سشما سوراج کا او آئی سی میں خطاب... چند سوالات

صابر ابو مریم  جمعرات 7 مارچ 2019
سشما جی! بہتر ہوگا کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں پھر او آئی سی یا کسی بین الاقوامی فورم پر آکر امن کا درس دیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سشما جی! بہتر ہوگا کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں پھر او آئی سی یا کسی بین الاقوامی فورم پر آکر امن کا درس دیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے گزشتہ دنوں ابوظہبی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس سے خطاب کیا جس کےلیے انہیں خصوصی دعوت ابوظہبی اور سعودی حکمرانوں کی طرف سے دی گئی تھی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ او آئی سی کے فورم پر کسی غیر مسلم ملک یا غیر رکن ملک کی وزیر خارجہ نے خطاب کیا ہو۔ اس خطاب سے متعلق سب اہم بات اس کے وقت کا تعین تھا۔ پاکستان کے عرب دوست ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو ایسے وقت میں مدعو کیا کہ جب چند روز قبل ہی پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی خبریں آنا شروع ہوئی تھیں جو بڑھتے بڑھتے پھر بھارتی فضائیہ کی پاکستانی علاقوں کی حدود کی خلاف ورزی اور بمباری جیسی خبروں تک جا پہنچیں۔ اس کے جواب میں پاک فضائیہ نے بھی ایک کارروائی میں بھارتی فضائیہ کے ایک مگ اکیس طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا جسے دو روز بعد امن مقاصد کی خاطر بھارت کو واپس دے دیا گیا۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر، کشمیر کی صورتحال بھی ہے کہ جہاں ویسے تو ستر برس سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والی مظلوم کشمیر قوم ہے تو حالیہ چند ماہ میں یہ ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنا بھاری افواج کا معمول بن چکا ہے، پاکستانی حدود میں بھارت کی شیلنگ اور اس کے نتیجے میں معصوم شہریوں کی شہادت بھی روزانہ کی خبروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ تاہم ایسے ایام میں کہ پاک بھارت کشیدگی کے باعث دونوں ممالک میں تناؤ کی کیفیت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ دونوں ممالک کی فضائی حدود کو ہر قسم کی پروازوں کےلیے بند کر دیا گیا تھا، اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا اجلاس منعقد ہوا جو یقیناً پہلے سے طے شدہ تاریخ کے مطابق تھا۔

او آئی سی اجلاس کی انوکھی اور منفرد بات یہ ہوئی کہ پاکستان کے دوست عرب ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ آ کر خطاب کریں۔ دوسری طرف اس پوری صورتحال میں پاکستان کا نقطۂ نظر ٹھوس اہمیت کا حامل تھا کہ اگر بھارت کو اسلامی ممالک کے بین الاقوامی فورم پر بلانا ہی ہے تو پھر مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا؟ کیا پاکستان مسئلہ کشمیر کو فراموش کر دے؟ یا کشمیریوں کی ستر سالہ جدوجہد سے صرف نظر کرے؟ بہرحال، اس قسم کے متعدد سوالات اس بات کا موجب بنے ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے معذرت ہی کرلی جس پر سیاسی ماہرین کی جانب سے تنقید اور تعریف بھی کی جا رہی ہے۔ ان تمام باتوں سے بالا تر ہم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے خطاب سے چند سوالات اخذ کرتے ہیں۔

سشما سوراج نے اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں افتتاحی خطاب کیا اور انہیں عرب ممالک کی طرف سے بہت اہمیت دی گئی۔ سشما نے جہاں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد اور ان کی ثقافت کی بات کی وہاں انہوں نے یہ پیغام دیا کہ سب کو اپنے مذہب کے مطاب رہنا چاہیے کسی کو حق نہیں کہ وہ کسی پر زور زبردستی کرے۔ لیکن سشما جی یہاں یہ بتانا بھول گئیں کہ یہ بھارت ہی ہے اور ان کے وزیراعظم ہی ہیں کہ جن کو ’’گجرات کا قصاب‘‘ کا لقب دیا گیا ہے کیونکہ ان کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ کارناموں کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آج جبکہ وہ بھارت کے وزیراعظم بھی ہیں، تب بھی مسلم کش پالیسی سے باز نہیں آتے تو سشما جی سے گزارش ہے کہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں پھر او آئی سی یا کسی بین الاقوامی فورم پر آکر یہ درس دیں تو اچھا لگے گا۔

سشما سوراج نے اپنی گفتگو میں سعودی عرب اور بنگلہ دیش کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جبکہ انہوں نے اس کانفرنس میں خطاب کی خصوصی دعوت دینے پر شیخ عبداللہ بن زید کا زبردست الفاظ میں شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں اپنا بہترین دوست قرار دیا اور کہا کہ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں۔ انہوں نے لوگوں کی آزادی، عزت و شرافت، یکجہتی اور عدل و انصاف کے نکات پر بھی زور دار گفتگو کی۔ بات صرف یہاں تھمی نہیں بلکہ انہوں نے مزید تعلیم، صحت اور خوشحالی کے موضوعات کو بھی زیر بحث لاتے ہوئے گفتگو کی اور مسلم دنیا کو باور کروایا کہ بھارت ان ممالک کے ساتھ مل کر یہ سب کام انجام دینا چاہتا ہے۔ تاہم یہاں ایک مرتبہ پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما جی یہ بھول چکی تھیں کہ کشمیر آج بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے اور شاید جب وہ خطاب کر رہی تھیں تو عین اس وقت ممکن ہے کہ کوئی مظلوم کشمیری، بھارتی جارح افواج کے مظالم کا نشانہ بن رہا ہوگا۔

سشما سوراج نے آزادی اور عزت و عظمت سمیت انصاف کی بات کی تو آئیے ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ آٹھ ہزار کشمیری لوگوں کا کیا قصور ہے جنہیں آپ کی افواج اور ایجنسیوں نے لاپتا کر رکھا ہے؟ ان بچوں کا کیا قصور ہے جن کی آزادی آپ نے سلب کر رکھی ہے؟ ان ماؤں اور بہنوں کا کیا قصور ہے کہ جن کی عزت و شرافت کو آپ نے تاراج کیا ہے؟ کیا سشما سوراج کے اس فورم پر اس طرح کی بات کرنے سے بھارت کے تمام جرائم اور مظالم جو کشمیر میں روا رکھے گئے ہیں، ان کو معافی دے دی جائے گی؟ کیا یہ مسئلہ فلسطین کی طرح امریکی سرپرستی میں عرب حکمرانوں کی کوئی سازش تو نہیں کہ فلسطین کی طرح کشمیر پر بھی سودے بازی کرلی جائے؟

بہرحال، سشما جی کو سوچنا چاہیے کہ ان باتوں کا کیا مقصد تھا؟ سشما سوراج نے اسلامی ممالک کی تنظیم کے معزز اراکین کو یہ بھی نہیں بتایا کہ تعلیم، صحت اور خوشحالی کے ہمارے نعرے مقبوضہ کشمیر میں روزانہ اس وقت دم توڑ جاتے ہیں جب ہم کشمیری عوام سے ان کا جینے کا بنیادی حق بھی چھین لیتے ہیں۔

سشما سوراج چونکہ عرب حکمرانوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں تو انہوں نے پوری کانفرنس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کی معاشی حالت بہت مضبوط ہے تاکہ مسلم دنیا میں اپنی جگہ بنائی جائے۔ انہوں نے خلیجی ممالک کو بھارت کی سب سے بڑی مارکیٹ قرار دیا اور کہا کہ 8 ملین بھارتی شہری ان ممالک میں موجود ہیں۔

سشما سوراج نے ایک بات ایسی کہہ دی جوشاید عرب دنیا کے چند حکمرانوں کو ناگوار گزری ہو۔ سشما نے کہا کہ ہم فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ اسی اجلاس میں ایسے عرب حکمران موجود تھے جو ماضی میں فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیتے آئے ہیں۔ لیکن شاید یہ حکمران اس لیے بھی برداشت کرگئے ہوں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ بھارت اسرائیل کا ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی ہے۔

سشما سوراج نے دہشت گردی کے مسئلے پر بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ اس وقت خطرناک ترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہاں انتہائی مہارت کے ساتھ انہوں نے تمام مسلمان ممالک پر زور دیا کہ وہ سب کے سب بھارت سے مل کر اس دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کےلیے ساتھ دیں۔ انہوں نے اس عنوان سے دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے منسلک کرنے کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی مقدس آیات بیان کیں، سکھوں کے روحانی پیشوا گرو نانک کے خیالات بیان کئے، سنسکرت مذہبی کتاب، سوامی وویکنندا اور بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالکلام آزاد کے چند جملوں کو بیان کرکے یہ تاثر دیا کہ بھارت شدت پسندی اور دہشت گردی کا مخالف ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام کتابوں، فلسفیوں اور روحانی پیشواؤں کے نظریات جو کانفرنس میں سشما سوراج نے بیان کئے، کیا ان تمام کتابوں یا افراد نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی اور قتل و غارت کرنے کا بھی درس دیا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر بھارت کی ریاستی دہشت گردی ستر سال سے کشمیر کے مظلوموں کو کیوں کچل رہی ہے؟

خلاصہ یہ ہے کہ سشما سوراج کو وہی کہنا تھا جو اس نے کہہ دیا، لیکن گھر تو ہمارا بھی صاف نہیں۔ جب او آئی سی کے رکن ممالک کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو اور انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ان ممالک کی جمعیت کس قدر اثر رکھتی ہے، اقوام متحدہ میں ایک چوتھائی سے زیادہ اکثریت ان ہی رکن ممالک کی ہے۔ اگر یہ باتیں انہیں معلوم ہوتیں اور اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا تو قاتلوں کےلیے اسٹیج فراہم نہ کرتے۔ مزید یہ کہ یہ کیسا اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا فورم ہے کہ جہاں چند خلیجی عرب ملکوں کی اجارہ داری کے باعث مسلمان ممالک شام اور یمن شریک نہیں ہوسکتے۔ جہاں قطر، ایران اور ترکی کے خلاف محاذ آرائی کی جاتی ہے۔ بس اتنا کہوں گا کہ او آئی سی میں موجود خلیجی عرب ممالک اور دیگر کا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا انہیں اس قابل ہی بناتا ہے کہ کشمیریوں کے قاتل اور بالخصوس سشما سوراج ان جیسوں سے خطاب کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔