’’قرضے‘‘ کے مت فریب میں آجائیو اسد

سعد اللہ جان برق  جمعرات 7 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

ایک بہت ہی پرانا قصہ یاد آرہا ہے اس وقت ہماری عمر کا وہ مرحلہ تھا جس کی کچھ کچھ باتیں یاد رہ جاتی ہیں اور کچھ بھول جاتی ہیں۔لیکن قصہ سنانے سے پہلے یہ وضاحت لازمی ہے کہ لوگ اس سے طرح طرح کے بتنگڑ بنائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے ویسے ہی صرف بطور قصہ سن لیجیے۔

ایک بار پھر پیشگی معذرت کہ روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ(وہ)لیکن یہ قصہ کم اور باتیں زیادہ ہیں، باتیں سب آپس میں جڑی ہوئی ہیں اور پھر یہ ساری باتیں ہمارے دادا مرحوم کے ساتھ جڑی ہیں جن کے ساتھ ہم اس زمانے میں’’اکلوتا پوتا‘‘ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اور ہر جگہ جڑے رہتے تھے۔پہلی بات تو یہ کہ جب ان کو ایک ہزار روپیہ جرمانہ بھرنا پڑا تھا اس ہزار روپے کی قیمت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جرمانہ بھرنے کے لیے ان کو پچیس جریب(جریب چار کنال) زمین بیچنا پڑی تھی جب کہ آج کل وہاں وہی زمین بیس لاکھ فی جریب ہے۔

لیکن اس کے باوجود جب پیسے پورے نہیں ہوئے تو سارے رشتے داروں دوستوں سے دو دو تین تین روپے قرض لینا پڑے۔اس زمانے میں کرنسی نوٹ نہیں ہوتے تھے چاندی کے کلدار روپے ہوتے تھے اور کسی کے پاس پانچ روپے بہت بڑی دولت سمجھی جاتی تھی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے وہ ایک ہزار کلدار روپے کپڑے کے ایک تھیلے میں باندھے گئے تھے جو صبح جمع کرناتھے اور ہمارا گھرانا ساری رات چولہے کے پاس اس تھیلے کے گرد بیٹھا رو رہا تھا۔

صرف دادا صاحب رو نہیں رہے تھے لیکن انتہائی سنجیدہ اور فکرمند تھے۔ہماری دادی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ شکر ہے اب انتظام تو ہوگیا جو ہوگیا سوہوگیا۔دادا کا وہ جملہ ہمارے دل پر نقش ہوکر پتھر کی لکیر بن چکاہے بولے،مجھے فکر نہ زمین کی ہے نہ روپے کی۔فکر اگر ہے تو یہ ہے کہ کل پرسوں جب یہ بات پھیلے گی کہ محمودخان اتنا ’’قرضدار‘‘ہے تو علاقے میں میری کیا عزت کیا وقعت اور کیا حیثیت رہ جائے گی۔

اس پر مزید تبصرہ کیے بغیر صرف اتنی وضاحت کرنی ہے کہ وہ جرمانہ کسی’’جرم‘‘ پر نہیں ہوا تھا بلکہ ’’خدائی خدمتگاری‘‘کے سلسلے میں ہوا تھا۔ دادا نے ایک شخص کی ضمانت دی تھی اور وہ شخص جرم میں ملوث ہوا تو ان کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔قصہ تو ختم ہوگیا اور ہم اس پر کوئی تبصرہ کرکے جرمانہ نہیں ہونا چاہتے اس لیے بات آگے بڑھاتے ہیں۔دادا کا ایک اور مشہور جملہ ہمیں یاد ہے جو وہ اکثر کہاکرتے تھے بلکہ یہ ان کا تکیہ کلام ہوگیا تھا کہ، ہم ایسے ویسے بلاوے پر اپنے گھر میں بھی کھانا نہیں کھاتے تو کسی اور کے ہاں کیا کھائیں گے۔

بندگی میں بھی وہ آزاد وخود بیں ہیں کہ ہم

اُلٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

تیسرا جملہ وہ ایک حکایت کی صورت میں سناتے تھے کہ ایک شخص کا بیٹا روٹھ کر گھر سے نکل گیا یا کھو گیا۔ تو اس نے اعلان کیا کہ اگر کوئی میرے بیٹے کو شام سے پہلے پہلے گھر لے آیا تو اتنا اتنا انعام دوں گا۔ اس دن تو نہیں لیکن دوسرے دن ایک شخص وہ کھویا ہوا لڑکا لے کر آیا اور انعام کا طالب ہوا۔لڑکے کے باپ نے کہا کہ میرا انعام کل شام سے پہلے پہلے کا تھا اب رات گزر گئی، اس نے ’’پرائی تھالی‘‘ کا مزہ چکھ لیاہوگا اب یہ میرے کسی کام کا نہیں ہے جہاں چاہو اسے لے جاؤ یا کچھ بھی کرومجھے نہیں چاہیے۔

یہ حکایت سناتے ہوئے اکثر داداجی اپنا نظریہ واضح کرتے تھے اور ’’پرائی تھالی‘‘ کا ذائقہ چکھنے کو دنیا کی سب سے بڑی برائی سمجھتے تھے۔اور ہمیں بھی سمجھاتے تھے۔یہاں تک کہ شہر جاتے تھے تو پلو میں روٹی پکواکر اور باندھ کر لے جاتے تھے۔ ہم بھی ساتھ ہوتے تھے دیسی گھی کا زمانہ تھا اور وہ پراٹھا بڑے مزے کا ہوتاتھا، ایک دو انڈوں کا آملیٹ بھی ہوتا تھا۔یا ایک اور پلو میں گُڑ کی ڈلی یا پیاز کا گھٹا۔کہتے تھے ہوٹل کے برتنوں میں ہر قسم اور خوُ بوُ کے لوگ کھاتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ بازاری خوُبوُ میرے اندر بھی سرایت کرے۔آج کل ہمیں ان کا دھیان آجاتاہے تو شکرادا کرتے ہیں کہ اچھا ہوا حیا اور عزت کے ساتھ چلے گئے ورنہ آج یا تو بھوکے مرجاتے اور’’قرضوں‘‘ کا فخریہ پیش کش دیکھ کر خودکشی کرلیتے۔

شرم رسوائی سے جا چھینا نقاب خاک میں

ختم ہے الفت کی تم پر پردہ داری ہائے ہائے

آج کل ہمارے گاؤں میں جو جملہ’’بیسٹ سیلر‘‘ ہے وہ یہ ہے۔قرض داروں کو کیا کبھی کسی نے مارا ہے؟اس لیے قرضہ لو اور ڈکارو مانگتے مانگتے تھک جائیں گے تو آرام سے بیٹھ جائیں گے۔بلکہ اس کا ایک عملی مظاہرہ بھی ہم نے دیکھا ہے ہمارے گاؤں کا ایک شخص جو کہیں باہر ملازم تھا جب ریٹائر ہوکر گاؤں آیا تو خود کو نہایت ہوشیار سمجھتے ہوئے ’’گنے‘‘ کی تجارت شروع کی اور بڑے وسیع پیمانے پر دوسرے سوداگروںسے زیادہ قیمت پر ’’کھیت‘‘خرید لیے۔ ہمارے گاؤں میں سفید پونڈا گنا وسیع پیمانے پر کاشت کیا جاتاتھا۔

جس کی گنڈیریاں بکتی ہیں، چنانچہ سوداگر کھڑے کھیت خرید لیتے تھے اور پھر ٹرکوں یا ریلوے کے ڈبوں میں بھر کردوسرے شہروں میں پہنچاتے تھے اور اچھا خاصا نفع کماتے تھے لیکن اس ریٹائرڈ قابل اور لائق فائق آدمی نے دوسرے سوداگروں سے بڑھ بڑھ کر خریداری کی۔تجربہ بھی کم تھا۔نہ صرف اپنا اندوختہ ہار گیا بلکہ بہت سارے کسانوں کا قرضدار بھی ہوگیا۔

ایک دن وہ گاؤں کے بیچ میں بڑی گلی سے گزر کر آیا تو ہمارے والد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اس طرح گاؤں میں آوارہ اور اکیلا نہ پھرے، کوئی قرض خواہ کسان ہاتھ اٹھاکر بے عزتی کردے گا ہنس کر بولا۔اسی کے لیے تو میں پھرتاہوں کہ کوئی بے عزت کردے گا تو کم ازکم اس کا قرضہ تو جل جائے گا کیونکہ رواج کے مطابق اکثر جرگے میں یہی فیصلہ ہوجاتاتھا کہ بس تم نے اس کی بے عزتی کی اس لیے تمہارا قرضہ ختم۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔