بغیر دستے کی کلہاڑی

سعد اللہ جان برق  بدھ 6 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

کبھی کبھی تو ہم’’سوچ‘‘ میں پڑجاتے ہیں۔ جی ہاں غیرپاکستانی’’حرکت‘‘ ہم سے ہوجاتی ہے۔ آپ چاہیں تو ہم کو ملک کے خلاف سوچنے والے غدار اور غیرمحب وطن بھی قرار دے سکتے ہیں کہ یہ شخص اکثر ’’سوچنے‘‘ کا ارتکاب کرکے ملک کی یکجہتی و سلامتی کے خلاف انتہائی ناپسندیدہ حرکت کرتا ہے۔لیکن کیا کریں۔ کوشش تو بہت کرتے ہیں، اپنے ہم وطن بھائیوں کی طرح ’’طاعت وزہد‘‘ کے ثواب سے بھی آگاہ ہیں لیکن طبعیت ادھر نہیں آتی تو کیاکریں۔

’’سوچ‘‘ پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

سنا ہے آج حضرت شیخ چلی مرحوم ومغفور کیپیروی کرکے عوام الناس میں مرغیاں تقسیم کی جا رہی ہیں تاکہ ہر کوئی حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر شیخ چلی کا تتبع کرکے قطرے سے’’دریا‘‘ بنا لے اور پھر اس میں آرام سے مچھلیاں اور مرغیاں دونوں پکڑکر امیر ترین ہو جائے اور لیڈر لوگ آرام سے اقتدار کا والی بال کھیلتے رہیں۔ اب یہ مرغیاں وہ بھی مرغ سمیت کن خوش نصیبوں کو ملیں گی، یہ تو پہلے ہی سے سب کو پتہ ہے، عیاں راچہ بیاں۔ یقیناً بینظیر انکم سپورٹ، حالیہ ہیلتھ کارڈ اور یہ کارڈ وہ کارڈ کی طرح یہ تقسیم بھی عمل میں آئے گی،یا وطن کارڈ کی طرح کہ ان کو بھی ملا جنہوں نے کبھی سیلاب ٹی وی پر بھی نہیں دیکھا تھا۔

یہ قصہ تو ہم شاید کبھی سنا بھی چکے ہیں کہ ایک دفتر کا اہل کار ہمیں بتا رہا تھا کہ ہم جب وطن کارڈ کی فہرست بنا رہے تھے تو ایک شخص جو کسی اور کام سے آیا تھا اس نے پوچھا کہ اس میں ہمارے گاؤں کے کتنے لوگ ہیں۔ہم نے کہا کہ تمہارے گاؤں میں  تو سیلاب آیا ہی نہیں اور یہ ان سیلاب زدگان کے لیے ہیں جن کے گھر سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔وہ شخص چلا گیا،دوسرے دن ایم این اے کا فون آیا جو اسی گاؤں کا تھا کہ میراحصہ؟ ہم نے بہت سمجھایا کہ سیلاب تو آپ کے گاؤں کے پاس سے بھی نہیں گزرا ہے۔لیکن وہ نہیں مانا اور کہا کہ میں نام بھیج رہا ہوں وطن کارڈ کے لیے درج کر دو اور پھر اس نے 80 نام بھیج دیے۔ہمارے گاؤں میں بھی ایک دیوار تک نہیں گری تھی لیکن 430 لوگ وطن کارڈ کھاگئے۔

ایک مرتبہ جرمنی کی ایک این جی او نے مہاجرین سے متاثرہ دیہات میں ایسا ہی مرغیوں بلکہ دس دس چوزے دینے کا سلسلہ چلایا۔تو ایک ہی گھر کو پچاس چوزے ملے کیونکہ اس گھر کے سارے افراد کے نام لکھوائے گئے تھے۔اور جن کو ضرورت تھی وہ خالی صحرا میں بانگیں دیتے رہے۔اور آج کل تو ایم این اے ایم پی اے کے ساتھ لوکل گورنمنٹ بھی سر یر آرائے اقتدار ہے تو یقیناً کوئی بھی مرغی ’’ادھر ادھر‘‘ نہیں ہوگی، ساری کی ساری ہی ’’حقداروں‘‘ تک پہنچ جائیں گی۔اور ہم جو سوچ رہے ہیں یعنی ملک وقوم کی عادت اور صفت کے خلاف جرم کا ارتکاب کررہے ہیں، وہ یہ ہے کہ آیا کبھی اس ملک میں کوئی ایسی بھی حکومت آئے گی جو ’’بالغ‘‘ ہو؟۔

صبر یا رب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں

چارہ فرما بھی کبھی داخل زنداں ہو گا

آپ یہاں سوچیں اور اعتراض کریں کہ کچھ چارہ فرما تو داخل زنداں بھی تو ہوگئے ہیں تو وہ بہت نازک بات ہے اگر شروع کریں۔تو پھر بات بہت دور تلک جائے گی اور ہماری ٹانگوں میں اتنی طاقت نہیں کہ اتنے دور تک جا پائیں گے۔اس لیے آپ خود ہی یہ تکلیف کریںتو اچھا ہے۔ ہم صرف اتنا کلیو دے سکتے ہیں کہ جس ملک میں اسکول کے داخلے سے لے کر پاس ہونے اور پھر نوکری خریدنے بلکہ تبادلہ کرانے تک کرپشن ہی کرپشن ہو وہاں اوپر کی چند شاخیں کاٹنے سے کیا ہو گا؟ اور جڑیں کوئی کیوں کاٹے کہ وہ خود جڑیں ہیں یا جڑوں میں بیٹھے ہیں۔

یہ جو ہمارے نئے لکڑہارے ہیں، اس نے بڑے بڑے خطرناک ارداے ظاہرکیے تھے یا بتائے تھے یا اپنی ناسمجھی سے سمجھے تھے کہ میں اس درخت کا تیاپانچہ کردوں گا، اس کی بوٹی بوٹی کردوں گا جس کا نام کرپشن ہے اور جس کا میوہ بڑا زہریلا ہے۔

لیکن اب صرف کلہاڑا لیے کھڑا ہے کہ صرف کلہاڑے کا پھل اس کے پاس ہے لیکن کلہاڑے کا تو صرف پھل کام نہیں کرتا، دستہ بھی چاہیے ہوتا ہے اور دستہ آئے گا کہاں سے کہ جنگل تو سارا انھی ’’پیڑوں‘‘ کا ہے۔ ظاہر ہے کچھ روز یونہی کلہاڑے کا پھل یہاں وہاں چمکے گا یا زیادہ سے زیادہ کسی پیڑ کے تنے سے رگڑے گا اور چلاجائے گا اور جنگل اسی طرح لہلہاتا رہے گا۔ درندے اس میں شکار کرتے رہیں گے اور پھر کوئی اور آئے گا کوئی نیا دعویٰ اور وعدہ لے کر اور عوام اپنے اعمال اور عمال کی سزا بھگتے رہیں گے۔

ایک کہانی گاتی ہے اور مختلف ٹکڑوں میں کچھ مناظر بیان کرتی ہے۔لیکن سامعین میں سے ایک آواز ’’پھر کیاہوا‘‘ آتی ہے جو کہانی کو آگے بڑھاتی ہے۔مثلاً

گھر کی چھت پر میں کھڑی گلی میں دل برجانی

اس نے بولا نیچے آ نیچے آ دیوانی

پھر کیاہوا۔پھر جھمکا گراہے، ہم دونوں کی تکرار میں۔ اس طرح وہ ایک منظربیان کرتی ہے جس میں اس کی اپنے دلبرجانی سے کوئی کش مکش ہوتی ہے۔اور پھر آواز آتی ہے پھرکیاہوا۔اور پھر۔جھمکاگراہے ہم دونوں کے اس پیار میں۔خوبی اس کی یہی ہے کہ وہ سارے مناظر سامنے آتے ہیں جن میں ’’جھمکا‘‘ نہ گرنے کے امکانات ہوتے ہیں گویا جھمکے کو لے کر ایک پوری کہانی بیان کی گئی ہے۔

اس سے ثابت ہوتاہے کہ شاعر اچھا ہو اور اس کا تخیل بے پناہ ہو تو ایک ’’جھمکے‘‘ سے بھی چاہے تو کہانیاں اور مناظر تخلیق کرسکتاہے۔

دل نے اک اینٹ پہ تعمیر کیاتاج محل

تونے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے

اگر اینٹ پر تاج محل تعمیر کیاجاتاہے اور ایک انڈے سے پولٹری فارم بنایا جاسکتاہے تو ایک جھمکے سے بھی بہت کچھ بنایا بلکہ برآمد کیاجاسکتاہے۔ اس میں جھمکے کے ساتھ’’بریلی کا بازار‘‘ بھی اہم ہے کیونکہ بریلی کے بارے میں وہ’’الٹے بانس ریلی‘‘ والا محاورہ بھی تو موجود ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ بانس الٹے ہوں گے حالانکہ مطلب یہ ہے کہ بریلی میں خود بانس پیدا ہوتے ہیں، اب اگر کوئی وہی بانس دوبارہ بریلی کو بھیجے تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی نئی اسمبلی میں پرانے ممبر بھیج کر اسے نئی اسمبلی کہا جائے،یاپرانے لوگوں کو نیا کہہ کر کچھ نیا بنانے کی کوشش بلکہ دعویٰ کیاجائے۔ ہم یونہی نیانیا کرتے رہتے ہیں حالانکہ بریلی بھی وہی ہوتی ہے اور بانس بھی وہی، بازار بھی وہی اور جھمکا بھی وہی۔

پھر وہی سنگ وہ سر دماغ جنوں

وہی ہم ہوں گے وہی دشت وبیاباں ہوں گے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔