پہلے اپنا صوبہ تو سنبھالیے حضور!

 ہفتہ 3 اگست 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

31 جولائی کو اس خبر نے ہلا کر رکھ دیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر جدید ترین اسلحے سے مسلح اور نائٹ گاگلز سے لیس دہشت گردوں نے دھاوا بولا اور اپنے ساتھ 248 قیدیوں کو چھڑا کر لے گئے جن میں سے درجنوں نہایت خطرناک تھے۔ بہت کچھ برا بھلا ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو کہا گیا جنھوں نے اس حملے کی پیشگی اطلاع خیبرپختونخوا حکومت کو نہیں دی۔ پھر صوبے کے وزیر اعلیٰ کا وہ بیان نظر سے گزرا جس میں انھوں نے ڈیرہ جیل واقعے میں بہت بڑا ہاتھ ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا اور اسے انٹیلی جنس کی کمزوری سے تعبیر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں تو پھر اتنے لوگ وہاں کیسے پہنچے جو دو سو سے زائد قیدیوں کو چھڑا کر لے گئے۔ انھوں نے کہا کہ اگر محکمہ جیل خانہ جات کو دھمکیوں کا کوئی خط موصول ہوا تھا تو اسے ان کے نوٹس میں لانا چاہیے تھا۔ انھوں نے شکایت کی کہ وفاقی حکومت نے تا حال اس ایشو پر بات کرنے کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

ان ابتدائی خبروں کے بعد کچھ اور خبریں سامنے آنے لگیں لیکن ان کے تذکرے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ 1857کے بعد جب ہندوستان پر ملکہ وکٹوریہ کا راج ہوا تو برطانوی افسروں نے اپنی عملداری کو مستحکم کرنے کے لیے جہاں بہت سے تعمیراتی کام کیے، وہاں دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جیل تعمیر کی اور اس میں پتھریلی چٹانوں سے تراش کر بنایا ہوا ایک پیل پیکر دروازہ نصب کرایا۔ دروغ بر گردن راوی، اس کی مضبوطی کے امتحان کے لیے اس پر ایک توپ سے گولے بھی داغے گئے لیکن بارود کی یہ بارش اس سنگی دروازے کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔

اس جیل خانے کا شمار پاکستان کی اہم جیلوں میں ہوتا ہے اور جب سے ملک پر دہشت گردی کا آسیب مسلط ہوا ہے ملک کی دوسری جیلوں کی طرح یہاں بھی درجنوں اہم دہشت گرد قید کیے گئے ہیں۔ بنوں اور سکھرجیل کے واقعات کے بعد 27 جولائی 2013 کو ملکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے علاقے کے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ڈی آئی جی پولیس، ڈی پی او اور ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل کے ایس پی کے نام خفیہ خطوط بھیجے گئے جن پر ’’انتہائی اہم‘‘ اور ’’فوری کارروائی کے لیے‘‘ تحریر تھا۔ اس خط میں لکھا گیا تھا کہ ’’ہمیں ذمے دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مستقبل قریب میں ڈی آئی خان سینٹرل جیل پر اسی انداز سے حملہ ہونے والا ہے جس طرح بنوں جیل پر ہوا تھا۔ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ان شرپسندوں کے پاس جیل کا نقشہ موجود ہے اور وہ حملے کے لیے علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔‘‘

اس خط میں عسکریت پسندوں کے اس گروہ کی بھی نشاندہی کر دی گئی تھی جو یہ کارروائی کرنے والا تھا۔ خفیہ ایجنسی نے یہ بات یقینی بنانے کے لیے کہ یہ اہم ترین خط تمام متعلقہ افسران تک بروقت پہنچ جائے، ان خطوط کو وصول کرنے والے افسران کے دستخط بھی لیے تھے۔ اس کے فوراً بعد نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل اسلام آباد جو کہ وزارت داخلہ کے تحت کام کرتا ہے، اس کی طرف سے 28 جولائی کو ایک خط بھیجا گیا جس پر ’’خفیہ‘‘ ’’اہم ترین‘‘ اور ’’انتباہ نمبر 699‘‘ تحریر تھا۔ اس میں بھی عسکریت پسندوں کے اس گروہ کے نام کی نشان دہی کی گئی تھی جو ڈیرہ جیل پر حملہ کرنے والا تھا اور یہ بھی تحریر تھا کہ یہ گروہ ڈی آئی خان میں داخل ہو چکا ہے۔ عسکریت پسندوں کے متوقع حملے سے آگاہ کرنے والا یہ اہم ترین خط خیبر پختونخوا کے ہوم سیکریٹری پشاور، صوبائی پولیس افسر، ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا، آئی جی فرنٹیئر کور، آئی جی جیل خانہ جات کے پی اور کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری، کے پی پشاور کو بھیجا گیا۔

اس کے بعد خفیہ ایجنسی کی طرف سے تمام متعلقہ محکموں اور ان میں ذمے دار افراد کے نام ایس ایم ایس بھیجا گیا جس کے بعد سول اور فوجی افسران نے جیل کا دورہ کیا۔ ان لوگوں کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا کہ یہ حملہ تین اطراف سے کیا جائے گا اس دوران علاقے کی بجلی بھی کاٹ دی جائے گی اور اندھیرے میں کارروائی کرنے کی غرض سے یہ لوگ رات میں دیکھنے والے گاگلز سے لیس ہوں گے۔ ان تمام معلومات سے آگاہ ہونے کے بعد کمشنر اور متعلقہ افسران نے ایک میٹنگ کی، ایک دوسرے کو یہ بتایا کہ انھوں نے جیل کا دورہ کیا ہے اور وہاں تعینات اہلکار اس قسم کے کسی بھی حملے سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ مشین گنوں سے لیس گاڑیاں اور ایلیٹ پولیس فورس کی گاڑیاں گشت پر ہیں اور جیل کی چھتوں پر گارڈ تعینات کر دیے گئے ہیں۔

تمام ذمے دار افسران مطمئن ہوکر گھروں کو گئے اور خفیہ ایجنسی کی طرف سے بھیجے گئے خطوط کے مطابق حملہ آور ساڑھے گیارہ بجے رات کو بجلی کا ٹاور اڑا کر ڈی آئی خان جیل کے دروازے پر پہنچے تو ہر طرف اندھیرا تھا۔ حملہ آوروں کی آنکھوں پر نائٹ گاگلز تھیں، ہاتھوں میں جدید ترین اسلحہ اور کچھ میگا فون لیے ہوئے تھے۔ درجنوں سے زیادہ موٹر سائیکلوں اور ایک درجن سے زیادہ بڑی گاڑیوں میں سوار عسکریت پسندوں کو زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ ہلکی مشین گنوں سے آراستہ پولیس گاڑیوں اور ایلیٹ فورس کی موبائلوں کو جانے زمین نگل گئی تھی یا سامری جادو گر  نے انھیں پھونک مار کر مکھی بنا دیا تھا۔ چند محافظوں نے اپنی خستہ حال بندوقوں سے اس سونامی کو روکنے کی کوشش کی تو وہ قتل ہوئے اور ان میں سے چند کے سر بھی تراش لیے گئے۔

جیل کا ہر دروازہ کھلتا چلا گیا۔ حملہ آور عسکریت پسند جیل میں گشت کرتے رہے۔ میگا فون پر اپنے ساتھیوں کے نام پکارتے رہے اور انھیں اپنی گاڑیوں میں بٹھاتے رہے۔ اور ہاں یہ بات بھی لکھنے کی ہے کہ قیدیوں میں یہ بات دو یا تین دن سے گشت کر رہی تھی کہ ان کے ساتھ قید عسکریت پسندوں کے ساتھی انھیں رہا کرانے کے لیے بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ یہ خبریں بھی چھپی نہ رہ سکیں کہ آنے والوں کا استقبال شربت سے کیا گیا اور ان کے لیے جوش و خروش سے نعرے لگائے گئے۔ آنے والے تین گھنٹے تک جیل کے اندر موجود رہے، انھیں کسی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا، اس لیے وہ سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو لے کر محفوظ ٹھکانوں کی طرف چلے گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان کا مقابلہ کرنے والی فورس 4 گھنٹے بعد وہاں پہنچی۔

کیا خیبر پختوخوا کی شہری اور فوجی انتظامیہ میں دہشت گردوں کی اتنی حمایت موجود ہے کہ جیل کے دروازے آپ سے آپ کھلتے چلے جاتے ہیں، پولیس اور ایلیٹ فورس کی موبائلیں حملے کے آغاز کے ساتھ ہی سلیمانی ٹوپیاں اوڑھ لیتی ہیں اور وہ حملہ جس کی اطلاع تین دن پہلے دی جا چکی تھی اور جس پر اعلیٰ افسران کی آپس میں مشاورت بھی ہو چکی تھی، وہ ہو جاتا ہے اور اس صوبے کے وزیر اعلیٰ ساری ذمے داری وفاقی حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کے سر ڈال کر اپنے پیر و مرشد کے حضور پیش ہو جاتے ہیں جو اپنی ناکامیوں کو اعلیٰ ظرفی سے تسلیم کرنے کی بجائے سارا ملبہ ملک کے ایک شریف ترین شخص جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے سر ڈالنے کی ریہرسل میں مصروف ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک انٹرویو میں کیا غلط کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف وزیر ستان کی طرف سے ایک ہی راستہ آتا ہے جہاں پر قانون نافذ کرنے والوں کی متعدد چوکیاں قائم ہیں۔ عام شہریوں کو وہاں تلاشی کے لیے گھنٹوں روکا جاتا ہے تو پھر نہ جانے یہ حملہ آورکہاں سے جیل تک پہنچ گئے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر حملے کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جیل پر حملہ روکنے کی ریہرسل بھی کی پھر بھی حملہ آور کامیابی سے اپنی کارروائی کر کے چلے گئے۔ دراصل خیبر پختونخوا کی حکومت کو تو کوئی مانتا ہی نہیں۔

خیبر پختونخوا کی حکومت بڑے کروفر سے اقتدار میں آئی تھی۔ مولانا فضل الرحمان کے اصرار کے باوجود میاں نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے وہاں ان دونوں جماعتوں کو حکومت بنانے کا موقعہ دیا تھا۔ کے پی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنے صوبے میں مثالی حکومت قائم کرے گی اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے گی۔ اگر یہی ’’مثالی حکومت‘‘ اور ’’اعلیٰ انتظامی صلاحیت‘‘ ہے تو ملک کے دوسرے صوبے ان صلاحیتوں سے محفوظ رہیں۔

کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے ’چائے کی پیالی میں طوفان‘ اٹھانے والے اور بار بار اعلیٰ عدلیہ کی توہین کرنے والے ’باغی ہیرو‘ کا جو کردار ادا کر رہے ہیں، وہ دراصل کے پی کے میں ان کی حکومت کی بدترین نا اہلی اور ناقص کارکردگی کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کا ایک معاملہ ہے۔ ایک بہت گھسا پٹا جملہ ہے کہ خواہشیں اگر گھوڑے ہوتیں تو سارے فقیر اور لنگڑے شہسوار ہوتے۔ خواب ہم سب دیکھتے ہیں لیکن ان خوابوں کی تعبیر اگر ہماری مرضی کے مطابق نہ ہو تو اس پر سب کچھ تہس نہس کر دینا عقل مندی کے زمرے میں نہیں آتا۔ عدلیہ سے الجھنا چھوڑیئے اور پہلے اپنا صوبہ تو سنبھالیے حضور۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔