کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 3 مارچ 2019
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل

اسے بھی چھوڑوں اسے بھی چھوڑوں تمہیں سبھی سے ہی مسئلہ ہے؟

مری سمجھ سے تو بالاتر ہے یہ پیار ہے یا معاہدہ ہے

’’جو تو نہیں تھی تو اور بھی تھے جو تو نہ ہوگی تو اور ہوں گے‘‘

کسی کے دل کو جلا کے کہتے ہو میری جاں یہ محاورہ ہے

ہم آج قوس قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں

مجھے تو پہلے سے لگ رہا تھا یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے

وہ اپنے اپنے تمام ساتھی، تمام محبوب لے کے آئیں

تُو میرے ہاتھوں میں ہاتھ دے دے ہمیں بھی اذن مباہلہ ہے

ارے او جاؤ!! یوں سر نہ کھاؤ!! ہمارا اس سے مقابلہ کیا؟

نہ وہ ذہین و فطین یارو نہ وہ حسیں ہے نہ شاعرہ ہے

(فریحہ نقوی، لاہور)

غزل

ہمارے دل سے ہائے جا رہی تھی

خوشی کل منہ چھپائے جا رہی تھی

سحر افسردہ نازل ہو رہی تھی

شبِ غم مسکرائے جا رہی تھی

لبادے چاک ہونا چاہتے تھے

ہَوَس بھی دُم ہلائے جا رہی تھی

زمانہ لال پیلا ہو رہا تھا

محبّت رنگ لائے جا رہی تھی

مجھے ہر روز وہ شیریں لبوں سے

نئی تلخی پلائے جا رہی تھی

ہوائے سرد صبحِ زندگی کی

ہمارا دل جلائے جا رہی تھی

جنوں کی شمع روشن تھی گلی میں

فسانے بھی سنائے جا رہی تھی

دلِ برباد سے تاثیرؔ اک دن

بغاوت سر اٹھا ئے جا رہی تھی

(تاثیر خان، سوات)

غزل

اُسی کو دوست رکھا دوسرا بنایا نہیں

کئی بناتے ہیں میں نے خدا بنایا نہیں

یہ بستی رات کا کس طرح سامنا کرے گی

یہاں کسی نے بھی دن میں دِیا بنایا نہیں

پتہ کرو کہ یہ نقّاش کس قبیل کا ہے

پرندہ جب بھی بنایا رِہا بنایا نہیں

یہ لوگ ظلم کما کر شب ایسے سوتے ہیں

خدا نے جیسے کہ روزِ ِجزا بنایا نہیں

لہو بھی جلتا ہے جھڑتی ہے خاک بھی میری

کہ شعر اُترتا ہے لیکن بنا بنایا نہیں

وہ مہرباں ہے مگر بھولتا نہیں مجھ کو

وہ ایک کام  جو اُس نے مرا بنایا نہیں

اُداس دیکھا نہیں جاتا کوئی مجھ سے عقیلؔؔ

کسی کو اس لیے حال آشنا بنایا نہیں

(عقیل شاہ، راولپنڈی)

غزل

بیٹھا ہوں اپنی ذات کا نقشہ نکال کے

اک بے زمین ہاری ہوں صحرا نکال کے

ڈھونڈا بہت مگر کوئی رستہ نہیں ملا

اس زندگی سے تیرا حوالہ نکال کے

الماری سے ملے مجھے پہلے پہل کے خط

بیٹھا  ہوا ہوں آپ  کا وعدہ نکال کے

ہم رفتگاں سے ہٹ کے بھی دیکھیں تو شعر میں

موضوع  کم ہی بچتے ہیں نوحہ نکال کے

ملنا  کہاں تھا سہل درِ آگہی مجھے

آیا ہوں میں پہاڑ سے رستہ نکال کے

واعظ نہال آج خوشی سے ہے کس قدر

اک تازہ اختلاف کا نکتہ نکال کے

منعم کو اس نوالے کی لذت کا کیا پتہ

مزدور جو کمائے پسینہ نکال کے

حالات کیا  غریب کے بدلے کہ ہر کوئی

لے آیا ہے قریب کا رشتہ نکال کے

جاذبؔ کہاں خبر تھی کہ ہے باز تاک میں

ہم شاد تھے قفس سے پرندہ نکال کے

(اکرم جاذب، منڈی بہاء الدین)

غزل

کوئی شکوہ، نہ شکایت، نہ گلہ ہے اے وقت

وقت  بے  وقت  اگر درد  دیا  ہے اے وقت

مجھ کو معلوم تھا تم  آنکھ دکھاؤ گے ضرور

میری ڈرپوک شرافت کا  صِلہ ہے اے وقت

جھڑکیاں روز ملا کرتی ہیں لیکن  چپ ہوں

تو بھی عزت کو  گھٹانے پہ تُلا ہے اے وقت

جان  ہر ایک  کو  ہوتی  ہے اگرچہ تو عزیز

مار  دینے کا بھی ٹھیکہ تو  لیا  ہے اے  وقت

زندگی لطف سے  خالی ہے  ابھی  تک جب کہ

کوئی مَر مَر کے جو ہر روز جیا ہے اے وقت

 زمزمے  گیت  میں  شامل  نہیں  گوہرؔ  میرے

غم  سے بیٹھا ہوا جب خوب گلا ہے اے وقت

(گوہر رحمٰن گہر مردانوی، مردان)

غزل

جیسا خدا  کا حکم  ہے ویسا سمجھتا ہوں

پتّھر کے اِک مکان کو کعبہ سمجھتا  ہوں

تم کہہ رہے ہو اِک بڑی نعمت ہے زندگی

میں تو  اِسے  حضور کا صدقہ سمجھتا ہوں

کاغذ کے ایک  ٹکڑے  سے قائل نہ  کر مجھے

میں تو تمھارے فعل کو شجرہ سمجھتا ہوں

تم کہہ  رہے  ہو  عشق پہ  لاؤ   دلیل   بھی

میں تو بس ایک  یاد  کا  نقطہ سمجھتا ہوں

میں  جانتا   ہوں  مرتبہ   کِس  کا  بلند   ہے

اپنے  نبی کا  آخری  خطبہ  سمجھتا  ہوں

کیا تم  بتاؤ  گے مجھے، کیا  میرا  حال  ہے

کیفیؔ ہوں اپنے حال کا قِصّہ سمجھتا ہوں

(محمودکیفی، سیالکوٹ)

غزل

تبھی تو راہ میں پتھر نہیں ہوتے

ہماری بزم میں مخبر نہیں ہوتے

حیاتِ کرب کا اپنا تصرف ہے

بڑھے یہ خرچ تو مضطر نہیں ہوتے

گرا کے ایک پَل میں کہہ گئیں موجیں

سنو کمسن! گھروندے گھر نہیں ہوتے

میں تشنہ تو فرشتہ ہو نہیں سکتا

یہ بادل کس لیے کوثر نہیں ہوتے

ہمارے پاس بیٹھو گے تو جانو گے

سبھی شاعر انا پرور نہیں ہوتے

حدِ ادراک کی تمثیل ہیں دریا

امڈ بھی جائیں تو ساگر نہیں ہوتے

(ساگر حضور پوری، سرگودھا)

غزل

ایسے چہروں سے پیار کرتے ہیں

جو ہمیں سوگوار کرتے ہیں

لکڑیاں جل رہی ہیں ساتھ مرے

ہم تیرا انتظار کرتے ہیں

اپنے سینے کی چند سانسوں کو

زندگی میں شمار کرتے ہیں

بے یقینی کا ہاتھ تھامے ہوئے

ہم ترا اعتبار کرتے ہیں

اپنی آنکھوں پہ استخارے سے

خواب کو آشکار کرتے ہیں

(طارق جاوید، کبیر والا)

غزل

تماشا گاہ  میں کرتب دِکھانے والا ہوں

میں سب کے سامنے خود کو جلانے والا ہوں

کسی نے چھوڑ کے جانا ہے تو چلا جائے

چراغِ  خیمۂ دل  کو   بجھانے والا ہوں

نشانہ اِس دفعہ شاید میں خود ہی بن جاؤں

میں ایک تِیر ہوا میں چلانے والا ہوں

جو میرے پاس ہے اُس کی نہیں ہے قدر مجھے

جو  دور  ہے اُسے  اپنا  بنانے  والا  ہوں

ہمیشہ اُس کا  رہا منتظر، مگر اُس سے

یہی جواب ملا بس میں آنے والا ہوں

ہجومِ غم سے کہو  ہوشیار  ہو جائے

میں داستانِ محبّت سنانے  والا ہوں

بس ایک غم کو بُھلانا ہے سو اِسی خاطر

غمِ جہاں کو گلے سے لگانے والا ہوں

میں ڈھونڈنے اُسے نکلا ہوں اُس جگہ تہذیبؔ

جہاں پہ جا کے  میں خود کو گنوانے  والا ہوں

(تہذیب الحسن، گلگت بلتستان)

غزل

شب میں پُر نور مناظر تو بڑے دیکھتے ہیں

چاند کے بیچ ترے نقش بنے دیکھتے ہیں

نہیں دکھتا ہے مجھے تُو، تو کوئی بات نہیں

میں انہیں دیکھ کے خوش ہوں جو تجھے دیکھتے ہیں

ساری دنیا بھی پھریں، واپسی یہیں ہو گی

جو تجھے دیکھ چکے ہوں وہ کسے دیکھتے ہیں

جیسے پیاسا کوئی دیکھے ہے سمندر کی طرف

یوں ترے چاہنے والے بھی تجھے دیکھتے ہیں

یار، ہم لوگ۔۔۔۔ہمیں نیند کہاں آتی ہے

یار، ہم لوگ مگر خواب بڑے دیکھتے ہیں

جو تجھے ڈھونڈتے پھرتے ہیں دربدر ساحر

وہ تھک تھکا کے ترے در پہ مجھے دیکھتے ہیں

(حسنین اقبال، کوٹ مٹھن، راجن پور)

’’موڈ‘‘

کتنے دنوں سے۔۔۔

بات نہیں اس سے کرسکی!

میرا بھی موڈ آف ہے

اُس کا بھی موڈ آف!

کیسے بحال اس سے تعلق کروں میں اب

میرا بھی فون آف ہے

اُس کا بھی فون آف!!!

(نادیہ حسین، کراچی)

غزل

فسانہ عہدِ الفت کا نہ دہراؤ تو اچھا ہے

فریبِ حسن کے جلوے نہ دکھلاؤ تو اچھا ہے

مجھے اک بار اپنا رخ دکھا جاؤ تو اچھا ہے

میری حالت پہ اتنا رحم فرماؤ تو اچھا ہے

نئے عہد و وفا کرنا، قسم کھانا میرے سَر کی

مجھے ایسے کھلونوں سے نہ بہلاؤ تو اچھا ہے

میرے غم خوردہ دل کی اور بڑھ  جاتی ہے بے چینی

میری بزمِ تصور  میں نہ تم آؤ تو اچھا ہے

حریمِ بزم عالم میں ہے صابر تیرگی ہر سُو

نقابِ ناز اب رخ سے جو سرکاؤ تو اچھا ہے

(صابر میاں، ٹوبہ ٹیک سنگھ)

غزل

تیری غداریوں سے واقف ہوں

ان اداکاریوں سے واقف ہوں

میں نے مدت سے تیری قید سہی

تیری کمزوریوں سے واقف ہوں

بے وجہ جو حرام کھاتے ہیں

ایسے پٹواریوں سے واقف ہوں

میں ادا باز تو نہیں، پھر بھی

اپنی فنکاریوں سے واقف ہوں

جو مرا دل بنا سکیں بغداد

ایسے تاتاریوں سے واقف ہوں

جو طلب ایسے خود کشی کرتے

ان کی مجبوریوں سے واقف ہوں

(محمد نعیم طلب، سرگودھا)

غزل

میں خزاں میں گزار دوں! اچھا

اور تم کو بہار دوں! اچھا

جان تجھ پر میں وار دوں! اچھا

عمر یونہی گزار دوں! اچھا

جس کو چاہے گلے لگا لے تو

تجھ کو یہ اختیار دوں! اچھا

تیرے قدموں میں بیٹھ جاؤں میں

اپنی پگڑی اتار دوں! اچھا

اپنی ہستی مٹا کے اے ہمدم

تیری زلفیں سنوار دوں! اچھا

چاند تارے بھی جس پہ رشک کریں

تجھ کو ایسے نکھار دوں! اچھا

(راشد خان عاشر، ڈیرہ غازی خان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔