کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

رئیس فاطمہ  ہفتہ 3 اگست 2013

مندرجہ بالا عنوان سے 24 جولائی کے ایکسپریس میں محمد فیصل شہزاد کا کالم پڑھا۔ خوشی ہوئی کہ آج بھی لوگ زبان کے بارے میں تحقیقی مواد اور کتب کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو غلط زبان، غلط تلفظ املا کا جواز (جو کہ دراصل ان کی کم علمی اور سطحی معلومات کا جواز ہوتا ہے) یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ ’’سمجھ آئی نا‘‘۔ یا۔ ’’سمجھ آ گیا نا‘‘… اس کے جواب میں فیصل شہزاد کی دلیلیں بہت خوب اور وزنی تھیں۔ دراصل تلفظ کا معاملہ سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ شخص جس کی مادری زبان اردو نہ ہو اس کا لہجہ تو مختلف ہو سکتا ہے لیکن تلفظ کو بگاڑنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی انھیں ایسا کرنا چاہیے خاص طور سے جو لوگ الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں انھیں اپنے لب و لہجے اور تلفظ کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

ایک سینئر اینکر پرسن ایک عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ آج تک ’’صورتِ حال‘‘ کو ’’سورتے حال‘‘ ہی کہتے ہیں۔ مجھے افسوس اور تعجب ہوتا ہے اس رویے پر کہ عام طور پر خواہ اینکر پرسن ہوں، میزبان ہوں یا اساتذہ کرام ہوں۔ یہ سب انگریزی کے حوالے سے بہت محتاط اور حساس ہوتے ہیں۔ لکھتے وقت فل اسٹاپ، کولن، سیمی کولن، ڈیش اور کوئسچین مارک کو بہت اہمیت دیتے ہیں، اور سرِ مو اس سے انحراف نہیں کرتے۔ اسی طرح بولنے کے معاملے میں تلفظ کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ لیکن جہاں بات قومی زبان کی آئی تو فوراً یہ جملہ لڑھکا دیا جاتا ہے کہ ’’سمجھ آ گئی نا‘‘ … دراصل یہ جواب ان کی سہل پسندی، کم علمی اور مطالعے کے فقدان کا ثبوت ہے۔

اگر اقبال ؔ اور فیض ؔ بھی یہی رویہ اپناتے تو آج ان کا شمار اردو کے کلاسیکی شعراء میں نہ ہوتا۔ کسی بھی زبان میں مہارت پیدا کرنے کے لیے مطالعے کے ساتھ ساتھ اہل زبان کی صحبت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے تقسیم سے قبل انگریزوں کے ساتھ کام کیا ان کی انگریزی زبان پہ گرفت بہت زیادہ تھی۔ اور ان میں سے اکثریت کا لب و لہجہ انگریزوں جیسا ہی تھا، نہ کہ امریکیوں جیسا جو ناک سے بولتے ہیں اور آدھے لفظ کھا جاتے ہیں۔ یہ فرق ان کی فلموں میں بھی نظر آتا ہے۔ انگریزی فلموں کے لب و لہجہ اور ڈائیلاگ واضح طور پر سمجھ میں آتے ہیں۔

زبان و ادب کے حوالے سے جو کالم میں نے گزشتہ دنوں لکھے تھے۔ ان کے حوالے سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ کچھ ایسی کتابوں کے نام ضرور بتائوں گی جو زبان، تلفظ اور مطالعے کے حوالے سے قارئین کی فرمائش پہ پورے اتریں گے۔ جہاں تک کسی ایسی کتاب کا تعلق ہے کہ جس میں ہر لفظ کا تلفظ اور معنی دیے گئے ہوں، تو بلاشبہ میں مولوی سید احمد دہلوی کی ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کا نام تجویز کروں گی۔ اب یہ لغات پاکستان میں بھی چھپ گئی ہے۔ ویسے تو اردو ڈکشنری بورڈ نے بھی لغات ترتیب دی ہیں اور بہت خوب دی ہیں۔ لیکن وہ کام بہت ضخیم ہے اور 22 جلدوں پہ محیط ہے۔ لیکن ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ صرف تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

اب آتے ہیں لغت کی اہمیت کی طرف۔ سب سے پہلے تو یہ کہ مولوی سید احمد دہلوی ’’دلّی کے روڑے‘‘ تھے۔ اس لیے ہر ہر لفظ پر ان کی تحقیق سند کا درجہ رکھتی ہے۔ دوم یہ کہ ہر لفظ کے اوپر اِعراب (زیر، زبر، پیش وغیرہ) واضح طور پر موجود ہیں جس سے لفظ کی ادائیگی آسان ہو جاتی ہے۔ سوم یہ کہ ہر لفظ کے آگے یہ بھی درج ہے کہ قواعد کے اعتبار سے یہ لفظ کیا ہے یعنی اسم ہے، صفت ہے، فعل ہے، مونث ہے یا مذکر؟ اور یہ بھی کہ لفظ کونسی زبان کا ہے۔ اگر ہندی الاصل تو بریکٹ میں ’’ہ‘‘ لکھ دیا گیا ہے۔ اسی طرح عربی کے لیے ’’ع‘‘ فارسی کے لیے ’’ف‘‘ سنسکرت کے لیے ’’ت‘‘ درج ہے۔ ساتھ ہی محاوروں اور کہاوتوں کی ایک وسیع دنیا آباد ہے، کہہ مکرنیاں۔ پہیلیاں اس کے علاوہ ہیں۔ امیرخسروؔ کے لیے چار صفحات مخصوص ہیں۔ صرف آنکھوں کے حوالے سے 340 محاورے،کہاوتیں اور الفاظ معنوں اور اشعار کے ساتھ درج ہیں۔

دوسری اہم اور مستند لغت ہے ’’فیروز اللغات‘‘ جو ایک طرح سے ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ ہی کا عکس ہے۔ لیکن کسی قدر مختلف بھی۔ میں نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو یہ لغت خریدنے پر زور دیا۔ بڑی جلد زیادہ بہتر ہے۔ لیکن درمیانہ سائز کی عام لغت میں بھی 70 ہزار کے لگ بھگ متداول الفاظ، مرکبات، محاورات و ضرب المثال وغیرہ موجود ہیں۔ ساتھ ہی تمام حروف الگ الگ اِعراب کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ شان الحق حقی کی ’’فرہنگِ تلفظ‘‘ بھی بہت اہم کتاب ہے۔ جسے مقتدرہ قومی زبان نے شائع کیا ہے۔ ان کے علاوہ ایک نادر کتاب ’’سرگزشت الفاظ‘‘ بھی ہے جو احمد دین کی تصنیف ہے۔ اس میں اردو، عربی، فارسی اور ہندی الفاظ کی کتھا آسان زبان میں بیان کی گئی ہے۔ ’’ہمدرد نونہال‘‘ بچوں کا وہ پرچہ ہے جس سے مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے لکھنا شروع کیا۔ اس کے مدیر مسعود برکاتی ہر ماہ پرچے کے آخر میں ایک لغت دیتے ہیں۔ جو ان الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے جو کسی نہ کسی کہانی میں موجود ہوتے ہیں۔ ان کا طریقہ بہت آسان اور اہم ہے۔ مثلاً ’’عنقا‘‘ کا تلفظ اس طرح دیا گیا ہے۔ عَ نْ ق َ ا= عَنقَا۔ ایک فرضی پرندہ۔ تذبذب کا تلفظ یوں ہے۔ تَ۔ذَب۔ذُب= یعنی تذبذُب میں ذ پر پیش ہے۔ عربی کا لفظ ہے اور مذکر ہے۔

اب بات کر لیں ذرا ’’غلط العام‘‘ اور غلط العوام‘‘ کی۔ غلط العام وہ الفاظ ہیں جو تلفظ یا املا کے غلط ہونے کے باوجود کثرت استعمال کے باعث فصیح سمجھے جاتے ہوں اور شعراء نے بھی انھیں ویسا ہی اپنے اشعار میں باندھا ہو جیسے کہ ’’منصَب‘‘ زبر کے ساتھ بولا جاتا ہے جب کہ لغت کے اعتبار سے ’’منصِب‘‘ صحیح ہے یعنی ’’زیر‘‘ کے ساتھ لیکن چونکہ اہل زبان یونہی بولتے ہیں اس لیے ’’منصَب‘‘ ۔ ’’غلط العام‘‘ ہے اور یہی بولا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ۔ قالَب کے بجائے قالِب۔ زیر کے ساتھ۔ کافَر کے بجائے کافِر بھی زیر کے ساتھ۔ غلط العام کے زمرے میں آتے ہیں۔ جب کہ ’’غلط العوام‘‘ وہ الفاظ ہیں جنھیں جہلا اور کم علم لوگوں نے غلط تلفظ اور معنی کے ساتھ بولنا شروع کر دیا ہو۔ لیکن وہ ہر قیمت پر غلط ہی سمجھا جائے گا۔ جیسے ’’عوام‘‘ مذکر ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا اور سیاست دانوں نے اسے مونث کر دیا۔ ’’پتّھر‘‘ کے بجائے ’’پھتر‘‘ کہنا۔ خُوشبُو کے بجائے ’’خَشبُو‘‘ فصیل کے بجائے سفیل کہنا۔ جرمانہ کے بجائے جریبانہ‘‘ وفات کے بجائے ’’فوتیدگی‘‘ فطرہ کے بجائے ’’فطرانہ‘‘ کہنا ہے کم علمی کی نشانی ہیں۔ ہر صورت میں یہ الفاظ غلط العوام کہلائیں گے۔ اور یہ غیر فصیح ہیں۔ ان سے اجتناب برتنا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک کتاب یاد آ رہی ہے۔ نشرِ ادب۔ جو اسی قبیل کے بے شمار الفاظ پر مشتمل ہے۔

زبان اور تلفظ کی درستی کے لیے کلاسیکی شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات بہت معاون ثابت ہوتی ہیں۔ کسی شاعر نے وہ لفظ کس طرح استعمال کیا ہے۔ وہی اس کی سند ہے۔ لیکن یہ مقام صف اول کے اہل زبان شعراء و ادباء کو حاصل ہے۔ جیسے میر تقی میرؔ، خواجہ میر دردؔ ، غالبؔ، انشاءؔ، مصحفیؔ، میر حسن، میر انیسؔ، جوشؔؔ وغیرہ ۔ ادیبوں میں خواجہ حسن نظامی، شاہد احمد دہلوی، ملا واحدی، اشرف صبوحی اور انتظار حسین کو پڑھنا لازمی ہے۔ تلفظ کے حوالے سے ایک لفظ ’’بابر‘‘ کا ذکر کرنا چاہوں گی جو کہ مغلیہ سلطنت کا بانی تھا۔ لیکن اس فارسی لفظ کا تلفظ ہے۔ بَابُر (بَ ا بُ ر) یعنی ’’ب‘‘ پر پیش ہے۔ جب کہ بابَر (زبر کے ساتھ) ہندی لفظ ہے۔ جس کے معنی ایک قسم کی گھانس کے ہیں۔ جس سے بان بٹا جاتا ہے۔ جو چارپائی بُننے کے کام آتا ہے۔ لیکن کوئی بھی بابُر (پیش) نہیں کہتا۔ کیونکہ یہ غلط العام ہے۔ اور یہی فصیح سمجھا جاتا ہے۔ شاعروں ادیبوں نے بابَر (زبر) ہی استعمال کیا اور بولا ہے۔ یہی صحیح ہے۔

دراصل تلفظ کا مسئلہ پیدا ہوا ہے کمپیوٹر کی آمد کے بعد۔ پہلے کتابت ہاتھ سے ہوتی تھی اور کاتب حضرات اتنے پڑھے لکھے ہوتے تھے کہ ہر لفظ پر خود ہی اعراب لگا دیتے تھے۔ لکھنے والے اور پڑھانے والے بھی علامات کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ہم میں سے اکثریت نے اسی طرح پڑھنا سیکھا تھا۔ لیکن آج اردو پڑھانے والے اساتذہ کو خود اِعراب اور علامات کا کچھ پتہ نہیں۔ کمپیوٹر میں پہلے اِعراب لگانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ لیکن بعد میں یہ سہولت مہیا کر دی گئی۔ لیکن ہمارے تن آسان کمپوزر حضرات نے اس جانب توجہ نہ دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس نے جو چاہا تلفظ اپنا لیا۔ زندگی کا ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ اب نہ زیڈ ۔اے بخاری ہیں۔ نہ اسلم اظہر، نہ قریش پور، افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ۔ اسی طرح اخبارات میں بھی وہ لوگ نہ رہے جو اِملا کی درستی کا خیال رکھتے تھے۔ اسی لیے ایک ہولناک غلطی تمام اردو اخبارات میں مسلسل کی جا رہی ہے’’دل برداشتہ‘‘ کو ’’دلبرداشتہ‘‘ لکھا جا رہا ہے۔ دونوں کے معنی اور تلفظ الگ ہیں۔ ’’دِل + برداشتہ‘‘ ۔ دلبر+ داشتہ‘‘ ۔ پروف ریڈر کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ آخر میں اتنا ضرور کہوں گی کہ مختلف چینلز پہ بیٹھے جو لوگ خود کو ’’سقراط ثانی‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ انھیں کم از کم اپنے پاس فیروز اللغات اور فرہنگ تلفظ ضرور ہونی چاہیے۔ تا کہ ان کی جہالت اور کم علی برملا ظاہر نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔