عمل سے قبل سوچ کا فقدان، عمران بعض ’مشوروں‘ پرالجھنوں کاشکار

تنویر قیصر شاہد  ہفتہ 3 اگست 2013
عام انتخابات کے حوالے سے شکوک بجا،حساس معاملات پرمحتاط لہجہ اختیارکرنا ہوگا  فوٹو: فائل

عام انتخابات کے حوالے سے شکوک بجا،حساس معاملات پرمحتاط لہجہ اختیارکرنا ہوگا فوٹو: فائل

اسلام آ باد:  یوں لگتا ہے جیسے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جنھوں نے واقعی معنوں میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دے کر ملک بھر میں نام اور اکرام کمایا ہے،اپنے بعض مشیروں کے مشوروں میں کچھ زیادہ ہی گھر گئے ہیں۔

اُن کے بعض اقدامات، جن کے بارے میں اندازہ ہے کہ عمل سے قبل زیادہ سوچ بچار نہیں کیاگیا، سے خود عمران خان گھمبیر الجھنوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کی آمد کے موقع پر عمران خان نے بیان دیاتھا کہ میں اُن سے امریکی سفارت خانہ میں نہیں ملوں گا۔ اِس بیان پر اُن کے بہی خواہوں اور عشاق نے اُن کی بلائیں تو یقیناً لیں لیکن اُس وقت ملک بھر کے عوام ششدر رہ گئے جب اُنہوں نے دیکھاکہ عمران خان مسکراتے ہوئے جان کیری سے ملاقات کررہے ہیں۔ اِس حوالے سے اخبارات میں اُن کی تصاویر بھی شائع ہوئی ہیں۔ اِس پس منظر میں پی ٹی آئی کی طرف سے وضاحت نما بیان آیا ہے کہ عمران خان نے امریکی وزیرِ خارجہ سے ملاقات تو یقیناً کی ہے لیکن یہ ملاقات اسلام آباد میں بروئے کار امریکی سفارت خانے میں نہیں بلکہ امریکی سفیر کے گھر میں ہوئی ہے ۔ یہ وضاحت سننے اور دیکھنے والوں کو حیران کرگئی ہے کہ سب جانتے ہیں کہ امریکی سفارت خانے کے کمپائونڈ ہی میں امریکی سفیر کی رہائش گاہ ہے تو پھر امریکی سفارتخانہ اور امریکی سفیر کے گھر میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ عمران خان کا اپنے اعلان کے برعکس یہ اقدام اور پی ٹی آئی کی وضاحت ابھی تک وفاقی دارالحکومت میں ٹاک آف دی ٹائون بنی ہوئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر عمران خان امریکی سفارت خانہ سے وابستہ کسی بھی سینئر یا جونیئر سفارت کار کے گھر میں جان کیری سے ملتے تو اسے بھی امریکی سفارت خانہ میں کی گئی ملاقات سمجھا جاتا۔ اسی طرح سارے ملک نے دیکھا کہ صدارتی انتخاب کے موقع پر عمران خان نے کہاکہ میں اِس کا بائیکاٹ کرنا چاہتاتھا لیکن بزرگ ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین (جوصدارت کے دوسرے بڑے امیدوار تھے) کی ایما اور اُن کے کہنے پر ہم صدارتی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہرطرف سے سوال اُٹھایاگیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو آخر یہ وضاحتی بیان جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا وہ خفت مٹاناچاہتے تھے؟ یعنی رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ عمران خان کو گیارہ مئی کے عام انتخابات کے حوالے سے بعض تحفظات ہیں۔ اس بارے میں اُن کے شکوک بجانظر آتے ہیں اور وہ مطالبہ کرتے سنائی دیتے ہیں کہ اُن کے نشان زد حلقوں کی تحقیقات کروائی جائے تاکہ ’’آئندہ انتخابات میں دھاندلی سے محفوظ رہا جاسکے۔‘‘

اس مطالبے میں اُن سے منسوب ایک جملے کی بنیاد پر عدالتِ عظمیٰ نے اُنہیں توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ عمران خان نے اس حوالے سے گزشتہ روز ’’ایکسپریس نیوز‘‘ کے پروگرام ’’کل تک‘‘ میں جس طرح ’’جرات مندانہ‘‘ بیانات دیئے ہیں ، وہ ان کے چاہنے والوں کے دل تو گرماگئے ہوں گے لیکن یاد رکھاجائے کہ یہ معاملہ چونکہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں ہے اِس لئے اس کی حساسیت کے پیش نظر بیان دینے والوں کو انتہائی محتاط لہجہ اختیارکرنا ہوگا کہ عدالت پر کسی کی طرف سے بھی کوئی چھینٹا اُڑانا نہ صرف عدالت بلکہ ملک بھر کے استحکام کو دائو پر لگانے کے مترادف ہوگا۔ عمران خان نے عام انتخابات سے قبل جو بلند وبانگ دعوے کئے تھے ، اُن میں عمل کا رنگ بھرتا ہوا بھی نظر نہیں آرہا باوجود یہ کہ خیبرپختونخوا میں اُن کی پارٹی کے اقتدار کا پرچم لہرارہا ہے۔ اس صوبے میں پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ معاملات کو کس طرح چلارہے ہیں، اس کا اندازہ طالبان کے ہاتھوں ڈیرہ اسماعیل خان کی سنٹرل جیل کے ٹوٹنے پر اُن کے تبصروں سے لگایاجاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔