کاروان علم فاؤنڈیشن

جاوید چوہدری  ہفتہ 3 اگست 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

عبدالرشید نے کراچی میں پرانی سبزی منڈی کے قریب چھوٹے سے مکان میں آنکھ کھولی‘ والد سبزی منڈی میں مزدوری کرتا تھا‘ عبدالرشید بچپن ہی سے ذہین تھا‘ وہ ہر سال کلاس میں اول آتا‘ وہ تیسری جماعت میں تھا تو والدہ کو پیٹ کا کینسر ہو گیا اور وہ پانچ سال تک اس موذی مرض سے لڑنے کے بعد انتقال کر گئی‘ عبدالرشید نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تو اس کی شادی کر دی گئی‘ عبدالرشید نے ایف ایس سی کا امتحان بھی اچھے نمبروں سے پاس کر لیا‘ اس نے ایف ایس سی کے بعد سبزی منڈی میں کاروبار شروع کر دیا‘ کاروبار چل پڑا تو اس نے وفاقی اردو یونیورسٹی میں شام کی کلاسز میں داخلہ لے لیا‘ عبدالرشید بزنس ایڈمنسٹریشن کے آخری سمیسٹر تک پہنچ گیا لیکن قدرت ابھی تک اس سے ناراض تھی‘ وہ ایک دن موٹر سائیکل پر یونیورسٹی جا رہا تھا‘ راستے میں اس کا حادثہ ہو گیا‘ اس نے ہلمٹ نہیں پہن رکھا تھا‘ اس کے سر‘ ریڑھ کی ہڈی اور جسم کے مختلف حصوں پر گہری چوٹیں آئیں‘ وہ کئی روز تک قومے میں رہا‘ جب ہوش آیا تو اس کا پورا جسم بے جان ہو چکا تھا‘ وہ صرف چہرے کو حرکت دے سکتا تھا۔

عبدالرشید نے دو سال ’’موت‘‘ کی حالت میں بستر پر گزار دیے‘ یہ دو سال قیامت سے کم نہیں تھے‘ گھر میں دو وقت کا چولہا جلانا مشکل تھا‘ علاج معالجہ کیسے ہوتا؟ یہ وہ لمحات تھے جب قدرت نے اس کی ناخواندہ دیہاتی بیوی کو جذبے اور سوچ سے نوازہ‘ اس کی بیوی نے اسے دوبارہ زندگی کی طرف لانے کا عزم کر لیا‘ وہ اس کی غمگسار تو تھی ہی وہ اس کی ڈاکٹر، فزیو تھراپسٹ اور ماہر نفسیات بھی بن گئی‘ وہ اسے باقاعدگی سے دوا کھلاتی‘ اعضاء کو متحرک کرنے کی ورزش کرواتی اور اس کا حوصلہ بڑھاتی‘ بیوی کی محنت رنگ لائی‘ عبدالرشید کے اعضاء نے حرکت شروع کر دی حتیٰ کہ ایک ٹانگ کے سوا اس کا سارا جسم تندرست ہو گیا‘ بیوی اس کے بعد اس کی اسناد لے کر جامعہ کراچی پہنچ گئی‘ یونیورسٹی نے عبدالرشید کو فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ دے دیا مگر وہ ٹانگ سے معذوری‘ نفسیاتی دبائو اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ سے یونیورسٹی نہیں جا سکتا تھا۔

یونیورسٹی آنے جانے کے لیے اسے روزانہ کسی کی مدد کی ضرورت پڑتی تھی‘ اسے ادویات کے لیے بھی پیسوں کی بھی ضرورت تھی‘ اس نے صدر پاکستان‘ چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور کئی فلاحی اداروں کو خطوط لکھے مگر 18کروڑ لوگوں کے اس ملک میں کوئی اس کی مدد کے لیے تیار نہ ہوا‘ مایوس ہو کر اس نے تعلیم کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر پھر قدرت کو اس پر ترس آ گیا‘ وہ ایک دن اسکوٹر پر لفٹ لے کر یونیورسٹی جا رہا تھا‘ راستے میں اس نے اسکوٹر والے کو اپنی ساری کہانی سنائی‘ اسکوٹر والے نے اسے کاروان علم فائونڈیشن کے بارے میں بتایا اور اس نے بے دلی سے کاروان علم فائونڈیشن کو خط لکھ دیا‘ کاروان علم فائونڈیشن کا نمائندہ ایک ہفتے کے اندر اس کے گھر پہنچ گیا‘ اسے فوری طور پر ایک خصوصی موٹر سائیکل فراہم کر دی گئی‘ ادویات اور تعلیمی اخراجات کے لیے معقول ماہوار وظیفہ بھی لگا دیا گیا اور یوں عبدالرشید سہارے کے بغیر خود موٹر سائیکل پر یونیورسٹی جانے لگا‘ ادویات ملیں تو وہ جلد تندرست بھی ہو گیا‘ دو سال تک اسے وظیفہ فراہم کیا گیا اور اس سال اپریل میں اس نے فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی کی ڈگری مکمل کر لی ہے‘ یہ باہمت نوجوان اب کاروان علم فائونڈیشن کے تعاون سے سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔

دوسری کہانی وہاڑی کے ڈاکٹر محمد اسلم کی ہے‘ اس کا والد عطاء محمد فوج میں لانس نائیک تھا‘ اس کا کورٹ مارشل ہوا اور وہ ملازمت سے محروم ہو گیا‘ ملازمت سے محرومی‘ مقدمے بازی اور بے روزگاری نے والد کو نشے کی لت میں مبتلا کر دیا اور یوں بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمے داری اس کی بیوی کے کندھوں پر آ گئی‘ والدہ نے بیٹوں کو سرکاری اسکول میں داخل کروا دیا، محمد اسلم بڑا بیٹا تھا‘ وہ چوتھی جماعت میں تھا تو والدہ اسے بسکٹ اور ٹافیوں کے پیکٹ بنا کر دیتی تھی‘ وہ یہ پیکٹ اسکول بیگ میں رکھ کر اسکول جاتا اور یہ اشیاء آدھی چھٹی کے وقت اپنے دوستوں کو فروخت کر دیتا‘ اس نوجوان نے بچپن ہی سے خود کفالت کا سبق سیکھ لیا‘ ڈاکٹر محمد اسلم نے ہر جماعت پرانی کتابیں پڑھ کر پاس کی‘ وہ ہر کلاس میں اول آتا‘ اس نے چھٹی جماعت میں ایک ڈاکٹر کے کلینک پر شام کے اوقات میں ملازمت بھی کرلی۔

وہ خود پرانی کتابوں سے پڑھتا تھا لیکن وہ پیسے کمانے کے لیے اسکول فیلوز کی نئی کتابیں راتوں کو جاگ کر جلد کرتا تھا‘ وہ نویں جماعت میں پہنچا تو اس کی قابلیت اور گھریلو حالات دیکھ کر کلاس انچارج بدر محمود حسن نے اسے اپنے گھر رکھ لیا‘ وہ اسکول کے بعد اسے گھر پر پڑھا تے‘ کپڑے‘ کھانا اور رہائش بھی فراہم کرتے تھے‘ اس شفیق استاد کی دو سالہ محنت رنگ لائی اور ڈاکٹر محمد اسلم نے میٹرک کے امتحان میں 850 میں سے704 نمبر حاصل کر لیے مگر وہ ایف ایس سی میں داخلہ نہ لے سکا‘ اس نے سبزی کی دکان پر ملازمت کی اور وہ گرمیوں میں برف بیچنے لگا‘ اس دوران چھوٹے بھائی نے حالات سے دل برداشتہ ہو کر درزی کا کام سیکھ لیا تھا‘ وہ گھر چلانے کے قابل ہوا تو ڈاکٹر محمد اسلم نے کراچی کے ایک معروف مدرسے میں داخلہ لے لیا‘ کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے‘ ڈاکٹر محمد اسلم شدید زخمی ہو گیا‘ وہ کئی دن تک اسپتال میں زیر علاج رہا‘ حالت بہتر ہوئی تو یہ واپس وہاڑی آ گیا‘ اس نے ڈسپنسر کلاس میں داخلہ لے لیا۔

وہاڑی کے ایک نیک سیرت ڈاکٹر احمد مسعود اکبر نے اسے اپنے کلینک پر ملازمت دے دی اور گھر میں رہائش کے لیے ایک کمرہ بھی دے دیا‘ یوں اس باہمت نوجوان نے ڈسپنسر ڈپلومہ کیا‘ ایک سا ل بعد ایف ایس سی میں گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا اور یوں یہ میٹرک کرنے کے سات سال بعد ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر گیا‘ اس کا نام نشتر میڈیکل کالج ملتان کی داخلہ لسٹ میں بھی آ گیا‘ اسکول اور کالج کے اساتذہ اکرام نے اس کے داخلہ کا بندوبست کر دیا مگر اسے میڈیکل کالج کے روز مرہ تعلیمی اخراجات اور ہاسٹل میں رہائش کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی‘ یہ بھی کاروان علم فائونڈیشن پہنچا‘ فائونڈیشن نے اسے پانچ سال تک مالی اعانت فراہم کی‘ یہ ڈاکٹر بن گیا اور یہ اب نشتر میڈیکل کالج میں ملازمت کے ساتھ ساتھ ہارٹ سرجری میں اسپیشلائزیشن کر رہا ہے۔

میرے پاس ایسی سیکڑوں کہانیاں ہیں اور ہر کہانی کا اختتام کاروان علم فائونڈیشن پر ہوتا ہے‘ یہ فائونڈیشن محض ایک ادارہ نہیں‘ یہ ایک تحریک بھی ہے‘ یہ فائونڈیشن دس سال سے عبدالرشید اور ڈاکٹر اسلم جیسے طلبہ کو وظائف دے رہی ہے فائونڈیشن کا دعویٰ ہے پاکستان کی کوئی یونیورسٹی‘ میڈیکل کالج‘ انجینئرنگ یونیورسٹی اور کوئی کالج ایسا نہیں جہاں اس کے تعاون سے طلبہ تعلیم حاصل نہ کر رہے ہوں‘ کاروان علم فائونڈیشن ضرورت مند طلبہ کو سالانہ فیس‘ سمیسٹر فیس‘ کرایہ ہاسٹل‘ ماہوار خرچ طعام‘ کتب اور آمد و رفت کے لیے وظائف دیتی ہے‘ فائونڈیشن یتیم اور خصوصی طلبہ کو ترجیہی بنیادوں پر وظائف دیتی ہے‘ ادارے نے تین نابینا نوجوان محمد عامر کمالوی‘ محمد حماد ملک اور توصیف پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے‘ یہ کمیٹی پنجاب کے تعلیمی اداروں میں خصوصی طلبہ کے تعلیمی اخراجات معاف کروانے کی کوششیں کر رہی ہے‘ کاروان علم فائونڈیشن نے حکومت پنجاب کو پیش کش کی ہے اگر حکومت خصوصی طلبہ کے اخراجات معاف کر دے تو فائونڈیشن انھیں طعام اور دیگر ضروریات کے لیے وظائف دے گی۔

اس پیش کش کے نتیجے میں پنجاب یونیورسٹی لاہور اور بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے خصوصی طلبہ کے اخراجات معاف کر دیے ہیں جب کہ حکومت پنجاب نے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں خصوصی طلبہ کی فیس معاف کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے‘ یہ ادارہ اب تک 3678 طلبہ کو ساڑھے چھ کروڑ روپے کے وظائف دے چکا ہے‘ ان میں 713 یتیم طلبہ اور 106 خصوصی طلبہ بھی شامل ہیں‘ ایم بی بی ایس کے885، ڈاکٹر آف ڈینٹسٹ سرجری کے36، ڈاکٹر آف فزیو تھراپی کے32، ڈاکٹر آف ویٹرنری سائنسز کے89، ڈی فارمیسی کے56، ایم ایس سی کے92، ایم اے کے68، ایم کام کے26، ایم بی اے کے43، ایم فل کے05، بی ایس سی انجینئرنگ کے1020، بی کام آنرز کے134، بی ایس آنرز کے299، بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے 29، اے سی سی اے کے 04، چارٹرڈ اکائونٹنسی کے 04، بی ایس ایڈ، بی ایڈ کے 11، ایل ایل بی کے09، بی اے آنرز کے21، بی اے کے51، سی ایس ایس کا 01، بی ٹیک کے 05، ڈپلومہ ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کے123، ایف ایس سی کے412، ایف اے کے58، آئی کام کے32، ڈی کام کے05، آئی سی ایس کے15 طلبہ شامل ہیں۔

کاروان علم فائونڈیشن نے کبھی حکومت یا غیر ملکی این جی او سے کوئی فنڈ نہیں لیا‘ یہ خالصتاً اہل خیر کی معاونت سے چل رہی ہے‘ کاروان علم فائونڈیشن کے پاس515 زیر کفالت اور297 نئے طلبہ کی درخواستیں زیر غور ہیں‘ ان طلبہ کو 2013ء اور 2014 میں وظائف دینے کے لیے تین کروڑ روپے چاہیے‘ الحمد للہ پاکستان میں ہزاروں ایسے صاحب دل موجود ہیں جو اکیلے تین کروڑ فراہم کر کے 812 طلبہ کا مستقبل بچا سکتے ہیں‘ مجھے امید ہے کاروان علم فائونڈیشن کو یہ رقم مل جائے گی اور علم کا کاروان اسی طرح رواں دواں رہے گا‘ کاروان علم فائونڈیشن کو زکوٰۃ و عطیات ملک کے کسی بھی حصے سے میزان بینک کے اکائونٹ نمبر0240-0100882859 میں جمع کروائے جا سکتے ہیں‘ یا19/21 ایکٹر اسکیم سمن آباد لاہور پر ارسال کیے جا سکتے ہیں‘ مزید تفصیلات کے لیے فون نمبر 042-37522741-42یا موبائل نمبر 0321-8461122پر رابطہ کیا جا سکتا ہے‘ ادارے کی ویب سائٹ کا ایڈریس www.kif.com ہے‘ یہ اچھا ادارہ ہے‘ احباب سے معاونت کی درخواست کی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔