گرانی اور حکومت کے فرائض

نسیم انجم  ہفتہ 3 اگست 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ماہ رمضان کا تیسرا عشرہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ دس دن جہنم کی آگ سے نجات کے ہیں اگر کوئی نجات چاہے تو؟ لیکن صاحب اب تو چند نفوس کے علاوہ ہر شخص جہنم میں جانے کے لیے بڑے تزک و اہتمام سے اپنے لیے اسباب پیدا کررہا ہے اور ماہ رمضان کو تو ’’نرک‘‘ میں جانے کے لیے خاص طور پر چنا جاتا ہے۔ رمضان کی آمد سے قبل ہی تاجر اشیائے خور و نوش کا ذخیرہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسا ہی حال دوسری چیزوں کا ہے، سوائے بے چارے حشرات الارض جیسے انسان کے ہر شے مہنگی ترین ہوجاتی ہے۔ ’’حشرات الارض‘‘ جیسا لفظ اشرف مخلوق کے لیے کہنا یا لکھنا مناسب تو نہیں ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ حقیقت یہی ہے، انسان کی کوئی عزت، کوئی وقعت نہیں، جوتیاں چٹخاتا پھرتا ہے۔

سخت محنت و جدوجہد کے بعد دن بھر کی دہاڑی موصول ہوتی ہے تب وہ بازار کا رخ کرتا ہے، یہاں چیزوں کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں، وہ بے چارہ غریب زمین پر کھڑا ہے، آسمان تک اس کی پہنچ نہیں، مجبوراً چند ضروری کھانے پینے کا سامان لے کر بازار سے واپس گھر کی طرف رخ کرتا ہے۔ ہر رمضان میں بیوپاری گرانی کو عروج پر پہنچا دیتے ہیں، اس طرح ہوتا یوں ہے کہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا گلا الٹی چھری سے ذبح کردیتے ہیں۔ ساتھ میں حقوق اﷲ کی ادائیگی کا اہتمام بھی دھوم دھام سے کرتے ہیں، افطار پارٹی اور دعوتیں کی جاتی ہیں، تراویح اور نماز بھی پابندی سے ادا کی جاتی ہے لیکن جس رب کی عبادت کی جاتی ہے اس کے احکام بھول جاتے ہیں، بس رمضان میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔ خوب، خوب دولت کماتے ہیں اور تجوریاں بھرتے ہیں، اچھا برا مال بڑی آسانی سے فروخت کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ نہ انھیں احادیث نبویؐ یاد رہتی ہیں اور نہ قرآنی تعلیمات اور نہ ہی ہر روز رونما ہونے والے حوادث سے عبرت کا سامان کیا جاتا ہے ’’سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں‘‘۔ لیکن یہاں تو ہر شخص یہی سمجھ بیٹھا ہے جیسے اسے واپس لوٹنا ہی نہیں ہے۔ بس تادیر یہاں ہی رہ کر زندگی کے مزے لوٹنے ہیں۔

گزرے بائیس دنوں میں مہنگائی کا اس قدر بدترین حال تھا کہ ٹماٹر 100 روپے سے 150 روپے فی کلو بکے ہیں، اسی طرح کیلے 100 روپے درجن، چیکو اور سیب کی بھی یہی قیمتیں مقرر کردی گئیں جب کہ انگور 200 روپے کلو فروخت ہوئے۔ بھنڈی اور ٹماٹروں کا بھی یہی حال ہے، کچھ سبزی اور پھل 50، 60، 70 اور 80 روپے کلو دھڑلے سے بیچے جارہے ہیں۔ اس دفعہ خربوزہ مناسب داموں بکا اور خوب بکا، لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب خربوزے کو منڈی سے غائب کردیا گیا کہ بیچارہ غریب و مفلس انسان خربوزہ بھی نہ خرید سکے اور افطاری کے مزے سے محروم رہے۔ اس کی وجہ؟ انتظامیہ سرکاری نرخ پر عمل کرانے میں ناکام رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں ناکام رہی؟ اس کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ پھل اور سبزی فروشوں کو اپنی من مانی کرنے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کو رشوت کھلانی پڑتی ہے ان کی جیبیں گرم کردیں، اب جس قیمت میں بھی اشیائے خور و نوش فروخت کی جائیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

دودھ، دہی، آٹا، چاول سب کو پہلے ہی سے آسمان پر لے جاکر بٹھا دیا ہے۔ رہی سہی کسر رمضان میں پوری کرلی، اب جس کی دسترس ہوگی وہی حاصل کرسکے گا۔ کم آمدنی والے لوگ تو زیادہ دیر تک آسمان کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے کہ گردن اور جسم میں اتنا دم خم کہاں۔ دیر تک بلندی کی سمت نگاہیں ٹکائی جاسکیں اور پھر کچھ فائدہ بھی تو نہیں۔ روٹی تو ہر شخص کھاتا ہے، خواہ آدھا پیٹ کھائے یا پیٹ بھر کر، زندگی کا دارومدار کھانے پینے سے ہی ہے۔ صاحب حیثیت تو ضرورت سے زیادہ شکم سیر کرلیتے ہیں اور سادی روٹی پر ہی اکتفا نہیں بلکہ روغنی روٹیاں، طرح طرح کے پراٹھے، شیر مال، تافتان سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں کہ اﷲ نے انھیں دیا ہے۔ اس میں جلنے کی کون سی بات ہے، یہ ان کا مقدر ہے کہ انھیں وافر مقدار میں رزق حاصل ہے اب حلال ہو یا نہ ہو، یہ وہ جانیں، لیکن ایک بات ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ کھانے والے اتنا کھالیتے ہیں کہ انھیں اپنی صحت کا بھی خیال نہیں رہتا، خوش خوراکی ان سے خوش اخلاقی چھین لیتی ہے کہ زیادہ کھانا صحت کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے، نتیجے کے طور پر طرح طرح کی بیماریاں لگ جاتی ہیں اور وہ ان بیماریوں کو بڑے شوق سے پال لیتے ہیں۔

اگر اپنا خیال رکھیں، ورزش اور سادہ غذا کو خوراک کا حصہ بنالیں تو اس کے دو فائدے حاصل ہوںگے ایک تو سب سے بڑا فائدہ یہ کہ صحت اچھی رہے گی نہ توند لٹکے گی اور نہ ’’دیو‘‘ کی طرح شکل بنے گی اور نہ کوئی اپنے گھر میں بلانے سے خوف زدہ ہوگا کہ دو روٹی کی جگہ 4 روٹیاں اور ایک پلیٹ سالن کی جگہ پورا ڈش بلکہ کئی کئی ڈش ذرا سی دیر میں چٹ ہوجائیں گے۔ یہ چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ تو ہے نہیں یہ تو پیٹ کا معاملہ ہے لہٰذا آدھا کھائیں گے اور آدھا جھوٹا کھانا برباد کریں گے۔ پلیٹوں میں کھانا چھوڑنا بھی بڑی بدتمیزی ہے، تقریبات کے مواقعوں پر ایسے ایسے ہوشربا مناظر نظر آتے ہیں کہ بندہ مجسم حیرت بن جائے، ہم نے خود اپنی گناہ گار آنکھوں سے تعزیے نما پلیٹیں خوش خوراک لوگوں کے ہاتھوں میں دیکھی ہیں۔ مختلف کھانے پلیٹ میں سجانے کے بعد پلیٹ میناروں کا نقشہ پیش کرتی ہے، کبھی کبھی کھڑکیوں اور دروازوں کا بھی گمان ہوتا ہے، تکے اور بوٹیوں کی سجاوٹ کے دوران کئی چھوٹی بڑی کھڑکیاں نظر آتی ہیں۔

خیر جانے دیجیے، دوسرے فائدے کی طرف آتے ہیں۔ دوسرا فائدہ اگر بندہ بشر حاصل کرنا چاہے تو وہ یہ ہے کہ اپنے حصے کا کھانا غربا، مساکین، اپنے ملازمین یا غریب پڑوسیوں کے گھروں میں بھجوا دیا جائے تو وہ بیچارے بھی انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ورنہ ہمارے یہاں رواج یہ ہے کہ غریبوں کو دینے کے لیے کھانا غریبانہ یا صرف ایک ڈش ہی کھلانے پر شکر خداوندی ادا کرلیا جاتا ہے جب کہ اپنے اور اپنے دوست احباب کے لیے بے شمار ذائقوں کے کھانے پکوائے جاتے ہیں اور اس بھاگ دوڑ میں ہر صاحب ثروت اور صاحب منصب دوڑ لگاتے نظر آتے ہیں، کل تمہارے گھر افطار پارٹی اور پرسوں فلاں کے گھر۔ خیر جانے دیجیے، یہ سلسلہ تو چل ہی رہا ہے۔

خیر و شر کی جنگ ازل سے جاری ہے۔ کون جیتا کون ہارا؟ اﷲ ہی جانے کہ وہ دلوں کے بھید خوب جانتاہے۔ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں، کوئی بھی آنے والا صاحب اقتدار اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ایسا بجٹ بنایا جائے جس سے غریب لوگوں کو زندگیاں گزارنے کی سہولت ہو۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ اور دوسری ضروریات زندگی مہیا کرنا حکمرانوں کا اولین فرض ہے، اگر وہ اپنے فرائض نہ پورے کرسکیں تو اﷲ کے یہاں ان کی سخت پکڑ ہے، کاش وہ اس بات کو سمجھیں۔ مہنگائی کو ہر حکومت پر لگا کر اڑاتی ہے، اونچا بہت اونچا، انھیں مزدوروں، ہاریوں، سرکاری و غیر سرکاری ان ملازمین کا رتی برابر احساس نہیں ہوتا کہ یہ معاشی طور پر ناتواں اور کمزور ہیں، مہنگائی کے اس بلند پرواز پرندے کا مقابلہ کرسکیں گے کہ نہیں۔ اگر نہیں کرسکتے تو گویا بات صاف ہے، ہر حکومت انھیں خودکشی کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ آئے دن غریب اور اس کا خاندان خودکشی کے جال میں پھنس کر اپنی جان گنوالیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔