ڈاکٹر فرمان فتح پوری: "اِک آفتاب تھا جو زمیں میں اُتر گیا"

محقق، نقاد اور دانش ور  ڈاکٹر فرمان فتح پوری  بلادِ علم وادب کو ویران کرگئے۔ فوٹو: فائل

محقق، نقاد اور دانش ور ڈاکٹر فرمان فتح پوری بلادِ علم وادب کو ویران کرگئے۔ فوٹو: فائل

اس صفحے میں شامل تحریریں وہ ہیں جو فرمان صاحب کی زندگی میں لکھی گئیں ، اس لیے ان میں حال کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔

ایسا اتفاق کم ہی ہوا ہے کہ کوئی محقق اور نقاد دس نہ بیس بلکہ پوری چالیس کتابوں کا مصنف ہو اور ان میں سے ہر کتاب معیاری ہو۔ کوئی تصنیف ایسی نہ ہو جس کے بارے میں یہ شبہہ تک بھی نہ گزرے کہ اسے رواداری میں لکھا گیا یا ضرورتاً لکھا گیا یا مصلحتاً لکھا گیا۔ ادیب کی ہر تحریر معیاری نہیں ہوتی۔ کہیں نہ کہیں اس سے کوئی نہ کوئی کم زوری سرزد ہوجاتی ہے، مگر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی حیثیت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ان کی ہر تصنیف ان کم زوریوں سے مبرا ہے۔ یوں کہیں کہ ان میں کم زورچیز لکھنے کی ’’صلاحیت ‘‘ ہی نہیں ہے۔

میں نہ محقق ہوں اور نہ نقاد، محض شاعر اور افسانہ نگار ہوں مگر عمر بھر مطالعہ کیا ہے اور معیاری جرائد کی ادارت کی ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ موضوعات کا جتنا حیرت انگیز تنوع ڈاکٹر فرمان صاحب کے ہاں ہے، ایسا نہ ہوتا تو بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ فرمان صاحب شاعری اور افسانوں اور داستانوں اور تذکرہ کے بارے میں اور ادب کے جملہ اصناف اور متعدد اسالیب کے بارے میں اور غالب، انیس، اقبال، نیاز، حسرت اور جوہر کے بارے میں اور پھر معاصر شعر و ادب کے بارے میں اتنے پختہ اعتماد کے ساتھ لکھتے اور لکھتے چلے جاتے۔ ساتھ ہی اس تنوع کے باوجود ان کے مضامین نامانوس اصطلاحات و تراکیب سے بوجھل بھی نہیں ہوتے اور املا اور رسم الخط کے سے موضوعات پر بھی جب لکھتے ہیں، تو ان کی تحریر میں اتنی سلاست اور روانی ہوتی ہے کہ قاری کو کسی ایک بھی مقام پر غرابت محسوس نہیں ہوتی۔ قدرت نے ڈاکٹر فرمان کو یہ جوہر نہایت افراط سے ودیعت کیا ہے۔

میں نے دیکھا ہے کہ بعض نامی گرامی نقادوں اور محققوں کی بعض تصانیف ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کے مطالعے سے افسوس ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ جیسے پوری کتاب ایک دن یا ایک رات میں بیٹھ کر لکھ لی گئی۔ فرمان صاحب کے ہاں اس طرح کی سہل نگاری کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ ان کا ایک ایک لفظ اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ اسے انتہائی سوجھ بوجھ کے ساتھ سپرد قلم کیا گیا پھر ہمارے بیشتر نقاد حضرات اس مرض میں بھی مبتلا ہیں کہ جو کچھ ان سے کچھ پہلے کے معروف ناقدین نے لکھا، اسے اپنے الفاظ میں دُہرا دیں۔ ان سے پہلے کی تنقیدوں میں جن شعراء و ادباء کا ذکر آیا، انہی کا تذکرہ کریں اور انہی کے مطالعے کے نتائج کی تکرار کردیں ۔ یوں یہ تاثر عام ہے کہ ہمارے نقاد (الاماشاء اﷲ) ذاتی مطالعے سے اپنا ذاتی تاثر حاصل کرنے اور اپنی ذاتی رائے مرتب کرنے کے اہل نہیں رہے یا وہ ماضی کے نقادوں کے فیصلوں سے انحراف کا حوصلہ نہیں کر پاتے۔ ان کے برعکس فرمان صاحب کی تنقیدوں اور تحقیق میں مفاہیم کی جو گہرائیاں ہیں وہ اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کے ہاں جو کچھ بھی ہے وہ ان کے ذاتی مطالعے کے ثمرات ہیں اور انھوں نے شعر و ادب کو اپنی فنی کسوٹیوں پر کسا ہے۔

اردو لغت کے عظیم المرتبت منصوبے کو صحت اور توازن کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے کے سلسلے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی محنت و کاوش ، تاریخ زبان اردو کا ایک سنہری باب ہے۔ اتنے بڑے منصوبے میں کہیں کوئی ذرا سی کمی رہ بھی گئی ہو تو یہ الگ بات ہے ورنہ لغت کی ہر جلد کو مرتب کرنے سے پہلے وہ اتنی بے حساب محنت کرنے کے عادی ہیں کہ ان کی معیاری کارکردگی پر رشک آتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اگر میرے افسانوں یا میری شاعری میں کوئی ایسا لفظ وارد ہوتا ہے جو اس سے پہلے شاذ ہی استعمال ہوا ہو تو وہ براہ راست مجھی سے اس لفظ کا مفہوم معلوم کرتے ہیں اور پھر اس لفظ کی تاریخ کھنگال کر اسے زیب لغت بناتے ہیں۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی شخصیت مبالغے کی حد تک دل آویز ہے ۔ ان کے ہاں اتنا خلوص، اتنی محبت، اتنی اپنائیت ہے کہ ان سے جو بھی ملتا ہے انھیں اپنا سمجھنے لگتا ہے۔ انسان ان سے محبت کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ ان کے پیکر میں محبت کی تجسیم ہوگئی ہے، مگر انہی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مجال ہے جو وہ کسی بھی مرحلے پر حق بات کے اعلان سے گریز کریں۔ ان کی تحریروں اور تقریروں میں جرأت اور حوصلہ مندی کی اتنی افراط ہوتی ہے کہ بعض اوقات یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بڑے سے بڑا ادارہ بھی ان پر دبائو نہیں ڈال سکتا اور کوئی جابر سے جابر شخصیت بھی انھیں سچی بات کہنے سے نہیں روک سکتی۔ مجھے یاد ہے ، لاہور میں رسالہ ’’نقوش‘‘ کی کوئی تقریب تھی جس کی صدارت اس دور کے آمر مطلق جنرل ضیاء الحق کر رہے تھے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اس تقریب میں جو تقریر کی وہ ان کی حق پرستی کی ایک بلیغ مثال تھی اور وہ اس شخص کی صدارت میں سچ بول رہے تھے جس کی خوف ناک گرفت پورے پاکستان پر تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ انھوں نے دورانِ تقریر میرا بھی ایک شعر پڑھا اور میرے نام کے حوالے سے پڑھا۔ یہ شعر اقتدار کے حضور گستاخی کی ذیل میں بھی آسکتا تھا مگر انھوں نے دبنگ لہجے میں یہ شعر پڑھا اور تالیوں کی مسلسل گونج میں واپس اپنی نشست پر آبیٹھے۔

اسی طرح علامہ نیاز فتح پوری کی ایک برسی کے موقع پر انھوں نے اربابِ حکومت کے حوالے سے ایک ایسی تقریر کر ڈالی تھی کہ کوئی بڑا انقلابی بھی شاید ہی وہ سب کچھ کہہ پاتا جو انھوں نے کہہ ڈالا تھا۔ ڈاکٹر فرمان صاحب کی اس جرأت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ خود اعتمادی کی دولت سے مالامال ہیں اور جب وہ بات کرتے ہیں تو جانتے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

میں آخر میں ڈاکٹر صاحب کی ایک اور خوبی کا ذکر ضرور کروں گا میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے نقاد حضرات کی اکثریت شعر شناسی سے محروم ہے۔ وہ شاعری پڑھاتے ہیں، مگر اول تو سیدھا شعر نہیں پڑھ سکتے اور اگر شعر وزن میں پڑھیں تو اس شعر کی کیفیات انھیں اپنی گرفت میں نہیں لے سکتیں۔ متعدد احباب راوی ہیں کہ ایک صاحب یونیورسٹی میں مصحفی پر لیکچر دے رہے تھے۔ جب ان کا لیکچر ختم ہوا تو ایک طالب علم نے عرض کیا سر! آپ نے اتنے اہم شاعر کے بارے میں پینتالیس منٹ تک تقریر فرمائی، مگر حیرت ہے کہ اس کا ایک شعر بھی نہیں پڑھا۔ اس پر استاد مکرم خفا ہوگئے اور بولے،’’عجیب بدذوق لڑکے ہو ، میں نے تو اپنے لیکچر کے دوران مصحفی کے تیس چالیس شعر پڑھے ہیں۔‘‘ طالب علم بے چارہ بھی سچا تھا، استاد صاحب یہ تمام شعر کچھ ایسے نثری انداز میں پڑھ گئے کہ کوئی بڑے سے بڑا شعر فہم بھی ان کی نثر اور شعر کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنے سے قاصر رہتا۔ اتنی طویل تمہید میں نے محض یہ بتانے کے لیے باندھی ہے کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ان ’’شعر مار‘‘ حضرات سے صد فی صد مختلف ہیں۔ قدرت نے انھیں شعر فہمی کی بہت سی دولت ودیعت کر رکھی ہے۔ چناں چہ شاعروں اور ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ ان کے باطن کی عمیق ترین گہرائیوں سے جھانک آنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔

میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو اس دور کا ایک ایسا نابغۂ قرار دوں گا، جس کے ہاں علم و حکمت اور شعر و فن کی تمام خوب صورتیاں مجسم ہوگئی ہیں۔

میں نے اپنے ایک مقالے ’’اردو لغت نویسی کے بعض مسائل‘‘ میں جو چند سال قبل سید عابد حسین خطبات کے سلسلے میں پڑھا تھا۔ لکھا تھا:

’’لُغت نویسی ایک شوق فضول اور پیشۂ جان کاہ ہے۔ انگلستان کے ایک نوجوان ماہر لسانیات سے حالیہ ملاقات کے موقع پر جب اس نے مجھ سے میرا موجودہ شغل دریافت کیا تو میں نے جواباً کہا ،آج کل میں لغت کے مرض میں گرفتار ہوں۔ خدا آپ کو شفا دے اس نے انگریزی کے مخصوص مزاحِ خشک کے انداز میں کہا اور پھر یک لخت چہرے پر سنجیدگی کے آثار طاری کرتے ہوئے ترحم کے لہجے میں یوں لب کشا ہوا، لغت نویس بے چارے کو جیتے جی صلہ بھی مل جائے، ستائش نہیں ملتی۔ ہاں اس جہاں گزراں سے گزر جانے کے بعد اس نشست بقائے دوام کے دربار میں محفوظ ہوجاتی ہے۔

جب مجھے اپنے دوست ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے انجمن ترقی اردو بورڈ (کراچی) کے اردو لغت کے مدیر اعلیٰ مقرر کیے جانے کی خبر 1985ء میں ملی تو میرے اندر کچھ اسی قسم کے ملے جلے حیرت اور ترحم کے جذبات تھے۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری منصۂ لغت پر مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے اس وقت نمودار ہوئے جب اس عظیم لغت کی چھے جلدیں مرتب ہوکر شایع ہوچکی تھیں۔ اس سے قبل وہ اردو کے ادیب اور استاد کی حیثیت سے اپنا مقام بنا چکے تھے، لیکن لغت نویسی کا انھیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ زبان اور علم زبان کے بارے میں ان کی وہ واقفیت نہیں تھی جو ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کو حاصل تھی۔ بڑی جسارت کی بات تھی کہ انھوں نے اس میدان میں بھی قدم رکھ دیا اور مجھے یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ وہ اس میں بھی اپنی غیر معمولی محنت اور انہماک کی بدولت کام یابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے ہیں۔

اردو لغت کی تدوین کے سلسلے میں آٹھویں جلد تک پہنچتے پہنچتے ڈاکٹر فرمان نے بہت جلد یہ اندازہ لگا لیا کہ زیر تدوین اردو لغت کا کام، آکسفورڈ ڈکشنری سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اردو کے حروف تہجی اور اصوات کی تعداد انگریزی سے تقریباً دو گنی ہے۔ ذخیرۂ الفاظ کی نوعیت یہ ہے کہ علاقائی اور بعض دوسری زبانوں کے علاوہ اس میں عربی ، فارسی، ترکی، انگریزی اور سنسکرت کے ہزاروں الفاظ شامل ہیں۔ کہیں یہ الفاظ اپنی اصل حالت میں ہیں اور کہیں بدلی ہوئی صورت میں۔ یہی کیفیت ان کے تلفظ اور معنی کی ہے۔ ایسی حالت میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اردو لغت کے سلسلے میں کسی لفظ کے مادّے کی تلاش اور اس کی اشتقاق نگاری کا کام کتنا مشکل ہے۔ کمپوزنگ اور طباعت کی مشکلات بھی انگریزی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔

اردو لغت کے آٹھویں جلد تک پہنچتے پہنچتے ڈاکٹر فرمان نے مکمل انتظامی اعتماد کے ساتھ لغت کے مسودے کی کمپوزنگ کا کام کمپیوٹر کے ذریعے شروع کرا دیا۔ اس طرح کہ ’’کمپیوٹر کمپوزنگ کے ذریعے نسخ میں شایع ہونے والی کتابوں میں اردو لغت کی آٹھویں جلد، پاکستان میں پہلی کتاب ہے جو سارے ضروری اعراب و نشانات کے ساتھ منظر عام پر آئی ہے یہ اس سے پہلے کی طباعتوں سے روشن تر ہے۔‘‘ ڈاکٹر فرمان کی تحریر میں اب اعتماد کی لے بڑھتی جا رہی ہے۔ نویں جلد صحت متن ، معیار ، اسناد ، کمپوزنگ، طباعت، کاغذ اور جلد سازی کے اعتبار سے اور بہتر ہوگئی ہے۔

چودھویں جلد کی طباعت تک پہنچنے تک ڈاکٹر فرمان نے طباعت کی جملہ تیکنیک پر قابو پا کر سارا کام بورڈ کے احاطے میں مکمل کرنا شروع کر دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔