب بائیس سالہ کشمیری نوجوان، امتیاز احمد میر چندی گڑھ پہنچا تو وہ بھوک و پیاس سے بے حال تھا۔ خوف و دہشت نے اس کا دماغ سُن کررکھا تھا۔ وہ پچھلے دو دن موت و حیات کی کشمکش سے گزرا تھا۔ اسے کچھ خبر نہ تھی کہ موت کب اس کو آدبوچے گی۔

کشمیری طلبہ کی تنظیم، جموںکشمیر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنوں نے امتیاز احمد سمیت دیگر طلبہ کا استقبال کیا،انھیں تسلی دی کہ اب وہ محفوظ مقام پہ ہیں اور انہیں کھانا کھلایا۔ جب امتیاز کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے جان بچ جانے پر اللہ کا شکریہ ادا کیا۔

امتیاز احمد ریاست  جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ کا رہائشی ہے۔ وہ ریاست اترکھنڈ کے صدر مقام، ڈیرہ دون کے الپائن کالج میں زیر تعلیم تھا۔ اس نے شہر کے سدھا والہ نامی علاقے میں دیگر کشمیری طلبہ کے ساتھ ایک گھر کرائے پر لے رکھا تھا۔ علاقے میں بہت سے کشمیری طلبہ مقیم تھے۔پندرہ فروری کو ان تمام کشمیری طلبہ پر آفت ٹوٹ پڑی۔ ہوا یہ کہ پچھلے دن ضلع پلوامہ میں بارود سے بھری ایک کار بھارت کی نیم فوجی فورس، سنٹرل ریزرو پولیس کے قافلے سے جا ٹکرائی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کار ایک کشمیری نوجوان، عادل ڈار چلا رہا تھا۔ اس خودکش حملے میں سنٹرل ریزرو پولیس کے چالیس سے زائد فوجی مارے گئے۔

اگلے ہی دن سدھاوالہ میں موٹر سائیکلوں پر سوار سیکڑوں نوجوان آپہنچے۔ وہ کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف مغظلات بکنے اور اشتعال انگیز نعرے لگانے لگے۔ یہ نوجوان بھارت کی قوم پرست اور انتہا پسند ہندو جماعتوں… آر ایس ایس، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ تلواروں، ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مسلح تھے۔

امن پسند کشمیری انہیں دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے۔ انہوں نے خود کو کمروں میں بند کرلیا۔ جب شام کو بلوائی واپس پلٹے تو بعض کشمیری اپنا سامان حتیٰ کہ تعلیمی سرٹیفکیٹ چھوڑ کر کشمیر گھر روانہ ہوگئے۔ دیگر کشمیری طلبہ کا خیال تھا کہ غنڈے اب نہیں آئیں گے لیکن ہفتے کی صبح بلوائی پھر آدھمکے۔ اس بار ان کی تعداد زیادہ تھی اور وہ پہلے سے زیادہ متشدد ہوچکے تھے۔ چناں چہ کشمیری طلبہ پھر اپنے کمروں میں محصور ہوگئے۔

بہت سے طلبہ بشمول امتیاز احمد کے پاس جمعہ 15 فروری کی رات ہی کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیا۔ تاہم وہ خوف کے مارے سامان لینے باہر نہ جاسکے۔ ہفتے کا دن تو ان پر قہر بن کر ٹوٹا۔ اب وہ حاجت کی خاطر شاپر استعمال کرنے لگے۔ انہیں ڈر تھا کہ وہ باہر جائے حاجت کرنے گئے تو بلوائی انہیں پہچان کر حملہ کردیں گے۔

16 فروری کی شام سدھاوالہ میں مقیم سبھی کشمیری طلبہ کو مالک مکانوں نے کہہ دیا کہ وہ گھر خالی کردیں۔ مالکوں کا کہنا تھا کہ انتہا پسند ہندو تنظیموں کی طرف سے انہیں دھمکی ملی ہے کہ کسی کشمیری کو بطور کرایہ دار نہ رکھا جائے ورنہ ان کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔یہی نہیں جب وہ کھانے پینے کا سامان خریدنے مقامی مارکیٹ گئے تو ہر دکان دار نے انھیں سودا فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔لگتا تھا،وہ کشمیریوں کے بائیکاٹ  کا پروگرام بنا چکے۔اس حوصلہ شکن صورت حال کے بعد سولہ فروری کی رات امتیاز احمد اور دیگر کشمیری طلبہ نے اپنا سامان سنبھالا اور چھپتے چھپاتے ڈیرہ دون کے بس اڈے پہنچ گئے۔

ایک اور گمبھیر مسئلہ وہاں منتظر تھا۔ بس والوں نے کشمیری طلبہ کو بسوں میں بٹھانے سے انکار کردیا۔ مجبوراً طلبہ نے ٹیکسی والوں سے رجوع کیا۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے کرائے میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ لالچی اور ہوس کے مارے ٹیکسی ڈرائیور کشمیری طلبہ کی بے بسی اور لاچاری سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ خوف کا شکار طلبہ کو اپنی جانیں بچانامقصود تھا، لہٰذا ناچار گاڑی والوں کو منہ مانگا زیادہ کرایہ دیا اور چندی گڑھ پہنچ گئے۔ وہاں جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس تنظیم نے قیام و طعام کا انتظام کررکھا تھا۔

نفرت کی لہر

بھارتی ریاست جموں و کشمیر کی پڑوسی ریاستوں… اترکھنڈ، ہماچل پردیش، پنجاب، ہریانہ، راجھستان، اترپردیش اور دہلی کے تعلیمی اداروں میں ہزارہا کشمیری طلبہ تعلیم پارہے ہیں۔ 14 فروری کو پلوامہ حملے کے بعد خوف و دہشت نے انہیں آن دبوچا۔ انتہا پسند اور قوم پرست ہندو انہیں ڈرانے دھمکانے اور نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے لگے۔ یہ عمل مودی حکومت کی نفرت انگیز سیاست کے باعث پورے بھارت میں جنم لے چکا۔

بھارت کی انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں نے بھارتی مسلمانوں کے خلاف محاذ بناکر اپنے پلیٹ فارم پر کروڑوں ہندوؤں کو جمع کرلیا ہے۔ ان ہندوؤں کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً بھارتی مسلمانوں یا پاکستان کو’’ ہوّا ‘‘بناکر پیش کیا جائے۔ یہی وجہ ہے، جب بھی پلوامہ جیسا واقعہ رونما ہو، تو تمام انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں کے لیڈر اشتعال انگیز بیانات دیتے اور بھارتی مسلمانوں و پاکستان کو ’’دہشت گرد‘‘ اور ’’مجرم‘‘ قرار دینے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ نفرت کا یہ ماحول بھارت میں اکثر غیر مسلموں کو اپنی گرفت میں لے چکا۔ بدقسمتی سے باہمی رابطے کی جدید ٹیکنالوجی نفرت پھیلانے میں انتہا پسندوں کی مدد گار بن رہی ہے۔ اس کی ایک مثال  پلوامہ حملے کے بعد سامنے آئی۔

اترکھنڈ کے صدر مقام، ڈیرہ دون میں تین ہزار سے زائد کشمیری طلبہ مقیم تھے۔ اس لیے وہاں انتہا پسند ان کے خلاف بڑے سرگرم نظر آئے۔ 14 فروری کے بعد ٹویٹر انڈیا میں ’’#Badlakb ‘‘(بدلہ کب ) ’’ #Palwamarevenge ‘‘ (پلوامہ بدلہ) اور ’’IndiaWantsRevenge #‘‘(انڈیا بدلہ چاہتاہے)کے ہیش ٹیگ گردش کرنے لگے۔ اب جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والا انیس سالہ عادل ڈار ریاست کا نیا دشمن بن گیا۔ یوں دشمنوں کی طویل فہرست میں ایک نئے نام کا اضافہ ہوا۔ شروع میں بھارتیوں کے مابین یہ جملہ ’’جیش محمد کا مقامی کشمیری دہشت گرد‘‘ زیر بحث رہا۔ رفتہ رفتہ ’’مقامی کشمیری دہشت گرد‘‘ ’’مقامی کشمیری‘‘ اور پھر ’’کشمیری‘‘ بھارتی عوام کی اشتعال انگیزی اور غصّے کا نشانہ بن گئے۔

اس دوران پورے بھارت میں ہزاروں انتہا پسند بھارتی سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک اور ٹویٹر پر کشمیری عوام کے خلاف نفرت انگیز پوسٹیں لگانے لگے۔ ان کا زہر پڑھنے والوں میں بھی پھیلنے لگا۔ ایک ایسی  ہی پوسٹ فیس بک پوسٹ اترکھنڈ کے صدر مقام، ڈیرہ دون میں بھی نمودار ہوئی جہاں پچھلے تین برس سے بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس ریاست کی آبادی ایک کروڑ پینتیس لاکھ ہے۔ ان میں چودہ فیصد (تقریباً انیس لاکھ) مسلمان ہیں۔

یہ فیس بک پوسٹ ککرتی سہراب نامی شخص نے پوسٹ کی۔ اس کی پروفائل کی رو سے وہ فورسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ، ڈیرہ دون میں ملازم تھا۔ یہ پوسٹ جمعہ 15 فروری کو صبح دس بجے نمودار ہوئی۔ اس میں الپائن کالج کے ایک سابق طالب علم کا تذکرہ تھا جو 13 فروری کو بڈگام میں بھارتی فوجیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوا تھا۔ ککرتی سہراب نے پھر دعویٰ کیا کہ ڈیرہ دون کے کئی کالجوں مثلاً الپائن، گرافک کالج، ڈولفن انسٹیٹیوٹ وغیرہ میں ہزارہا کشمیری طلباء و طالبات پڑھ رہے ہیں۔ یہ تعلیم کے نام پر ’’دہشت گردی‘‘ پھیلانے میں مصروف ہیں۔

یہ پوسٹ فیس بک پر لگاتے ہوئے ککرتی سہراب نے تجویز دی ’’آؤ بھارتیو! ہم وٹس اپ گروپ بناکر منظم ہوتے ہیں۔اب ہمیں ان کشمیریوں کا ’’کچھ کرنا‘‘ ہوگا۔‘‘ یہ پوسٹ آدھے گھنٹے میں کئی ہزار بھارتی شیئر کرچکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی کمنٹس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انجو چوہان نامی بھارتی نے تبصرہ کیا: ’’باہر نکالو ان دیش دھروئیوں کو، مار ڈالو ان کو۔‘‘

سہراب یادو نامی شخص نے کمنٹ کیا ’’یہ سالے دہشت گردوں کے حامی ہیں۔ ان کو گھر اور فلیٹ کرائے پر نہ دو۔ یہ بھی دہشت گرد بن سکتے ہیں۔‘‘ انشول اواستھی نامی ایک یوزر نے دعویٰ کیا ’’میں نے چند ساتھی جمع کیے اور ایک کشمیری طالب علم کو خوب پیٹا، مگر پولیس آگئی اور وہ بچ نکلا۔ اب دوبارہ نظر آیا تو ہم پھر اسے خوب ماریں گے۔‘‘

فیس بک پوسٹ پر کمنٹس جاری تھے کہ پردیپ سرسوتی نامی مقامی یوزر نے اعلان کیا کہ اس نے نوجوانوں پر مشتمل ایک وٹس اپ گروپ بنادیا ہے تاکہ سب جمع ہوکر ’’کام  دکھا‘‘سکیں۔ پردیپ نے نوجوانوں کو بتایا ’’سینا (حکومت) تو قانون میں بندھی ہے مگر ہم نوجوان نہیں۔‘‘

غرض فیس بک اور وٹس اپ کی زہریلی اور اشتعال انگیز پوسٹوں کے باعث جمعہ 15 فروری کی دوپہر تک ڈیرہ دون کے کئی سو نوجوان ان تعلیمی اداروں پر حملے کرنے کے پروگرام بنانے لگے جہاں کشمیری طلباء و طالبات زیر تعلیم تھے۔ جلد ہی آر ایس ایس اور بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے اس نفرت انگیز تحریک کی کمان سنبھال لی تاکہ اسے منظم شکل دی جاسکے۔

وکاس ورما ڈیرہ دون میں بجرنگ دل کا لیڈر ہے۔ اس نے بھارتی ویب سائٹ، دی وائر کے نمائندے کو بتایا:’’ ہاں، کشمیری ہمارے ٹارگٹ بن چکے۔ وہ ہمیشہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ہم انہیں کھلاتے پلاتے اور اپنے گھروں میں رکھتے ہیں مگر وہ ہمیں بدلے میں کیا دیتے ہیں؟ ہم انہیں سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ ڈیرہ دون میں اب کتا تو رہ سکتا ہے، کشمیری نہیں۔‘‘

حملوں کا آغاز

جمعہ 15 فروری کی شام ڈیرہ دون میں انتہا پسند جماعتوں سے منسلک غنڈوں نے ڈولفن گروپ آف انسٹی ٹیوٹ کے گرلز ہوسٹل پر دھاوا بول دیا۔ وہاں بیس کشمیری لڑکیاں  رہ رہی تھیں۔ غنڈے کشمیریوں کے خلاف کان پھاڑ دینے والے نعرے لگانے لگے۔ اس نفرت بھری فضا میں قدرتاً سبھی لڑکیاں انتہائی خوفزدہ ہوگئیں۔ انہوں نے دیوانہ وار کشمیر میں اپنے والدین اور عزیز و اقارب کو فون کیے۔ گھبرائے ہوئے والدین نے اترکھنڈ اور ڈیرہ دون میں پولیس افسروں سے رابطے کیے۔ تاہم پولیس دو گھنٹے بعد گرلز ہوسٹل پہنچی۔ شکر ہے کہ غنڈوں کو موقع نہیں ملا کہ وہ کشمیر کی بیٹیوں کو نقصان پہنچاسکیں۔

ڈیرہ دون کے دیو بھومی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ انجینئرنگ میں زیر تعلیم ایک طالب علم، فاروق انصاری اب واپس اپنے شہر، سری نگر پہنچ چکا۔ وہ بتاتا ہے ’’میں اپنے چھ کشمیری ہم وطنوں کے ساتھ ہوسٹل میں مقیم تھا۔ 15 فروری کو سہ پہر اچانک ہجوم نے کالج کا گھیراؤ کرلیا۔ وہ نعرے لگارہا تھا کہ کشمیری واپس کشمیر چلے جائیں۔ ہم بہت خوفزدہ ہوگئے۔ خوش قسمتی سے ہمارا پرنسپل دلیر آدمی تھا۔ اس نے انتہا پسندوں کو قابو سے باہر نہیں ہونے دیا اور وہ رات تک منشتر ہوگئے۔ میں نے اپنا سامان اٹھایا اور گھر جانے کی خاطر بس اڈے پہنچا۔ لیکن ہائی وے بند ہونے کی وجہ سے اکا دکا بسیں چل رہی تھیں اور ان کے کرائے بھی چار پانچ گنا بڑھ چکے تھے۔ میں پھر جائے امن کی تلاش میں دہلی چلا گیا جہاں میرے کچھ عزیز رہتے ہیں۔ یوں میں ڈیرہ دون کے جہنم سے نکلنے میں کامیاب رہا۔‘‘

دیگر کالجوں کے پرنسپل مگر اتنے بہادر نہیں نکلے۔ الپائن کالج میں زیر تعلیم ایک کشمیری طالب علم بتاتا ہے ’’انتہا پسند پورے ڈیرہ دون میں گھوم پھر کر لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے اعلان کرنے لگے کہ سارے کشمیری شہر سے باہر نکل جائیں۔ وہ علی الاعلان ہمیں دھمکیاں دے رہے تھے۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرائے کے فلیٹ میں مقیم تھا۔ ہم نے اپنا سامان وہی چھوڑا اور کالج پرنسپل کے پاس مدد حاصل کرنے پہنچے۔ مگر اس نے نہایت سرد مہری دکھائی۔ وہ ہمیں کہنے لگا، تم لوگ وہاں (کشمیر میں) ایسی حرکتیں کیوں کرتے ہو؟ جب ہمیں محسوس ہوا کہ کالج میں ہم محفوظ نہیں، تو اسے چھوڑ دیا۔ مجھے یقین تھا کہ آج میری زندگی کی آخری رات ہے۔ کوئی نہ کوئی انتہا پسند مجھے گولی مار دے گا۔ ہم پھر ایک باغ میں جاچھپے ۔ جب رات گہری ہوگئی تو باغ سے نکلے اور بس اڈے پہنچے لیکن وہاں کوئی بس والا ہمیں بٹھانے پر تیار نہ ہوا کیوں کہ ہم چہرے مہرے سے صاف کشمیری لگتے تھے۔ آخر ایک بس ڈرائیور کو بھاری رقم دی تو تب اس نے بٹھایا۔ لیکن وہ ہمیں کشمیر نہیں چندی گڑھ لے گیا جہاں ہماری ایک تنظیم نے متاثرہ طلبہ کی امداد کے لیے ایک کیمپ لگادیا تھا۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ پلوامہ حملے کے بعدکلکتہ سے لے کر ڈیرہ دون تک بھارت کی سبھی ریاستوں میں قیام پذیر کشمیری مرد،خواتین،نوجوان حتی کہ بچے تک  انتہا پسندوں اور قوم پرستوں کی نفرت انگیز مہم کا نشانہ بن گئے۔ملازمت پیشہ کشمیریوں کو کام کی جگہوں پہ نفرت و ہراسگی کا نشانہ بننا پڑا ۔ ہجوم نے جس کشمیری کو تنہا پایا، اسے پیٹ ڈالا۔ حکمران جماعتوں سے تعلق رکھنے والے غنڈوں نے کئی ایسے محلوں کا گھیراو کر لیا جہاں کشمیری مقیم تھے۔ انھیں پھر دھمکیاں دی گئیں کہ وہ علاقہ چھوڑ دیں۔ہر مالک مکان پہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کسی کشمیری کو گھر کرائے پر نہ دے۔جموں شہر میں بلوائیوں نے مسلمانوں کی گاڑیاں جلا دیں۔غنڈوں نے کالجوں کا گھیراؤ کرلیا اور کالج انتظامیہ پر دباؤ ڈالا کہ کشمیری اساتذہ، طلبہ اور ملازمین کو نکال دیا جائے۔ اکثر مقامات پر پولیس کھڑی تماشا دیکھتی رہی اور اس نے شدید خوفزدہ کشمیریوں کو سہارا دینے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔جموں میں کرفیو کے باوجود بلوائی دندناتے پھرتے رہے۔

اگلے چند دنوں میں پورے بھارت میں کئی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے سینکڑوں کشمیری طلبہ نکال دیئے گئے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ فیس بک، واٹس اپ میں آزادی کشمیر کے سلسلے میں پوسٹیں لگاتے ہیں۔ یہی نہیں، بعض تعلیمی اداروں نے ان پوسٹس کو ’’غداری‘‘ اور ’’قومی سلامتی کے منافی‘‘ قرار دے کر کشمیری طلباء و طالبات کے خلاف پرچا بھی کٹوا دیا۔ چناں چہ بہت سے کشمیری طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔

بھارتی حکمران بھارت کو فخریہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ لیکن وہاں اعلانیہ کشمیر کے عوام کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ ان کے آزادی اظہار کا حق سلب کیا جارہا ہے۔ تاہم خودکو انسانی حقوق کا علمبردار کہنے والا مغربی میڈیا خاموش ہے۔ اسے بھارتی حکمرانوں کا نہتے و بے بس کشمیریوں پر ظلم و ستم دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہے۔

دوسری طرف مودی سرکار پلوامہ حملے کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے لگی۔ 15 فروری کو وزیراعظم مودی نے جھانسی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’بھارتی عوام الیکشن میں ہمیں ووٹ دے تاکہ ہم طاقتور حکومت بناکر دشمن کو کرارا جواب دے سکیں۔‘‘اگلے دن مودی نے بہار اور جھاڑ کھنڈ میں جلسوں سے خطاب کیا۔ اس موقع پرموصوف بولے ’’یہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے دل میں بھی (بدلے کی) آگ جل رہی ہے۔‘‘لیکن مودی نے کشمیریوں سے اظہار ہمدردی کرنے کے لیے ایک لفظ تک نہیں کہا جن پر ان کی جماعت کے غنڈوں نے چڑھائی کررکھی تھی اورجنہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔

19 فروری کو آر ایس ایس اور بی جے پی رہنماؤں کی حقیقی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی۔ تاتگھٹے رائے مغربی بنگال میں بی جے پی کا صدر رہا ہے۔ جب مودی نے حکومت سنبھالی، تو انہیں ریاست میگھالایہ کا گورنر بنادیا۔ از روئے قانون گورنر سبھی ریاستی شہریوں کے حقوق کا نگران ہوتا ہے۔ مگر اس اصول کو پیروں تلے روندتے ہوئے تاتگھٹے رائے نے 19 فروری کو ٹویٹ کیا ’’بھارتی قوم کو کشمیر اور کشمیریوں کا بائیکاٹ کردینا چاہیے۔‘‘ یوں ایک گورنر نے بھارتی عوام کو کشمیریوں کے خلاف متحرک ہونے کا عندیہ دے دیا۔

پلوامہ حملے کے بعد یقینا پورے بھارت میں مقیم ہزارہا کشمیریوں کو انتہا پسندوں کے حملوں کا شکار ہونا پڑا۔ وہ دکھ و کرب کے عالم سے گزرے۔ مگر اس واقعے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ خصوصاً قوم پرست ہندو جماعتوں کے لیڈروں اور ان کے پیروکاروں کی ذہنیت دنیا والوں پر آشکارا ہوگئی۔ یہ لیڈر کشمیری عوام کو بدستور اپنا غلام بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔ جو کشمیری احتجاج نہ کرے، وہ اسے تو اپنا دوست قرار دیتے ہیں۔ لیکن جو کشمیری نعرہ آزادی بلند کرے اور اکثریت کے احکامات ماننے سے انکار کردے، وہ بھارتی حکمرانوں کے لیے دشمن اور واجب القتل بن جاتا ہے۔ وہ یہی سوچ اب بھارتی غیر مسلم عوام میں بھی منتقل کرچکے۔ یہی وجہ ہے، پلوامہ حملے کے بعد کشمیری جن غیر مسلموں کو اپنا دوست و ساتھی سمجھتے تھے، وہ بھی انتہا پسندوں اور غنڈوں کے ساتھ مل کر کشمیریوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگاتے اور انہیں دھمکیاں دیتے پائے گئے۔ اسی امر نے کشمیریوں کو زیادہ خوفزدہ کر ڈالا اور انہوں نے وطن واپس جانے میں ہی عافیت جانی۔

سچ یہ ہے کہ کشمیری بھارت میں ہمیشہ دوسرے درجے کے شہری رہیں گے۔ جب تک وہ برہمن طبقے کی قید سے آزاد نہیں ہوتے، انہیں بھارت میں اکثریتی طبقے کے ظلم و ستم سہنے پڑیں گے۔ مقبوضہ کشمیر کی نئی نسل اس بات کا ادراک کرچکی، اسی لیے اب وہ ہر ممکن طریقے سے بھارتی حکمرانوں سے چھٹکارا چاہتی ہے…چاہے انہیں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرکے جان ہی دینا پڑے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو نیا خون ملتا رہا، تو بھارتی حکمران جلد یا بدیر اس ارضی جنت کو آزادی دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

سکھ تنظیم کا جذبہ ہمدردی

بھارت میں کشمیریوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں فیس بک اور وٹس اپ نے اہم کردار ادا کیا، تو یہ دونوں میڈیا سائٹس ان کی مددگار بھی بن کر سامنے آئیں۔ یوں ثابت ہوگیا کہ سائنس و ٹیکنالوجی بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی، اسے برتنے والے انسان اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ہوا یہ کہ جب بھارتی ریاستوں میں انتہا پسند ہندو کشمیری طلبہ اور دیگر لوگوں پر حملے کرنے لگے، تو انہوں نے بذریعہ وٹس اپ اور فیس بک ایک طلبہ تنظیم، جموں و کشمیر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے رابطہ کرلیا۔ یہ تنظیم دو سال قبل دو کشمیری طلباء، خواجہ عطرت اور فہیم الدین ڈار نے دیگر نوجوانوں کے ساتھ مل کر قائم کی تھی۔ یہ تنظیم کشمیر اور بھارتی ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ و طالبات کو ہر ممکن مدد فراہم کرتی ہے۔

جب خوف و دہشت کا شکار کئی سو کشمیری لڑکے لڑکیاں مدد کے طلبگار ہوئے، تو طلبہ تنظیم نے فیصلہ کیا کہ انہیں فیس بک اور وٹس اپ کے ذریعے عارضی طور پر موہالی (چندی گڑھ) پہنچنے کا کہا جائے۔سوشل میڈیا کی مدد ہی سے  مقامی کشمیری طلبہ کے ذریعے وہاں تنظیم نے دیگر شہروں سے آنے والے کشمیریوں کے لیے قیام و طعام کا بندوبست کردیا۔ جن کمروں میں ایک ایک کشمیری طالب علم مقیم تھے، انہوں نے جذبہ ایثار سے کام لیتے ہوئے دو کمرے مہاجرین کے لیے خالی کر ڈالے۔

اس دوران سکھ سماجی تنظیم، خالصہ ایڈ کو خبر ملی کہ کشمیری انتہا پسندوں کے زیر عتاب ہیں۔ وہ بھی پھر جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر مصیبت کا شکار کشمیریوں کی مدد کرنے لگی۔ اس نے اپنے لنگر خانے ان کے لیے کھول دیئے۔ نیز پھنسے کشمیریوں کو کشمیر بجھوانے کے لیے بسوں کا بھی انتظام کیا۔جب خالصہ ایڈ نے کشمیریوں کے ساتھ جذبہ ہمدردی دکھایا تو انتہا پسند ہندو اسے بھی تنقید و تضحیک کا نشانہ بنانے لگے۔ خالصہ ایڈ نے کشمیری طلبہ میں کھانا تقسیم کرنے کی ایک ویڈیو فیس بک پر جاری کی تھی۔ اس پر کمنٹ کرتے ہوئے پرکاش نامی بھارتی نے لکھا ’’اب جہادی گردواروں میں قیام کریں گے۔‘‘ دوسرے نے لکھا ’’سکھ اپنا راستہ بدل لیں ورنہ انہیں بھی ہمارے غصے کا نشانہ بننا پڑے گا۔‘‘ نفرت انگیز کمنٹس کے بعد ویڈیو ہٹادی گئی۔بہرحال خالصہ ایڈ کا جذبہ ہمدردی قابل تحسین ہے کہ وہ ہندو انتہا پسندوں کو خاطر میں نہ لاکے مصیبت زدہ کشمیریوں کی مدد کرتی رہی۔

مولانا اظہر کا آڈیو پیغام

ضلع پلوامہ میں بھارتی نیم فوجی فورس کے قافلے سے گاڑی ٹکرانے والا شہید، عادل احمد ڈار ایک سال پہلے مقبوضہ کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیم، جیش محمد میں شامل ہوا تھا۔ یہ تنظیم 2000ء میں جہادی رہنما، مولانا مسعود اظہر نے قائم کی تھی۔ 2002ء میں حکومت پاکستان نے اس پر پابندی لگادی ۔ خیال ہے کہ مولانا مسعود اظہر پھر مقبوضہ کشمیر یا افغانستان چلے گئے  اور کسی نامعلوم مقام پر قیام پذیر ہیں۔پلوامہ حملے کے چند دن بعد جیش محمد نے مولانا مسعود اظہر کا مبینہ ویڈیو پیغام جاری کیا۔ اس پیغام کے اقتباسات پیش ہیں:۔

’’مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی بیرونی امداد کی محتاج نہیں۔ ہمارا مجاہد کشمیری نوجوان تھا اور یہ حملہ سری نگر کے نزدیک ہوا، پاکستان کی سرحد سے بہت دور۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ مودی حکومت کے دباؤ سے ہرگز متاثر نہ ہو۔پلوامہ حملے کے بعد بھارت حسب معمول پاکستان پر الزام لگانے لگا حالانکہ ظالم بھارتیوں پر یہ حملہ ایک کشمیری نے کیا ہے۔ مگر اس بار بھارت کی چال کامیاب نہیں ہوسکی۔ حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ یورپی یونین اور چین نے بھی مذمت نہیں کی۔ اسی لیے کہ اس حملے میں شہری ہلاک نہیں ہوئے۔

نریندر مودی پر اب دباؤ بڑھے گا۔ لیکن پاکستانی حکومت اس کا دباؤ سہار نہیں پائی اور مودی کی شرائط تسلیم کرلیں، تو وہ پھر طاقتور ہوسکتا ہے۔ مودی فخریہ اعلان کرتا تھا کہ کشمیر سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ ہوچکا۔ لیکن ہمارے حملے نے اس کی لاف زنی کا پول کھول دیا۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پلوامہ حملے کے باعث مودی کو لوک سبھا الیکشن میں فائدہ ہوگا۔ یہ بات صحیح نہیں۔ یہ خیال ظاہر کرنے والے لوگ بھارتی سیاست اور ہندو ذہنیت کو نہیں سمجھتے۔ اس واقعے کے بعد مودی کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے۔ مودی کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ کشمیر میں تحریک آزادی ختم ہوچکی۔ اگر وہ ختم ہوچکی تو یہ حملہ کیسے انجام پایا؟ میں آخر میں تمام کشمیریوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کی آواز پوری دنیا میں سنی گئی ۔‘‘

بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی

پلوامہ حملے کے بعد مودی سرکار نے فوراً ہی اس کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے ڈالا۔ بھارتی حکومت کا زر خرید ٹی وی میڈیا پاکستان کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز پروگرام کرنے لگا اور اس نے بھارت میں جنگی ماحول پیدا کردیا۔ تاہم ایسے جذباتی ماحول میں بھی کہیں کہیں سے سمجھ بوجھ کی آوازیں سنائی دیں۔ ان میں ادیب و صحافی اور این ڈی ٹی وی انڈیا پر نیوز پروگرام کرنے والا رویش کمار بھی شامل تھا۔رویش کمار نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’’وہ تمام ٹی وی چینلز جو معاشرے میں خوف و دہشت پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے قومی سلامتی کے نام پر جنگجویانہ ماحول پیدا کردیا ہے، ان کو یہ غور و فکر بھی کرنا چاہیے کہ نتیجہ کیا نکلے گا؟ صحافت کا پہلا اصول یہ ہے کہ نیوز اینکرز جذبات میں گرفتار نہ ہوں اور نہ ہی سامعین کو جذباتی کردیں۔ میں (یہاں کا ماحول) بدمزہ نہیں کرنا چاہتا مگر ہمارے سب چینل والوں نے ہندوستان کا مزہ خراب کردیا ۔‘‘

پنجابی نژاد ملائکہ دعا مشہور صحافی ونود دعا کی بیٹی ہے۔ یہ کامیڈی ویڈیو بھی جاری کرتی ہے۔ اس نے پلوامہ حملے کے بعد ایک ویڈیو میں بھارتی عوام سے سوال کیا ’’بھارت میں روزانہ بھوک، پیاس، بیروزگاری اور ڈپریشن سے کئی لوگ مرجاتے ہیں لیکن ان کے بارے میں کسی کو فکر نہیں، کیا ان کی زندگیاں قیمتی نہیں یا ہم بھارتی بے حس ہوچکے۔‘‘لیکن انتہا پسند بھارتی ملائکہ دعا کے پیچھے پڑگئے کہ اس نے پلوامہ حملے کے ’’شہید‘‘ فوجیوں کا موازنہ عام بھارتیوں سے کیوں کیا ؟ بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوت سنگھ سدھو اور کپل شرما نے بھی انتہا پسندوں کی مسلم دشمنی پر سوال کیا، تو انہیں غدا ر قرار دے دیا گیا۔ دوسری طرف بالی وڈ کے مسلمان اداکار بھی ہمیشہ کی طرح انتہا پسندوں کی غلیظ اور شرمناک مہم کا نشانہ بنے اور انہیں ذہنی اذیت پہنچائی گئی۔

اس جنگجویانہ ماحول میں مگر بھارتی فوج کے بعض سابق جرنیلوں اور سپریم کورٹ کے سابق جج، مرکنڈے کاٹجو نے مودی سرکار اور بھارتی عوام کو خبردار کیا کہ پاکستان سے جنگ مہنگی پڑسکتی ہے۔ سابق جرنیلوں نے افشا کیا کہ بھارتی فوج فرسودہ اسلحہ رکھنے اور تیاری نہ ہونے کی بنا پر جنگ نہیں کرسکتی۔ جبکہ کاٹجو نے سرعام کہا کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور پاک فوج حملہ آور بھارتی فوج کو سبق سکھادے گی۔سابق جرنیلوں نے یہ امر بھی نمایاں کیا کہ پلوامہ حملہ دراصل بھارتی اینٹلی جنس کی نااہلی وناکامی کے باعث رونما ہوا۔

غیر مسلم بھی نہ بچ سکے

آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتوں نے پچھلی نصف صدی سے مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رکھی ہے۔ اس مہم کا بنیادی مقصد اقتدار حاصل کرنا اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانا ہے۔ ان تمام قوم پرست اور انتہا پسند تنظیموں کے بیشتر لیڈر برہمن ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا مدعا یہ ہے کہ ماضی کی طرح برہمن پھر ہندوستان کے بلاشرکت غیرے حکمران بن جائیں۔

اس طویل اور مسلسل نفرت انگیز مہم کا نتیجہ ہے کہ اب ہندوؤں میں سے جو بھی سوال کرے، اسے فوراً ’’غدار‘‘ اور ’’دیش دھروئی‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ جو ہندو دانش ور ہندو مت پر تنقید کرے، وہ واجب القتل ہوجاتا ہے۔ انتہا پسند پھر مختلف حیلے بہانوں اور متشددانہ کارروائیوں کے ذریعے اس کا جیناحرام کر دیتے ہیں۔ان کی غنڈہ گردی کے باعث اب بھارت میں سوال پوچھنے اور تنقید کرنے کی روایت دم توڑ رہی ہے اور اکثریتی فرقے کی آمریت جنم لے چکی۔ پلوامہ حملے کے بعد اسی آمریت کا ایک روپ سامنے آیا۔

بہار اور مغربی بنگال وہ بھارتی علاقے ہیں جہاں ماضی میں مہاتما بدھ نے برہمن مت (یا ہندومت) کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ان علاقوں میں برہمنوں کے خلاف آج بھی جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، مغربی بنگال، بہار، کیرالہ، آندھیرا پردیش وغیرہ میں غیر مسلم مرد وزن آر ایس ایس اور بی جے پی کی مسلم مخالف مہم کے خلاف فیس بک یا وٹس اپ پر پوسٹیں لگاتے رہتے ہیں۔ وہ اسے انسانیت اور عقل و دانش کے خلاف تحریک سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی روشن خیال اور انسانیت پسند لوگ بھی پلوامہ حملے کے بعد مغربی بنگال، بہار اور دیگر بھارتی ریاستوں میں انتہا پسندوں کے حملوں کا نشانہ بن گئے۔

ایک ایسا پہلا واقعہ مغربی بنگال کے ضلع کوچ بہار میں پیش آیا۔ وہاں انتہا پسند پہلے انیک داس نامی نوجوان کے گھر پر جمع ہوئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انیک نے فیس بک پر بھارتی فوج کے مخالف پوسٹ لگائی ہے۔ انیک نے انکار کیا مگر انتہا پسند زبردستی اسے سڑک پر لے آئے۔ وہاں پہلے اسے نیم برہنہ کیا گیا۔ پھر اس کے ہاتھ میں بھارت جھنڈا تھما کر مجبور کیا گیا کہ وہ سڑک پر مارچ پاسٹ کرکے بھارتی فوج زندہ باد اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے۔

مغربی بنگال کے شہر، بنگاؤں میں مقیم ایک سکول ٹیچر، چترادیپ شوم کو بھی ’’غدار‘‘ ہونے کے عذاب سے دوچار ہونا پڑا۔ اس نے سوشل میڈیا میں بحث کے دوران سوال کیا تھا کہ پلوامہ میں مرنے والے فوجیوں کو ’’شہید‘‘ کہا جاسکتا ہے؟ بس یہی سوال اس کا جرم بن گیا۔ سیکڑوں انتہا پسندوں نے اس کے گھر کا گھیراؤ کرلیا۔

بیچارا چترادیپ کہتا ہے کہ میں نے محض ایک سوال کیا تھا۔ مگر انتہا پسندوں نے زمین پر اس کی ناک رگڑوا دی۔ اس دوران بیچارے سے ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے لگوائے گئے۔ جب چترادیپ نے سرعام معافی مانگی تب ہی اس کی جان چھوٹی۔ مگر اگلے دن انتہا پسندوں کے نئے ہجوم نے اس کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ گھر کی ساری چیزیں توڑ پھوڑ دی گئیں۔ اس واقعے کے بعد چترادیپ اپنے اہل خانہ سمیت زندگیاں بچانے کی خاطر کلکتہ فرار ہوگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔