قدیم فنون و مہارتیں

شیخ جابر  ہفتہ 3 اگست 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

خیرہ کُن سائنسی ترقی کے مظاہر دیکھ کر ہم عموماً یہ قیاس کرلیتے ہیں کہ جدیدسائنسی علمیت کے بغیر فنون کا حصول ممکن نہیں ۔تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک بے اصل بات نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جدید سائنسی علمیت (سائنٹفک میتھڈ )کے بغیر دنیا کی تقریباًتمام ہی زرخیز تہذیبوں میں طاقت ور ترین ٹیکنالوجی موجود تھی ۔جس کے نتیجے میں مختلف فنون پرورش پاتے رہتے تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کی آمد سے دس ہزار سال پہلے بھی دنیا میں نہایت زرخیز فنون موجود تھے۔ ایران، عراق، عادوثمود، قوم سباء، یونان، چین، روما، ہند، موئن جودڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا، مہرگڑھ،اجنتا، ایلورا وغیرہ میں اس سُوجھ بوجھ کے بے شمار آثار آج بھی نظر آتے ہیں۔

ان تہذیبوں نے حیران کُن سائنسی کارنامے انجام دیے جس کی مثال آج کی جدید سائنس بھی پیش کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ہم دیکھتے ہیںکہ قدیم دور کی تمام تر سائنسی ترقی ایک بالکل مختلف قسم کی علمیت کی رہینِ منت قرار پاتی ہے۔دیوارِ چین اور چین کے محلات سے لے کر فراعینِ مصر کے یادگار اہراموں اور ابوالہول کو ذہن میں لائیں،یہ ایسے شاہکارکارنامے ہیںکہ جن کے اسرار جدید سائنس آج تک حل کیے جا رہی ہے۔وہ کون لوگ تھے اور وہ کون سی علمیت تھی کہ جنھوں نے پہیے کی ایجادسے بھی قبل اہرام تعمیر کر ڈالے۔حالاں کہ قدیم مصر میں نہ تو یونی ورسٹیز ہی تھیں نہ ہی جدید طرزکی تجربہ گاہیں۔نہ وہاں کے افراد کسی سائنٹفک میتھڈ ہی سے واقف تھے۔وہ صرف اشیاء ضرورت یا سہولت تیار کرتے تھے۔ ان کی تمام تر سائنس ،ہنر مندی یا فن اشیاء کی تیاری کے عمل میں پنہاں تھا۔ جب ایک کاری گر کام شروع کرتا تو دراصل وہ ایک عمل کا آغاز کرتا تھا۔

کام کے آغاز کے ساتھ ہی تخلیق کے سوتے پھوٹتے چلے جاتے تھے اور شاہ کار وجود میں آتے چلے جاتے تھے۔ یہ ہنرمند کچھ کہتے نہیں تھے۔ وہ بہت کچھ کر کے دکھاتے تھے ۔وہ درس گاہوں اور یونیورسٹیوں سے یہ فن حاصل نہیں کرتے تھے۔ فن ان کی زندگیوں میں رچا بسا تھا اور ہر شخص اپنی صلاحیت کے ذریعے اس کا اظہار اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر کرتا تھا ۔یہ تمام تر کام کسی تعلیمی نظام کے جبر کے ذریعے انجام نہیں پاتا تھا۔ یہ رضا کارانہ عمل تھا جس میں فن کار کی خوشی اور دلی شمولیت اس کے لیے کام کو ایک مقصد اور لگن کا سبب بنا دیتی تھی۔ ان شاہ کاروں کو آج بھی دیکھیں تو عقل محوِحیرت رہ جاتی ہے۔سائنسی علمیت اورسائٹنفک میتھڈ کے بغیر ان تہذیبوں نے تاریخ میں غیر معمولی آثار چھوڑے ہیں لہٰذا یہ تصور کرنا کہ سائنسی علمیت کے بغیر زندگی میں رنگ، سہولتیں، تعمیر کے کام ممکن نہیں تاریخ سے ناواقفیت کا شاخسانہ ہے۔

تاریخ کی کتابوں سے ہمیں بے شمار واقعات میسر ہیں جو بتاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی، ذہانت، عبقریت ہردور میں رہی ہے اور انسان نے اپنی ضروریات کے لیے ان فنون کو ایجاد کیا ہے ۔لیکن آج ان فنون کو اصل سمجھ لیا گیا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کے فنون کو کبھی بھی علم نہیں سمجھا گیاتھا۔لیکن ان فنون کو اصل علم سمجھنا، ہرشے کو پر کھنے کا پیمانہ ان کام چلانے والے علوم کے اصولوں پر رکھنا ،کبھی تاریخ انسانی میں کسی تہذیب کا مطمع نظر نہیں رہا ۔ہر شے کو اس کے مقام پر رکھنا عدل کا تقاضہ ہے ۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ آج کل ابن سینا، ابن الہیشم، رازی اور دیگر ہنر مندوں کو نہایت تکریم، احترام اورعظمت کے ساتھ مغرب کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کو اپنے دور میںوہ مقام اور مر تبہ حاصل تھا جو اس وقت حاصل ہے؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہے۔آج ایک خاص قسم کی علمیت کے فروغ کے لیے مغرب اور ہمارے جدیدیت پسند ان ہنر مندوں کو وہ مقام دے رہے ہیں جو انھیں کبھی بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔

اس زمانے کا تعقل غالب کچھ اور تھا۔نقلی علوم اہم تھے عقلی، کسبی،طبعی، مادی علوم اور ان کے عالم غیر اہم تھے ۔یہ فنون علوم کی تلچھٹ سمجھے جاتے تھے لہٰذا ان شعبوں میں بڑے آدمی نہیں جاتے تھے اور ان شعبوں کے بڑے لوگ بھی اپنے عہد میں بہت زیادہ بڑے نہیں سمجھے جاتے تھے لہٰذا اس تعقل غالب کے ہو تے ہو ئے ابن سینا کو اپنے زمانے میں وہ مقام وہ مر تبہ نہیں ملا جوانھیںآج دیا جارہا ہے۔ عہدِ حاضر کا تعقل غالب کچھ اور ہے۔ جب دنیا مادہ اور علوم عقلیہ ہی اصل علوم قرار دیے گئے ہیں اور غیر تجربی، غیر مادی، علوی علوم کو دائرہ علم سے خارج کردیا گیا ہے ۔ ابن سینا اور دیگر اسلامی ماہرین علوم عقلیہ اب ہر حوالے میں استعمال ہو رہے ہیں ۔ کیونکہ مغرب کے پاس آئن اسٹائن، نیوٹن، گیلی لیو، کیلر، راجر بیکن ہے تو عالم اسلام اس کے جواب میں اپنے ماہرین علوم عقلیہ کو پیش کرتا ہے۔ان ماہرین کو مغرب کے مقابلے میں پیش کرکے ہم مغرب سے ہم آہنگ ہونے کا عقلی جواز پیش کرتے ہیں اور اپنے احساس کمتری کو چھپانے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔

سائنسی نظریات ہمارے فکر و نظر کو براہ راست متاثر کرتے ہیں لیکن اثر پذیری کا یہ عمل تجریدی طریقے سے ہوتا ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز تک جدیدسائنسی نظریات تصورات علم میں بنیادی تغیرات کے ذریعے معاشروں میں تبدیلی پیدا کر رہے تھے مگر اس صدی کے اختتام تک ٹیکنالوجی اس عمل میں اہم ترین عامل بن گئی اور نئی اصطلاح وجود میں آئی جسے آج ہم ٹیکنو سائنس کے نام سے جانتے ہیں ۔گزشتہ دو سو برس سے ٹیکنو سائنس طبعی ،سماجی اور آفاقی سطح پر تبدیلی کے عمل کو تیز سے تیز تر کرنے کا سبب بن گئی ہے۔جدید سائنس سترہویں صدی میں پیدا ہوئی۔ یہ ایک خاص تہذیب خاص زماں خاص مکاں میں تخلیق ہوئی ہے لہٰذا یہ ماورائے تاریخ نہیں ہے۔ ٹائن بی کی کتاب ’’اسٹڈی اوف ہسٹری‘‘ کے مطابق دنیا میں اکیس تہذیبیں رہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان اکیس روایتی تہذیبوں میں کہیں بھی جدید سائنس نظر نہیں آتی کیونکہ ان تہذیبوں کے عالی دماغ مابعد الطبیعیاتی اساسات کے زیر اثر وہ نظریات تخلیق ہی نہیں کرسکتے تھے جس قسم کے سائنسی نظریات مغرب نے سترہویں صدی میں پیش کیے۔

عصر حاضر میں تبدیلی، تغیر کا سبب سائنسی ایجادات نہیں بلکہ اصلاً وہ سائنسی نظریات ہیں جو سترہویں صدی میں ایک نئی مابعد الطبیعیات کے زیر اثر تاریخ انسانی میں جدیدیت، روشن خیالی کے نام سے پیش کیے گئے اور تمام قدیم مابعد الطبیعیاتی تصورات کو ظلمت اور ان افکار کے عہد کو دورِ تاریکی قرار دے کر رد کر دیا۔ جدید سائنس خالص مغربی ثقافت و تہذیب اور تاریخ سے پیدا ہوئی ہے لہٰذا اس کے تاریخی تناظر کو نظر انداز کر کے اس کی ماہئیت کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ۔جدید سائنس کو آفاقی، کلی، قطعی، فطری، حقیقی ماوراء تاریخ سمجھنا بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سائنس نے دنیا کے جس حصے میں غلبہ حاصل کیا یا جہاں اس کا استقبال کیا گیا وہاں کی تہذیب، تاریخ، ثقافت، روایات، مذہب، اقدار سب کچھ تباہ ہوگیا۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر جدید سائنس غیر اقداری ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہ جہاں جاتی ہے اس خطے کی صدیوں کی تمام روایات کو کیوں بدل دیتی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔