نہ ہوا رافیل ورنہ... نریندر ’خوجی‘ کی بوکھلاہٹ اور میگا کرپشن

علیم احمد  بدھ 6 مارچ 2019
رافیل طیارے نہ ہونے کا شکوہ کرکے نریندر مودی نے اپنی ہی میگا کرپشن کی طرف عوام کو متوجہ کردیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

رافیل طیارے نہ ہونے کا شکوہ کرکے نریندر مودی نے اپنی ہی میگا کرپشن کی طرف عوام کو متوجہ کردیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کچھ دن پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں موصوف فرما رہے تھے کہ اگر ’’ہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے تو نتائج کچھ اور ہوتے…‘‘ جسے پڑھ کر ’’فسانہ آزاد‘‘ کے مزاحیہ کردار ’’خوجی‘‘ کی یاد آگئی۔ جی چاہا کہ نریندر مودی کا نام بدل کر ’’نریندر خوجی‘‘ کردیا جائے – کیا کریں کہ مودی جی بھی خوجی کی طرح غیض و غضب کے عالم میں بعض اوقات ایسی ایسی ہانک دیتے ہیں کہ بے اختیار قہقہہ لگانے کو دل کرتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے مودی کے وجود میں خوجی بول رہا ہو۔

مودی صاحب کے ’’رافیل طیارے ہوتے تو…‘‘ میں خوجی کا مشہور مکالمہ یاد آگیا جو وہ بار بار دہراتے تھے: ’’نہ ہوئی قرولی ورنہ ایک کے دو اور دو کے چار کردیتا!‘‘

ویسے مودی جی، فسانہ آزاد والے خوجی کی طرح پست قد، دبلے پتلے اور کمزور تو نہیں لیکن بڑ بولے ضرور ہیں۔ خوجی کے پس منظر سے متعلق رتن ناتھ سرشار نے کچھ زیادہ نہیں لکھا لیکن مودی جی کا ماضی اور حال سب کے سامنے ہے – ہندوتوا کے پرچار اور گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام سے لے کر مودی سرکار تک، ان کی حرکات و سکنات اور چال چلن، سب سے ایک دنیا واقف ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’نہ ہوئے رافیل طیارے‘‘ کہہ کر نریندر خوجی نے اپنی سرکاری بے بسی کی دُہائی نہیں دی بلکہ بین السطور یہ شکوہ کیا ہے کہ انہیں ایک اہم سرکاری ٹھیکے میں کمیشن بنانے اور اپنی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ مضبوط کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ کتنی عجیب بات ہے کہ راہول گاندھی اپنی انتخابی مہم میں بار بار یہ جتا رہے ہیں کہ مودی نے رافیل طیاروں کے ٹھیکے میں ہندوستانی عوام کے 30 ہزار کروڑ روپے (300 ارب بھارتی روپے) اپنے دوست انیل امبانی کی ’’جیب میں‘‘ ڈال دیئے۔ اب اگر نریندر خوجی اس سوال کا جواب سچ سچ دے دیتے تو وہ اور ان کی پارٹی، ہندوستانی سیاست سے بیک بینی و دو گوش باہر ہوتے؛ اس لیے وہ اپنی صفائی میں ایک ایسی وضاحت پیش کررہے ہیں جو اُن کی اپنی نفرت انگیز شخصیت پر مزید کالک پوت رہی ہے… ایک ایسی توجیح جو معمولی سی چھان بین کے بعد یکسر غلط ثابت ہوجاتی ہے۔

آزادانہ ذرائع سے معلومات یکجا کرنے اور کھنگالنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ راہول گاندھی کے بیان میں خاصا وزن ہے۔ فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی ’’ڈسالٹ‘‘ سے رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کے بھارتی معاہدے میں مودی سرکار کا کردار واقعی بہت مشکوک ہے۔ قبل ازیں 2012 میں یہ معاہدہ کانگریسی اتحادی حکومت (یو پی اے گورنمنٹ) کے زمانے میں کیا گیا تھا جس میں ایک رافیل طیارے کی قیمت 526 کروڑ 10 لاکھ بھارتی روپے مقرر کی گئی تھی جبکہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی شقوں کے تحت بھارتی سرکاری اداروں ’’ہندوستان ایئروناٹکس لمیٹڈ‘‘ (HAL) اور ’’ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن‘‘ (DRDO) کو اس منصوبے میں ہندوستان کی طرف سے شریک کیا جانا تھا۔ اصل معاہدے کی رُو سے، بھارتی حکومت اپنی فضائیہ کےلیے 126 رافیل طیارے خریدنا چاہتی تھی جبکہ اس معاہدے کی مجموعی لاگت تقریباً 663,000 کروڑ بھارتی روپے تھی۔

2014 کے انتخابات میں بی جے پی کی اتحادی حکومت (این ڈی اے گورنمنٹ) وجود میں آئی جس نے پہلے تو سابقہ حکومت کا مذکورہ معاہدہ منسوخ کیا اور پھر، کچھ نئی شرائط اور تبدیلیوں کے ساتھ، رافیل طیارے خریدنے کا ایک نیا معاہدہ کیا۔ اس نئے معاہدے کے تحت ایک طرف تو فی طیارہ قیمت بڑھا کر 1570 کروڑ بھارتی روپے کردی گئی تو دوسری جانب ’’ہال‘‘ اور ڈی آر ڈی او کو اس معاہدے سے الگ کردیا گیا۔ یہی نہیں، بلکہ ان دونوں سرکاری اداروں کی جگہ ڈسالٹ کمپنی کی شراکت سے، انیل امبانی کی کمپنی ’’ریلائنس ڈیفنس انڈسٹری‘‘ کو رافیل طیارے سے متعلق ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ 126 رافیل لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں، اس نئے معاہدے کے تحت صرف 36 طیاروں کا آرڈر دیا گیا۔ یوں اس معاہدے کی لاگت بظاہر کم ہوکر 56,520 کروڑ بھارتی روپے ہوگئی لیکن فی طیارہ قیمت، پچھلے معاہدے کے مقابلے میں تین گنا ہوگئی۔ اگرچہ مودی سرکار کے ذمہ داران اپنی پوری طاقت سے اس زائد قیمت کو ’’درست‘‘ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن تکنیکی بنیادوں پر بات بنتی نظر نہیں آرہی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک رافیل طیاروں کی خریداری کا معاملہ اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

اب اگر ہم رافیل طیاروں کی بات کریں تو ان میں جدید ترین ’’رافیل ایم‘‘ (Rafale M) ہے جس کے ایک یونٹ (ایک طیارے) کی قیمت 79 ملین یورو ہے، جو بھارتی کرنسی میں 630 کروڑ روپے بنتی ہے۔ اگر اس قیمت میں اسلحہ اور دیگر متعلقہ ساز و سامان بھی شامل کرلیا جائے تو یہ زیادہ سے زیادہ 1000 کروڑ بھارتی روپے بنیں گے۔ ایسے میں مودی سرکار کی جانب سے فی طیارہ 1570 کروڑ روپے دینے کا معاہدہ شکوک و شبہات کو بجا طور پر ہوا دیتا ہے۔ (واضح رہے کہ بھارت نے ڈسالٹ سے رافیل ای ایچ/ ڈی ایچ لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جو اپنی صلاحیت اور قیمت، دونوں میں رافیل ایم سے بہت کم ہیں۔)

پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ رافیل طیاروں کا معاہدہ حکومتوں کے درمیان تھا، جس میں فرانس کی طرف سے ڈسالٹ کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ بھارت کو یہ لڑاکا طیارے فروخت کرے۔ لیکن دوسری جانب بھارت میں کم و بیش ساری کی ساری دفاعی پیداوار سرکاری اداروں میں ہوتی ہے، لہذا یہاں بھی ہندوستانی سرکاری اداروں کی شراکت لازمی تھی۔ ابتدائی معاہدے میں یہی کیا گیا لیکن مودی سرکار کے معاہدے میں بڑی فراخ دلی سے ڈسالٹ کو اجازت دی گئی کہ وہ رافیل طیاروں سے متعلق ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور شراکت داری کی غرض سے بھارت کے کسی بھی نجی صنعتی ادارے کو اپنا پارٹنر بنا لے۔

امبانی فیملی کا ’’ریلائنس گروپ‘‘ پہلے ہی بھارت میں ڈسالٹ کےلیے کام کررہا تھا لیکن اس کا دائرہ کار بزنس جیٹ طیاروں تک ہی تھا۔ تاہم، اجازت ملتے ہی ڈسالٹ نے رافیل طیاروں کےلیے ’’ریلائنس‘‘ کو اپنا بھارتی پارٹنر بنانے کا اعلان کردیا؛ اور کہا کہ اس نجی ادارے کے تعاون سے وہ بھارت میں 30,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری بھی کرے گا۔ بعد ازاں سابق فرانسیسی صدر فرانکوئے ہولینڈ نے ایک جریدے ’’میڈیاپارٹ‘‘ کو بتایا کہ مودی سرکار نے فرانسیسی حکومت پر دباؤ ڈالا تھا کہ ڈسالٹ کو ہر صورت ’’انیل امبانی کے ریلائنس گروپ‘‘ کو بھارت میں اپنا شراکت دار بنانا ہوگا، ورنہ وہ اس معاہدے کو بھول جائیں۔ بھارتی دفاعی مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب پہلے ’’ہال‘‘ (HAL) اور ’’ڈی آر ڈی او‘‘ (DRDO) جیسے سرکاری اداروں کو اس معاہدے میں شراکت دار بنانا طے کردیا گیا تھا تو نظرِ ثانی شدہ معاہدے میں سرکاری اداروں کو یکسر نظرانداز کیوں کردیا گیا؟

مودی سرکار پر بھارتی سرمایہ دار طبقے کا اثر و رسوخ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت، بھارت کی تمام ہندو انتہاء پسند تنظیمیں اپنے غیر قانونی کاموں کےلیے سرمایہ داروں سے بھاری رقوم وصول کرتی رہتی ہیں۔ لیکن جو سرمایہ دار انہیں بوریاں بھر بھر کر پیسہ دیتا ہے، وہ ان سے اپنے مفادات کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔ ڈسالٹ اور ریلائنس میں معاہدہ اسی سمت اشارہ کررہا ہے۔ باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ مودی جی کو جب پاکستان پر فضائی حملے کے سیاسی نتائج برآمد نہ ہوئے تو وہ انتہائی بے بسی، بے چینی اور بھنّاہٹ کے عالم میں نریندر خوجی بن گئے اور اپنی فضائیہ کے پاس رافیل طیارے نہ ہونے کا شکوہ کر بیٹھے۔ شومیٴ قسمت، کہ یہاں بھی مودی جی نے منہ کی کھائی اور بھارت میں ان ہی کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں جن میں مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ رافیل خریداری معاہدے کی تفصیلات سامنے لائیں۔ مودی سرکار نے اس بارے میں بھی سوال بھی کرنے والوں کو ’’خاموش!‘‘ کہہ دیا ہے کہ یہ ’’ہندوستان کی سلامتی‘‘ کا معاملہ ہے۔

ایک پاکستانی کی حیثیت سے، جو جنگ نہیں امن چاہتا ہے، مودی جی کو صرف یہی مشورہ دینا چاہوں گا کہ جناب! خوجی پن چھوڑیئے اور انسانیت کی جُون میں واپس آجائیے۔ ورنہ آپ کا ’’نہ ہوئی قرولی‘‘ جیسا بیانیہ اس خطے کے علاوہ ساری دنیا کےلیے بھی ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا ہے… اپنے ملک میں ہندو انتہاء پسندوں کے باعث شاید آپ الیکشن بھی جیت جائیں لیکن بہت زیادہ ’’بے عزتی خراب‘‘ ہوجائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔