اکھنڈ بھارت کا خواب، گاندھی سے ایڈوانی تک

شبیر احمد ارمان  پير 4 مارچ 2019
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

یہ امر تاریخی ہے کہ بھارت آج تک پاکستان کو صدق دل سے تسلیم کرنے سے انکاری ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکمراں وقتا فوقتا اپنے بیانات کے ذریعے اپنے باطنی بغض کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور خود کو جنوبی ایشیا کی سپر پاور ثابت کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی خود ساختہ ڈرامہ رچا کر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے ۔

حال ہی میں پلوامہ کا ڈرامہ رچاکر اس کی فضائیہ نے پاکستان میں دراندازی کی کوشش کی جسے ہماری فضائیہ کے جوانوں نے بھاگنے پر مجبور کردیا اور اس کے اگلے دن پاک فضائیہ نے دشمن بھارت کے دو جنگی طیاروں کو فضا میں اڑا دیا جو دراندازی کرکے پاکستان کی حدود میں داخل ہوچکے تھے، جس کے نتیجے میں دوبھارتی پائلٹ جنم رسید ہوگئے جب کہ ایک پائلٹ کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا ہے ۔

بھارت کی پاکستان دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے،کانگریس نے انتہائی مجبوری کے عالم میں برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کا مطالبہ تسلیم کیا تھا جسے آج تک بھارت اور اس کے ہمنوا ہضم نہیں کرسکے ہیں ۔ اس وقت کانگریسی لیڈروں کا دعویٰ تھا کہ پاکستان اپنا وجود چند سال سے زیادہ قائم نہیں رکھ سکے گا اور بالآخر پاکستان اپنے آپ کو بھارت میں ضم کرنے پر مجبور ہوجائے گا ، لیکن دنیا دیکھ رہی ہے پاکستان ایک آزاد خود مختار اور ایٹمی طاقت ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت پاکستان سے کھل کر جنگ کرنے سے کتراتا ہے، صرف بزدلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکانے کی کوشش کرکے اپنے عوام کو بہکاتا رہتا ہے ۔ پاکستان امن پسند ملک ضرور ہے لیکن اپنے دفاع سے غافل بھی نہیں ہے دشمن کو بروقت جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے جس کا ایک نظارہ دنیا دیکھ چکی ہے جب پاک فضائیہ کے طیاروں نے دشمن کے دونوں طیاروں کو نشانہ بناکر عبرت ناک انجام تک پہنچایا اور اب بھارتی سیاست دان جنگ سے گریزکرنے کی باتیں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ، یہ وہی بات ہوگئی کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

نئی نسل کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ایل کے ایڈوانی بھارت کے سینیئر سیاست دان گزرے ہیں، موصوف بارہا اس بغض کااظہارکرچکے تھے کہ وہ بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش کی کنفیڈ ریشن بنائے جانے کی حمایت کریں گے، جب یورپی ممالک ماضی کی رقابتیں چھوڑکر یورپی یونین قائم کرسکتے تو پھر ہم تینوں ملک کیوں نہیں؟اگرچہ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کی کنفیڈریشن کا خواب ایل کے ایڈوانی دیکھتے دیکھتے اس دنیا سے گزرگئے لیکن درحقیقت پاکستان اور بھارت کو یکجا کرنے کی حسرت گاندھی جی کو تھی اور یہی حسرت ان کی موت کا سبب بنی،اس طرح دل کے ارمان خون جگر میں بہہ گئے ۔

ایک انگریزی کتاب ’’ فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘‘ میں درج ہے کہ ایک بارگاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’اب یہ حسرت ہے کہ میں ہندوستان کو دوبارہ متحد دیکھوں، میری خواہش ہے کہ لاکھوں ہندوؤں کو ادھر سے اپنے ساتھ لے جاؤں اور پاکستان چھوڑ آؤں اور وہاں سے لاکھوں مسلمانوں کو ساتھ لے آؤں ، اس طرح یہ سرحد ختم کردوں جو ہندوستان کو تقسیم کررہی ہے ‘‘ لیکن گاندھی جی کی منافقانہ خواہش ان کی اپنی جان کے لیے خطرہ بن گئی۔

نتھو رام گوڈسے،گاندھی جی کو مسلمانوں کا ہمدرد جاننے لگا تھا اور اس نے جنوری کے مہینے میں گاندھی جی کو ان ہی کی خواہش کی پاداش میں ان کی پراتھنا کی جگہ مجلس کے دوران پستول کی گولیوں سے ان کو نشانہ بنایا اور وہ وہیں ہلاک ہوگئے چناچہ نتھو رام گوڈسے کو پھانسی دے دی گئی ۔ نتھورام گوڈسے نے وصیت کی کہ اس کی لاش کو جلانے کے بعد راکھ اور ہڈیاں گنگا میں نہ بہائی جائیں بلکہ جب میری قوم پاکستان کو ختم کردے اور ہندوستان دوبارہ متحد ہوجائے تو میری اس راکھ کو دریائے سندھ کے دہانے پر بکھیر ا جائے تاکہ پاکستان کی ساری سرزمین دوبارہ پوتر (پاک) ہوجائے ۔

وصیت کے مطابق نتھورام گوڈسے کی راکھ اس کے بھائی گوپال داس گوڈسے کے پاس بطور امانت رکھوادی گئی ۔ (واضح رہے کہ گوپال داس گوڈسے کا بھی انتقال ہوچکا ہے ) گوپال داس گوڈسے نے اپنے مکان کے ایک کمرے کی دیوار پر متحدہ ہندوستان کا نقشہ بنوایا ہے ۔ نومبرکے مہینے میں بھارت کے نوجوان نتھورام گوڈسے کی ہڈیاں اور راکھ کی زیارت کرنے آتے ہیں اور مرتبان کے سامنے متحدہ ہندوستان کے نقشے پر نظرگاڑکرکہتے ہیں ’’ اے نتھو رام گوڈسے ! ہم تیرا وچن پورا کریں گے، پاکستان کو توڑ دیں گے اور بھارت کو پھر سے متحد کریں گے ۔‘‘

پاکستان کے بدخواہ اس ملاپ کو اکھنڈ بھارت اور کنفیڈریشن کا نام دیتے ہیں۔ تاریخ ایک بار نہیں کئی مر تبہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ان الفاظ کو سچ ثابت کرچکی ہے کہ مسلمانوں کا مذہب ، رسم و رواج ،ان کی معاشرتی رسوم ، نظریات یہاں تک کہ لباس تک ہندوؤں سے مختلف ہے اور یہی پہلو ایک آزاد، خود مختار اور نظریاتی ریاست کے قیام کا جواز فراہم کرتا ہے۔

قائد اعظم کی اس ٹھوس دلیل (جس کے تحت انگریز سامراج لاجواب ہوگیا تھا اور انھیں مجبورا پاکستان کے قیام کا اعلان کرنا پڑا تھا ) کو بے معنی اور بے کار اور لاحاصل ثابت کرنے کے لیے بھارت تقریبا چار عشروں سے پاکستان پر اپنی ثقافتی جنگ کو مسلط کیے ہوئے ہیں اور اس جنگ کو جیتنے کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے ۔ایک مرتبہ بھارت کے سابق وزیراعظم راجیوگاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی نے بھی جمعہ 8 مارچ 1996ء کو بمبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقدہ ایک سیمینار میں ’’ جدید جنگ اور ہم‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ ’’ ہم نے پاکستان میں اپنی ثقافت متعارف کروا کر ایک ایسی جنگ جیتی ہے، جو ہتھیاروں سے جیتنا ناممکن تھی ہم نے پاکستان پر ثقافتی یلغارکی ہے جس نے پاکستان کی بنیادوں کوکھوکھلا کردیا ہے ۔

برصغیر پاک وہندکو چند مذہبی جنونیوں نے اپنے مقاصد کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا تھا ، ہم نے اس اسلامی ملک میں اپنی ثقافت متعارف کروا کر دو قومی نظریے کو پاش پاش کردیا ہے ۔‘‘ اگرچہ اس بیان کے شایع ہونے کے ایک ہفتے بعد راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کے مشیرکرشنا راؤ نے سونیا گاندھی سے منسوب اس خبر کی تردید کی کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ برصغیر پاک و ہند کو چند مذہبی جنونیوں نے اپنے مقاصد کے لیے دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا تھا بلکہ ہندوؤں کی مسلمانوں کے ساتھ تنگ نظری اور ہر سطح پر مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا امتیازی رویہ تھا جو آج تک بھارت ان کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں اور بالآخر یہی امتیازی رویہ برصغیر کو تقسیم کرنے کا سبب بنا۔

بھارت اب بھی اپنے اس قدیمی امتیازی رویے اور مسلمانوں کے لیے تعصب زدہ پالیسی اور مسلم کش دہشت گردی سے باز نہیں آتا ہے تو کوئی بعیدکہ بھارت کے مسلمان ایک بار پھر دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کریں۔ یہ پروپیگنڈہ کبھی بھی درست ثابت نہیں ہوسکتا کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہوگیا ہے ، اگر ایسا ہوتا تو مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن جانے کے بجائے بھارت کا حصہ بن جاتا کیونکہ دو قومی نظریے سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں صرف دو ہی قومیں آباد ہیں ایک مسلم اور دوسری غیر مسلم، چونکہ اللہ پاک کا فرمان ہے کہ مسلم کے مقابلے میں تمام غیر مسلم متحد ہوجاتے ہیں ( جس کا نظارہ ہم سب کر رہے ہیں ) لٰہذا دنیا میں جب تک ایک بھی مسلمان زندہ رہے گا ، دو قومی نظریہ بھی برقرار رہے گا ۔

ہاں البتہ بھارت کا نام نہاد سیکولر ازم چھ دسمبر 1992ء کو پاش پاش ہوگیا تھا جب بھارت کے لاکھوں انتہا پسند ہندوؤں نے بھارتی حکومت کے چھتری تلے 1528ء کی تعمیر شدہ تاریخی بابری مسجدکو شہید کرکے عالم اسلام کے دینی جذبات کو نہ صرف مجروح کیا تھا بلکہ بھارتی سیکولر ازم کو شہید بابری مسجد کے ملبے کے نیچے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔