مثبت کتابیں زندگی بدلنے کا شاندار ذریعہ ہیں ، عاطف مرزا

حسان خالد  منگل 5 مارچ 2019
خوش ہونے کو ملتوی نہ کریں، راتوں رات کامیابی کا تصور جھوٹ ہے ، پرسنل ڈویلپمنٹ ٹرینر اور مصنف عاطف مرزا کے خیالات

خوش ہونے کو ملتوی نہ کریں، راتوں رات کامیابی کا تصور جھوٹ ہے ، پرسنل ڈویلپمنٹ ٹرینر اور مصنف عاطف مرزا کے خیالات

صحافت میں ایم اے کرنے کے بعد عاطف مرزا نے مختلف نجی یونیورسٹیوں میں بطور محقق کام کیا، پھر کچھ عرصہ سرکاری ادارے سے وابستہ رہے۔ اس دوران ان کی زندگی میں ایک ٹرننگ پوائنٹ آیا، جس کے متعلق وہ بتاتے ہیں، ’’میں دیکھتا تھا کہ لوگ اپنے کام میں بوریت محسوس کرتے ہیں، وہ پرسکون اور خوش ہونے کے لیے ویک اینڈ یا چھٹی کا انتظار کرتے ہیں۔

ان رویوں کا اثر مجھ پر بھی پڑ رہا تھا۔ جب کام کی جگہ پر ان رویوں کے بارے میں تحقیق کی تو پتا چلاکہ ایک لفظ پیشن (passion) ہوتا ہے، جب آپ ایسا کام کرتے ہیں جو آپ کا پیشن ہے تو آپ کو بوریت محسوس نہیں ہوتی بلکہ آپ اپنے کام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس طرح مجھے احساس ہوا کہ جو کام میں اس وقت کر رہا تھا وہ دل سے نہیں کر رہا۔ پھر میں نے سیلف امپرومنٹ لٹریچر پڑھا، جس نے میرے سوچنے کا انداز اور زندگی کو بدل دیا۔ میں نے سوچا کہ جس لٹریچر نے میری زندگی بدلی ہے، اس کی مدد سے دوسروں کی زندگیوں کو بھی بدلا جائے، اس طرح میں ٹریننگ کے شعبے میں آ گیا۔‘‘

خوشی اورکامیابی کی جدید سائنس پر عاطف مرزا کا مطالعہ قابل قدر ہے۔ انہوں نے اپنے ٹریننگ سیشنز اور ورکشاپس میں ہیومن پوٹینشل کے جدید tools اورstrategies کو شامل کیا ہے، جس کے متاثرکن نتائج سامنے آئے ہیں۔ ان کے بقول، ’’پاکستان میں ٹریننگ کا شعبہ نسبتاً نیا ہے، اس موضوع پر زیادہ معیاری کتابیں باہر شائع ہو رہی ہیں۔ ویڈیوز بھی دستیاب ہیں۔ اس طرح سیکھنا اور سکھانا آسان ہو گیا ہے۔ اب ہمارے ہاں بھی اچھا سیلف ہیلپ لٹریچر دستیاب ہے۔ مثبت کتابیں زندگی کو بدلنے کا شاندار ذریعہ ہیں، ان سے آپ کو نئی سوچ، نئے خیالات ملیں گے۔ آپ کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہمت اور توانائی ملے گی۔ ان کتابوں سے آپ کو رول ماڈل ملیں گے۔ روزانہ کچھ وقت مثبت کتابوں کے مطالعے کے لیے نکالیں۔ ان کے نوٹس بنائیں، ان نوٹس کو بار بار پڑھیں۔ ان خیالات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ جن مسائل سے آپ گزر رہے ہیں، آپ سے پہلے بے شمار لوگ ان کو کامیابی سے حل کر چکے ہیں۔ ان کے حل پر شاندار کتابیں اور علم موجود ہے۔ ذاتی یا پیشہ ورانہ زندگی کے جس پہلو کو آپ بہتر بنانا چاہتے ہیں، اس کے لیے کوئی رہنما (mentor) ضرور ڈھونڈیں، جو تلاش کرنے سے آپ کو مل جائے گا۔‘‘

عاطف مرزا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ لوگ اپنے پورے پوٹینشل کے مطابق کام کریں اور اپنے کام میں بہتری (excellence) کی پالیسی اختیار کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اپنے معیار خود طے کریں۔ ان کے مطابق، ’’پرسنل ڈویلپمنٹ کا اہم اصول یہ ہے کہ اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی کے لیے اعلیٰ معیار طے کریں اور پھر اسے ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے لیے کوئی معیار طے نہیں کرتے ۔ ’’گزارے والا‘‘ کام کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ساری زندگی ایک معمولی یا اوسط سطح پر گزار دیتے ہیں۔

اگر آپ ملازمت کرتے ہیں تو ایسا کام کریں جس پر آپ فخر کر سکیں، جو آپ کی پہچان اور شناخت بنے۔ آپ اپنی ذات پر محنت کریں، وہ رویئے اپنائیں جو ترقی اور کامیابی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ جیسے دیانت داری سے کام کرنا، وقت ضائع نہ کرنا، کام کی جگہ پر خوشگوار تعلقات بنانا، دوسروں کے کام آنا، خوش دلی سے کام کرنا، اپنی پوری قابلیت اور صلاحیتوں کو استعمال میں لانا، اپنی سکلز کو بہتر بناتے رہنا اور بہترین سے کم پر سمجھوتہ نہ کرنا۔ عام لوگ ایکسی لینس کی پالیسی پر عمل نہیں کرتے، ان کے پاس بے شمار بہانے ہوتے ہیں۔ یہ کمپنی یا مالکان اچھے نہیں۔ یہاں اچھے کام کی کوئی اہمیت نہیں، یہاں سب برابر ہیں۔ کسی بہانے کو بنیاد بنا کر پیچھے مت ہٹیں۔ اپنی محنت کو اپنے مستقبل کے لیے سرمایہ کاری سمجھیں۔ یاد رکھیں کہ آپ نے اپنی زندگی میں آج سے کوالٹی لانی ہے، اپنے رویوں کو آج سے بہتر بنانا ہے، پھر آپ کو اچھے نتائج ملیں گے۔‘‘

عاطف مرزا سمجھتے ہیں کہ منفی خیالات سے لوگ خود کو بے بس اور بے اختیارمحسوس کرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں میرٹ پر کوئی کام نہیں ہوتا، رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں، ریفرنس اور سفارش کے بغیر کام نہیں بنے گا، ان منفی سوچوں سے آپ اپنے آپ کو ہپناٹائز کر لیتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں جب آپ مثبت خیالات ذہن میں بٹھاتے ہیں جیسے ٹیلنٹ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا، محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے، کم وسائل کے باوجود ترقی کی جا سکتی ہے تو اس طرح کے مثبت انداز فکر سے آپ مایوسی اور بے بسی کی سوچ سے بچ جاتے ہیں۔ یہ طرز فکر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ اپنے لیے موزوں شعبے کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ اس کے بارے میں کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنے لیے ایسا کام تلاش کرنا ہے جسے ہم خوش دلی سے کر سکیں، اپنے پروفیشن کا انتخاب کرتے ہوئے دو باتوں کو مدنظر رکھا جائے: پہلی چیز آپ کی شخصیت ہے۔ ہمیں اپنی خوبیوں کو پہچاننا ہو گا۔ اس کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ ایسی کتابیں، ٹولز اور ادارے موجود ہیں جو اس حوالے سے آپ کو قیمتی معلومات دے سکتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کو نئے تجربات سے گزرنا اچھا لگتا ہو یا آپ کو روٹین کی ملازمت زیادہ پسند ہو۔ ہو سکتا ہے آپ کو سماجی سرگرمیاں، لوگوں سے میل جول پسند ہو یا آپ اکیلے کام کرنا یا پڑھنا پسند کرتے ہوں۔ اپنے بارے میں بے شمار باتوں کا ہمیں اس وقت پتا چلے جب اپنی شخصیت کو سمجھنے کے لیے رہنمائی لیں گے۔ شخصیت کے بعد دوسری اہم چیز ٹیلنٹ کی تلاش ہے۔ آپ جن کاموں کو آسانی سے اور دوسروں سے بہتر کر سکتے ہیں، وہ آپ کے پیدائشی ٹیلنٹ ہیں۔ آپ کو اپنا ٹیلنٹ ڈھونڈنا اور مزیڈ ڈویلپ کرنا ہے۔ یاد رکھیں کہ آپ اسی کام میں ٹاپ پر جا سکتے ہیں، خوش رہ سکتے ہیں، کامیاب اور معاشی لحاظ سے بہترین ہوسکتے ہیں جو آپ کی شخصیت اور ٹیلنٹ کے مطابق ہو۔ فلاں شعبے میں چلے جاؤ اس میں بہت پیسہ ہے، یہ سب سے بری کیریئر ایڈوائس ہے۔ یہ پرانی سوچ ہے اور آج کے دور کے لیے مفید نہیں۔ دنیا بدل چکی ہے۔ یہ اعلیٰ کارکردگی دکھانے والوں کو مواقع دیتی ہے۔‘‘

1976ء میں لاہور میں آنکھ کھولنے والے عاطف مرزا کا آبائی تعلق گجرات سے ہے۔ ایک بہن اور چار بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا ہے۔ 2006ء میں شادی ہوئی۔ دو بیٹوں زبیر، فائز اور ایک بیٹی مسفرہ کے مشفق والد ہیں۔ والد چیف انسپکٹر ریوینو بورڈ پنجاب تھے۔ اپنی زندگی میں والد کے کردار کے بارے میں بتاتے ہیں، ’’انسان کا کردار اور دیانت داری بڑی اہم اقدار ہیں، جن پرکبھی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اقدار میں نے اپنے والد سے سیکھی ہیں، وہ ہمارے لیے رول ماڈل تھے کہ گورنمنٹ سروس میں رہتے ہوئے پوری دیانت داری کے ساتھ اور عزت سے ملازمت کی۔‘‘ وہ لاہور کے مقبول سیلف امپرومنٹ بک کلب کے بانیوں میں سے ہیں، جس کا پاک ٹی ہاؤس میں ہر مہینے اجلاس ہوتا ہے۔ ہر مرتبہ کوئی مقرر اپنی کسی پسندیدہ سیلف ہیلپ کتاب کا تعارف پیش کرتا ہے، اس اجلاس میں شرکت کے لیے دوسرے شہروں سے بھی لوگ آتے ہیں۔ پانچ سال سے زیادہ عرصے میں اس بک کلب کے اب تک 66 اجلاس ہو چکے ہیں۔

انہوں نے سافٹ سکلز کے بارے میں ایک سمیسٹر پر مشتمل کورس بھی مرتب کیا ہے، جسے پنجاب یونیورسٹی میں BS اور MSc کی کلاسز کو پڑھا رہے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر، پبلک اور تعلیمی اداروں میں سیشنز سے دوسرے لوگوں کو بھی مستفید کرتے ہیں۔

نوجوانوں کو ان کا پیغام یہ ہے کہ وہ بہادری سے فیصلے کریں، جب آپ چل پڑتے ہیں تو راستہ نظر آ جاتا ہے، زندگی میں رسک لینا ہی پڑتا ہے، ورنہ آپ کو زندگی بھر پچھتاوا رہے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’جو آپ کے اندر سے بار بار آوا ز آتی ہے، اسے ضرور کریں، کامیابی آپ کو پلیٹ میں رکھی ہوئی نہیں ملے گی، راتوں رات کامیابی کا تصور جھوٹ ہے، لیکن مسلسل سیکھنے اور محنت سے آپ اپنی پسند کے شعبے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ فیس بک کا مالک کہتا ہے کہ فیس بک اس کا پہلا پروڈکٹ نہیں ہے، پہلے میوزک پلیئر بنایا اورچیزیں بنائیں، پھر فیس بک بنائی، پھر دوستوں نے اسے بیچنے کا مشورہ دیا لیکن اس نے کہا یہ میرا شوق ہے میں کیسے چھوڑ دوں، وہ کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ساری دنیا کو آپس میں ملاؤں گا۔ اس نے تو ایک ادارے کے لوگوں کے لیے بنائی تھی۔ لیکن جب بندہ چلتا رہتا ہے تو راستہ مل جاتا ہے، باہر بیٹھ کے آپ نہیں سوچ سکتے، آپ کو میدان میں اترنا پڑتا ہے، پھر چیزیں بہتر ہوتی ہیں۔‘‘

’’خوشی صرف منزل پر پہنچنے کا نام نہیں‘‘
اگر آپ آج خوش اور شکرگزار نہیں ہیں تو آنے والے دنوں میں بھی آپ کو خوشی ملنے کا امکان کم ہے۔ خوشی کا احساس ہی مزید خوشی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اپنے پاس موجود نعمتوں کی قدر کریں، شعوری کوشش کریں اور اپنا جائزہ لیں کہ زندگی میں کیا اچھا چل رہا ہے۔ یہ شکر گزاری کا مائنڈ سیٹ آپ کو منفی سوچ سے بچاتا ہے اور آپ کے لیے مزید ترقی ممکن بناتا ہے۔ ہمارے لوگ انتظار کی کیفیت میں ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ وہ آج خوش نہیں ہوں گے بلکہ خوش ہونے کے لیے حالات کے پرفیکٹ ہونے کا انتظار کریں گے۔

ہم اپنے لیے ایسا کام یا پروفیشن منتخب کر لیتے ہیں جو ہمیں ناپسند ہوتا ہے۔ وہ صرف ہمارے معاشی مسائل کا حل ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں خوشی ملتی ہے یا نہیں، یہ ہم سوچتے ہی نہیں۔ ہم ہر وقت اس کام سے فرارکا راستہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ہم نے بچوں پر یہ سوچ مسلط کر دی ہے کہ وہ پڑھائی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے کرتے ہیں۔ ہمیں بچوں کو سکھانا ہے کہ پڑھائی گریڈ یا نمبروں کے لیے نہیں، یہ صرف اچھی ملازمت کے حصول کے لیے بھی نہیں بلکہ علم اس لیے حاصل کریں کہ یہ طاقت ہے جو آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ تعلیم آپ کو مضبوط بنائے گی، آپ کی نشوونما کرے گی، آپ کی شخصیت اورکردار کو نکھارے گی، آپ کی خوبیوں میں اضافہ کرے گی۔ جب آپ بچوں کو یہ سوچ اور رویے دیں گے تو وہ اپنی پڑھائی اور تعلیم کے دنوں سے بھی لطف اٹھائیں گے۔

خوشی کے متعلق یہ رویہ ہی غلط ہے کہ اسے کسی آنے والے وقت سے جوڑ دیا جائے۔ خوشی کو موجودہ لمحے میں ہی پیدا (Create) کیا جاتا ہے۔ خوش ہونے کو ملتوی نہ کریں، زندگی کو ملتوی نہ کریں۔ اپنی زندگی میں آپ جو تبدیلی چاہتے ہیں اس کے لیے دل و جان سے کوشش کریں۔زندگی کے ہر شعبے کے حوالے سے اہداف متعین کریں جیسے خاندانی اور سماجی زندگی، تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے متعلق اہداف۔ ان پر دیانت داری سے کام کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں۔ اس طرح آپ اس سفر سے بھی لطف اندوز ہوں گے، آپ صرف منزل پر پہنچ کر خوش ہونے کا نہیں سوچیں گے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خوشی یا کامیابی اصل میں منزل نہیں بلکہ سفر کا نام ہے۔ خوشی حاصل کرنے کے لیے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا سیکھیں۔ ہر وقت بارٹرسسٹم کے تحت نہ چلیں کہ میں دے کیا رہا ہوں اور بدلے میں مجھے کیا مل رہا ہے۔ جب دوسروں کی زندگیاں آپ کی وجہ سے بہتر ہوتی ہیں تو آپ کی اپنی زندگی کی کوالٹی بھی بہتر ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔