عمران خان پنجاب کابینہ کی کارکردگی پر ناراض ہیں؟

مزمل سہروردی  جمعرات 7 مارچ 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد سے بیٹھ کر پنجاب چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ ہر ہفتے پنجاب آتے اور معاملات کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ابھی تک ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ان کے دورے کوئی تبدیلی نہیں لا سکے ہیں۔ وہ معاملات کی اس طرح نگرانی نہیں کر سکے ہیں جیسے ہونی چاہیے۔ ایک ہفتہ بعد پنجاب میں آکر تمام فیصلے نہیں ہو سکتے۔ اس طرح باقی پورا ہفتہ پنجاب اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب عمران خان آئیں گے اور فیصلے کریں گے۔ بہت سے کام رک جاتے ہیں۔

عمران خان کو خود بھی احساس ہو رہا ہے کہ پنجاب میں حکومت کے معاملات ٹھیک نہیں چل رہے ہیں۔ ویسے تو مرکز میں بھی ٹھیک نہیں چل رہے ہیں لیکن عمران خان کے خیال میں مرکز میں پنجاب سے بہتر چل رہے ہیں۔ اسی لیے عمران خان گزشتہ دورہ لاہور کے دوران پنجاب کابینہ سے ناراض گئے ہیں۔ انھوں نے پنجاب کابینہ کی کارکردگی پر کھلم کھلا عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے پنجاب کابینہ کو کہا ہے کہ وہ ٹھیک کام نہیں کر رہی ہے۔ اس کی کارکردگی بہت بری ہے۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو نقصان ہو رہا ہے۔

فیا ض الحسن چوہان کا استعفیٰ کوئی اچانک فیصلہ نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے اس سے بھی بڑے بلنڈر کر چکے ہیں۔ لیکن ہر بار انھیں معافی ملتی رہی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ فیاض الحسن چوہان کا جارحانہ رویہ ہی تو عمران خان کو پسند تھا۔ وہ تحریک انصاف کے مخالفین کو جس طرح رگیدتے تھے وہ عمران خان کو پسند تھا۔ ان کے خیال میں وہ اسی قابل ہیں۔ اور فیاض الحسن چوہان ان کے ساتھ ٹھیک سلوک کرتے ہیں۔ بلکہ لوگ گواہ ہیں اپنی ہر بدتمیزی پر فیاض الحسن چوہان کو داد بھی ملتی تھی۔ ان کو وزیر بنانے کی واحد وجہ بھی یہی تھی کہ عمران خان چاہتے تھے کہ اپوزیشن کو گھر سے ہی نہ نکلنے دیا جائے۔ اپوزیشن تو گھر میں بند ہو گئی ہے۔ لیکن حکومت کی بری کارکردگی اپوزیشن کے بغیر ہی سامنے آتی جا رہی ہے۔

شاید میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا کی موجودگی میں اس حکومت کو کسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس لیے بیڈ گورننس سب کے سامنے ہے ۔ اور خو د عمران خان بھی اس کو محسوس کر رہے ہیں۔ اب تقاضے بدل گئے ہیں۔ حکومت بھی چلانی ہے۔ حکومت کے مثبت کام بھی لوگوں کو بتانے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مثبت کام بتانے کے لیے مثبت کام کرنے بھی ضروری ہیں۔ تاہم اب عمران خان کو شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ حکومت کا مثبت امیج لوگوں کے سامنے نہیں آرہا۔ انھیں یہ بھی پتہ ہے کہ بھارت سے جنگی ماحول عارضی ہے۔ اس لیے آخر میں حکومت کو اپنے کام ہی عوام کے سامنے رکھنے ہونگے۔ اسی لیے عمران خان اب چاہتے ہیں کہ پنجاب حکومت اپنے اچھے کام عوام کے سامنے لائے۔ اس ضمن میں فیاض الحسن چوہان کی کارکردگی قابل معیار نہیں تھی۔ جس کو شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا۔

بات صرف پنجاب کی نہیں ہے۔ مرکز کی جانب سے مہنگائی بھی اس حکومت کو کھا رہی ہے۔ بجلی گیس کے بڑھتے بل اس حکومت کی بنیادیں ہلا رہے ہیں۔ لوگ مہنگائی سے تنگ ہو رہے ہیں۔ معیشت نہیں چل رہی ہے۔ ملک کا معاشی پہیہ جام ہو گیا ہے۔ ٹیکس کی آمدن بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی ہے۔ صوبوں کو پیسے کم مل رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے بند ہیں۔ کے پی کو دیکھ لیں ایک بی آر ٹی منصوبہ پاؤں کی زنجیر بن گیا ہے۔ قرضے بھی بڑھ رہے ہیں۔ عوام بھی مشکل میں ہیں۔ ایسے میں صرف پنجاب کی کارکردگی کو برا کہنا کوئی انصاف نہیں۔ لیکن پھر بھی پنجاب میں مسائل ہیں۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پنجاب میں عثمان بزدار کی کارکردگی مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ پنجاب کابینہ کی کارکردگی ہے۔ کابینہ عثمان بزدار نے نہیں لگائی ہے۔ یہ ٹیم عمران خان کی چوائس ہے۔ اس کی کارکردگی کی ذمے داری بھی عمران خان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ بیچارے عثمان بزدار تو عمران خان کی ٹیم کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اب آہستہ آہستہ عمران خان کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ پنجاب کابینہ ٹھیک کام نہیں کر رہی ہے۔ اسی لیے پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت میں عمران خان نے کھلم کھلا پنجاب کابینہ کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ بلکہ خوب کھل کر سب کو ڈانٹا۔ انھوں نے صاف کہا کہ وہ مرکز میں جتنے بھی اچھے کام کرتے ہیں وہ پنجاب کی بری کارکردگی کی نذر ہو جاتے ہیں۔

وہ صرف فیاض الحسن چوہان سے ہی ناراض نہیں تھے بلکہ وہ وزیر خزانہ سے بھی ناراض تھے۔ صحت وتعلیم کے وزیروں سے بھی ناراض تھے۔ باقی وزراء کی کارکردگی بھی ان کی نظر میں ٹھیک نہیں تھی۔ انھوں نے سب کو وارننگ دی کہ سب اپنی کارکردگی ٹھیک کر لیں ورنہ وہ سب کی باری باری چھٹی کروادیں گے۔ ویسے اس بار تو عمران خان نے سب کو خوب ڈانٹا ہے۔ خوب لیکچر دیا ہے۔ ان کے لیے یہ بری کارکردگی شدید پریشانی کا باعث ہے۔ انھوں نے وزراء کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی تنبیہہ بھی کی ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں کی کارکردگی پر عدم اعتماد وہ پہلے بھی ظاہر کر چکے ہیں۔ لیکن اب آہستہ آہستہ عمران خان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔

لیکن عمران خان کو بھی علم ہونا چاہیے کہ وہ پنجاب کی ساری کابینہ نہیں بدل سکتے۔ چھوٹی بڑی باتوں پر کتنے وزراء کی چھٹی کروائیں گے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نظام ہی نہیں چل رہا ۔ کوئی کام ہی نہیں ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کو سمجھنا ہوگا ۔ عمران خان ریموٹ کنٹرول سے پنجاب کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن پنجاب کوئی بلوچستان یا کے پی نہیں ہے۔ یہ پنجاب ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔اس کو ریموٹ کنٹرول سے چلانے کا تجربہ نہ ماضی میں کبھی کامیاب رہا ہے اور نہ اس کے مستقبل میں کامیاب ہونے کے کوئی امکانات ہیں۔ یہ درست ہے کہ عمران خان تحریک انصا ف کے قائد ہیں۔حکومت کی براہ راست کارکردگی کی ذمے داری انھی پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن وہ بیک وقت پنجاب اور مرکز پر حکومت نہیں کر سکتے۔ انھیں پنجاب کو خود مختاری دینی ہوگی۔

یہ ہر ہفتہ پنجاب کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت کوئی اچھا پیغام نہیں دے رہی ہے۔ اس سے منفی پیغام جا رہا ہے۔ اگر عثمان بزدار کو کپتان بنا دیا ہے تو کابینہ بھی مرضی کی بنانے دیں۔ کھیلنے کی آزادی بھی دینی ہوگی۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ عثمان بزدار بہترین چوائس ہیں۔ انھیں کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ وزیر اعظم ان کی تعریف بھی بہت کرتے ہیں۔ انھیں وسیم اکرم بھی کہتے ہیں۔ لیکن شاید عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ عثمان بزدار ان کی کپتانی میں کھیل رہے ہیں۔ حالانکہ صورتحال اس سے بر عکس ہے۔ عثمان بزدار خود کپتان ہیں۔ انھیں بطور کپتان نہ صرف فری ہینڈ ملنا چاہیے بلکہ ٹیم بھی ان کی مرضی کی ہونی چاہیے۔ جب ٹیم عثمان بزدار کی مرضی کی ہوگی تو کارکردگی کے ذمے دار بھی وہ ہونگے۔ان چھ ماہ میں عثمان بزدار پر کرپشن کا کوئی الزام بھی نہیں ہے۔

پنجاب میں عثمان بزدار کو ہٹانے کی کوشش اپوزیشن نہیں کر رہی بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کوششیں تحریک انصاف کے اندر سے ہی ہوتی رہی ہیں۔ ایک امیدوار تو اب نیب کی حراست میں ہیں۔ باقی کی کارکردگی بطور وزیر اتنی بری ہے کہ عمران خان ان سے نالاں ہی نالاں نظر آرہے ہیں۔ا س لیے اب ان میں سے بھی کسی کا کوئی چانس نہیں ہے۔ لیکن فیاض الحسن چوہان کی قربانی سے بھی پنجاب کی کارکردگی بہتر نہیں ہوگی۔ کہیں نہ کہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ساری بری کارکردگی کی ذمے داری فیاض الحسن چوہان پر عائد نہیں کی جا سکتی ہے۔بہرحال فیاض الحسن کی قربانی طے تھی اور ہو گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔