مستقبل کی ممکنہ سپر پاورز۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد اختر  اتوار 4 اگست 2013
چین، برازیل، یورپی یونین، بھارت اور روس سپرپاور بننے کی دوڑ میں شامل۔ فوٹو: فائل

چین، برازیل، یورپی یونین، بھارت اور روس سپرپاور بننے کی دوڑ میں شامل۔ فوٹو: فائل

اس وقت امریکا واحد سپرپاور کے طورپر دنیا پر حکمرانی کررہا ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک اس کاسکہ چلتا ہے، وہ جس کو چاہے پچھاڑ دے اور جس کو چاہے سنواردے۔

دنیا اس کی دوستی سے بھی ڈرتی ہے اور اس کی دشمنی سے بھی خوف کھاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ تو کبھی اچھا سلوک نہیں کرتا لیکن دوستوں کو بھی صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ تاہم وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا ہے۔مبصرین کے مطابق دنیا میں اور بھی کئی ایسے ملک ہیں جو سپرپاور بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔امریکا کے مقابلے پر مزید سپرپاورز کے سامنے آنے سے واحد سپرپاور کے طور پر امریکا کا غلبہ کمزور ہوگا اور اس کی سینہ زوری سے دنیا کی جان چھوٹنے کی کوئی امید دکھائی دے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت کل پانچ ایسے ملک ہیں جو مستقبل میں سپرپاور بن سکتے ہیں۔ان کی معاشی ترقی ، انسانی ترقی ، جی ڈی پی ، جغرافیہ ، قدرتی وسائل، رقبہ ، آبادی اور دیگر اشاریے واضح کرتے ہیں کہ یہ ملک مستقبل میں سپرپاور بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ان ممالک کو موجودہ اصطلاح میں ’’پوٹینشل سپرپاور‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ ملک چین ، برازیل ، بھارت ، روس اور یورپی یونین ہیں۔مجموعی طورپر یہ ممکنہ سپرپاورز اور امریکا عالمی رسمی جی ڈی پی کا 66.6 فیصد اور عالمی جی ڈی پی (پی پی پی) میں  62.2فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ان تمام ملکوں کا رقبہ دنیا کا ایک تہائی جبکہ دنیا کی کل نصف آبادی ان ملکوں میں رہتی ہے۔ یہ پانچ ممالک ایسی کون سی خصوصیات اور اشاریوں کے حامل ہیں جو ان کو مستقبل کی سپرپاور بناسکتے ہیں ، آئیے ذیل میں اس کاجائزہ لیتے ہیں۔

عوامی جمہوریہ چین

چین کو طویل عرصے سے ذرائع ابلاغ کی جانب سے مستقبل کی سپرپاور کے طورپر دیکھا جارہا ہے جبکہ عالمی مبصرین اور دانشور بھی چین کو ایک ابھرتی ہوئی معاشی اور فوجی سپرپاور قرار دیتے رہے ہیں۔ گلوبل لینگویج مانیٹر نامی ادارہ جو دنیا بھر کے مختلف زبانوں کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے مواد کے علاوہ انٹرنیٹ، بلاگز اور سوشل نیٹ ورکس جیسے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ پر نظر رکھتا ہے ، اس کے مطابق ’’چین کا عروج‘‘ اس وقت عالمی میڈیا کی ٹاپ سٹوری ہے۔حالیہ کچھ عرصے سے سکالرز کی جانب سے چین کے لیے ’’سیکنڈ سپرپاور‘‘ یعنی ’’سپرپاور ثانی‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جارہی ہے جس کے مطابق عوامی جمہوریہ چین ’’سیکنڈ سپرپاور‘‘ کے طورپر بھی ابھر سکتا ہے جس کی عالمی طاقت اور اثر و رسوخ امریکا کے برابر ہوگا۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ دونوں ممالک ’’گروپ آف ٹو‘‘ کی شکل میں مضبوط باہمی تعلقات استوار کرکے دنیا کے بہت سے مسائل حل کرسکتے ہیں۔

تجزیہ کار بیری بوزان نے 2004ء میں چین کے بارے میں ایک تجزیے میں لکھا کہ چین اس وقت مکمل ’’آل راؤنڈ‘‘ کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے جو اسے پوٹینشل سپرپاور کا درجہ دیتی ہے۔بوزان نے دعویٰ کیا کہ چین اس وقت سب سے فیشن ایبل پوٹینشل سپرپاور ہے جس کی باقی غالب بین الاقوامی سوسائٹی سے دوری اسے ان کے لیے ایک واضح سیاسی حریف کے طورپر پیش کرتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ چیلنج چین کو درپیش ترقی کے دوسرے چیلنجز سے ٹکراتے ہیں اور حقیقت میں اس کے عروج سے ایشیا میں مختلف ریاستوں کا حریف اتحاد جنم لے سکتا ہے۔

پراگ کھنہ 2008ء میں اس کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لاطینی امریکا اور افریقہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور تجارت کرکے چین نے یورپی یونین اور امریکا کے ساتھ خود کو بھی ایک سپرپاور کے طورپر منوالیا ہے۔چین کا عروج اس کی بڑھتی ہوئی تجارت اور جی ڈی پی سے بھی واضح ہے۔وہ کہتے ہیں کہ چین کا ’’سب سے مشورہ‘‘ کرنے کا رویہ نہ صرف دیگر ملکوں بلکہ ان ملکوں کے ساتھ بھی اس کے سیاسی اور معاشی تعلقات بڑھانے میں مددگار ہے جن کو عام طورپر امریکا کی جانب سے ’’بدمعاش‘‘ ریاستوں کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین ، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں پر مشتمل ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ آگے چل کر ‘‘مشرقی نیٹو‘‘ کا روپ دھارسکتی ہے۔

معاشی ماہر اور “Eclipse: Living in the Shadow of China’s Economic Dominance” کے مصنف اروند سبرامنین نے 2012ء میں تجزیہ کیا کہ 2020ء میں عالمی معیشت میں چین کا حکم چلے گا اور عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر چین کی کرنسی آئندہ دس سے پندرہ سال کے دوران امریکی ڈالر کی جگہ لے لے گی۔امریکا کی ’’سافٹ پاور‘‘ طویل عرصے تک رہے گی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ منگ دور سے پہلے تک چین ہزاروں سال تک دنیا کی سرکردہ معاشی طاقت رہا ہے۔کسی حد تک گذشتہ چند سو سال چین کے لیے ’’گم راہی‘‘ کا دور رہا ہے جس کے بعد اب وہ پھر عروج کی طرف گامزن ہے۔

اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز لندن کے لارنس سیز نے 2011ء میں ایک تجزیہ پیش کیا کہ اگلے بیس سال کے اندر فوجی سپرپاور کے طور پر چین امریکا سے سبقت لے جائے گا۔معاشی طاقت کے حوالے سے پیکنگ یونیورسٹی کے چائنہ سنٹر فاراکنامک ریفارم کے ڈائریکٹر یاؤ ینگ بیان کرتے ہیں کہ اگر فرض کیا جائے کہ چین اور امریکا کی معیشت بالترتیب 8فیصد اور 3فیصد کی شرح سے ترقی کررہی ہیں ، چین کے افراط زر کی شرح 3.6 فیصد اور امریکا کی 2فیصد ہے(گذشتہ دس سال کی اوسط) اور چینی کرنسی کی قیمت ہرسال ڈالر کے مقابلے میں تین فیصد کی شرح سے بڑھتی ہے تو 2021 تک چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس عرصے تک دونوں ملکوں کی جی ڈی پی چوبیس ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوگی۔

مورخ ٹموتھی گارٹن ایش 2011ء میں مختلف عوامل جیسے آئی ایم ایف کی پیشگوئی کہ چین کی جی ڈی پی (پی پی پی) 2016 میں امریکا سے آگے نکل جائے گی ، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تجزیہ کرتے ہیں کہ دنیا کی ایک سے زیادہ سپرپاورز کی جانب پاور شفٹ ’’اس وقت‘‘ رواں دواں ہے تاہم سافٹ پاور اور پاور پراجیکشن کی صلاحیت ابھی چین میں کم ہے جبکہ انفرادی جی ڈی پی بھی کم ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کے 2009ء کے سروے کا حوالہ بھی انہوں نے تجزیے میں دیا جس میں 22 میں سے 15 ملکوں کے افراد نے رائے دی تھی کہ چین سپرپاور کی حیثیت سے امریکا سے آگے نکل جائے گا۔

سنگاپور کے پہلے وزیراعظم لی کوان یو نے 2011ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایشیا کے طاقتور ترین ملک کے طور پر چین امریکا کی جگہ لینے کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ چین نے اقتصادی معجزہ دکھاتے ہوئے ایک غریب ترین معاشرے کو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بنادیا ہے۔ وہ ایشیا اور دنیا کا نمبر ون ملک بننے کے لیے کیوں نہ سوچے؟ لی کوان یو کا کہنا ہے کہ چین کی حکمت عملی اس کی وسیع اور بڑھتی ہوئے انتہائی ماہر اور تعلیم یافتہ ورک فورس کے گرد گھومتی ہے۔تاہم جہاں تک امریکا سے تعلقات کی بات ہے تو ان میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ چین امریکا کے ساتھ کسی بھی ایسے تنازعے سے گریز کرے گا جس کے چین امریکا تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں۔

امریکا جیسی طاقتور اور ٹیکنالوجیکل سپرپاور کو چیلنج کرنے سے چین کے پرامن طریقے سے عروج کی راہ میں کو ئی رخنہ حائل ہو سکتا ہے۔اگرچہ لی کوان یو یقین رکھتے ہیں کہ چین حقیقی طورپر اس بین الاقوامی نیٹ ورک میں حصہ لینا چاہتا ہے جسے امریکا نے تشکیل دیا تھا تاہم اس سے قبل یہ خود کو اتنا طاقتور بنانا چاہتا ہے کہ کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کرسکے۔ ادھر چین کے فارن پالیسی ایڈوائزر وانگ جی سی نے 2012ء میں ایک بیان میں کہا تھا کہ کئی چینی حکام اپنے ملک کو فرسٹ کلاس پاور سمجھتے ہیں جس کے ساتھ اسی قسم کا فرسٹ کلاس برتاؤ ہونا چاہیے۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ جلد دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا اوروہ کئی شعبوں میں بہت تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔اس کے مقابلے میں امریکا ایک زوال پذیر سپرپاور ہے جس کا اشارہ مختلف عوامل جیسے ناقص معاشی ریکوری ، مالی بدنظمی ، بلند افراط زر ، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم سے واضح طور پر ہوتا ہے۔

وفاقی جمہوریہ برازیل

برازیل کو بھی بڑی تعداد میں تجزیہ کاروں اور ماہرین کی جانب سے اکیسویں صدی کی مکمنہ یعنی پوٹینشل سپرپاور سمجھا جارہا ہے۔2009ء میں اقتصادی ماہر لیزلی ایلیوٹ آرمیجو نے کورنل یورنیورسٹی میں ایک لیکچر میں کہا کہ برازیل بہت جلد لاطینی امریکا کی پہلی سپرپاور بن جائے گا۔آرمیجو نے قرار دیا کہ مختلف منصوبوں کا آغازکرکے برازیل خود کو اپنے خطے کی قیادت کے لیے مضبوط بنا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ برازیل ایک عالمی ایکٹر کے طور پر اقتصادی اقدمات میں اپنی پہلے سے موجود موجودگی کو مزید مضبوط بناکر پہلے ہی بین الاقوامی سیاست سے اپنا بڑا حصہ لے چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ برازیل کے عروج کی ایک غالب وجہ اس کی ٹھوس جمہوری حکمرانی اور مضبوط اکانومی بھی ہے اور بہت جلد وہ وقت آئے گا جب مغربی نصف کرے میں ایک کے بجائے دو سپرپاور ہوں گی۔

بین الاقوامی ماہر الزبتھ ریوی اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ امریکا تو مشرق کی جانب دیکھ رہا ہے لیکن ادھر برازیل ایٹمی سپرپاور کے طور پر ابھر رہا ہے۔ یہی بات ان کے مضمون کا عنوان بھی ہے۔مضمون میں وہ برازیل کی ایٹمی میدان میں ترقی کی اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ برازیل ایک ابھرتی ہوئی سپرپاور ہے جس کی اکانومی چین کی طرح ترقی کررہی ہے اور اس کی ایٹمی صلاحیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ برازیل کی اپنی طاقت اور اپنا راستہ خود بنانے کی صلاحیت کے حوالے سے خوداعتمادی بڑھ رہی ہے۔

برازیل کو اکثر موجودہ یا آنے والے وقت کی اقتصادی سپرپاور قرار دیا جاتا ہے اور بہت سے ماہرین اور صحافی برازیل کوBRIC گروپ(برازیل ، روس ، انڈیا ، چین) کی دیگر ممکنہ سپرپاور کے ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ٹرانس نیشنل فاؤنڈیشن فار پیس اینڈ فیوچر ریسرچ کے جوناتھن پاور اپنے ایک مضمون “Becoming an Economic and Political Super power”  میں دعویٰ کرتے ہیں کہ برازیل کو بھارت اور چین پر ایک مثبت برتری حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ برازیل گذشتہ سوسال کے دوران مثبت انداز میں ترقی کررہا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ 1960-1980 کے دوران برازیل نے اپنی فی کس آمدنی میں دوگنا اضافہ کرلیا ہے۔جوناتھن پاور نے مزید کہا کہ برازیل ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر بھی اس بات کا امکان رکھتا ہے کہ وہ اقتصادی سپرپاور کے طورپر ابھر آئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی ملک برازیل کا اعلانیہ دشمن نہیں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے برازیل کسی بڑی نوعیت کے تنازعے میں ملوث نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ اس نے دیگر بڑی طاقتوں کی طرح کوئی جارحانہ فوج نہیں پالی ہوئی۔

تاہم کچھ ماہرین برازیل کے سپرپاور بننے کے امکانات سے اختلاف بھی کرتے ہیں جن میں نوبل انعام یافتہ معاشی ماہر پال کرگمین بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ برازیل کی موجودہ معاشی طاقت ایسی نہیں کہ وہ اقتصادی سپرپاور بنے۔ اسی طرح توانائی کے امور کے حوالے سے تجزیہ کارمارک برجر کا کہنا ہے کہ برازیل عمومی طورپراپنی توانائی کی صورت حال کو بہتر بنائے گا لیکن اس کے توانائی کی سپرپاور بننے کا امکان نہیں۔ ایک اور بات یہ کہ کوئی ملک سپرپاور بننے سے پہلے بڑی طاقت بنتا ہے جبکہ برازیل کا بڑی طاقت ہونا متنازعہ ہے۔

یورپی یونین

یورپی یونین کو متعدد ماہرین اور محققین کی جانب سے ابھرتی ہوئی سپرپاور قرار دیا جارہا ہے۔متعدد سکالر اور ماہرین جیسے ٹی آر ریڈ ، اینڈریوریڈنگ ، اینڈریوموراوسک ، مارک لیونارڈ ، جرمی رفکن ، جان میکورمک اور رومانو پروڈی اور ٹونی بلئیر جیسے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ یا تو یورپی یونین سپرپاور ہے یا اس صدی میں بن جائے گی۔

مارک لیونارڈ اس سلسلے میں متعدد عوامل گنواتے ہیں جو یورپی یونین کو سپرپاور بناسکتے ہیں۔ یہ عوامل ہیں ، اس کی بڑی آبادی ، اس کی بڑی معیشت (یورپی یونین دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی حامل ہے)، افراط زر کی کم شرح ، حالیہ سالوں کے دوران اس کی امریکی خارجہ پالیسی سے دوری اور بعض یورپی ملکوں میں زندگی کااعلیٰ معیار وغیرہ۔

جان میکورمک تو یہ تک کہتے ہیں کہ یورپی یونین پہلے ہی سپرپاور بن چکی ہے۔ اس کے لیے وہ اس کی اکانومی کے حجم اور دنیا میں اس کی رسائی اور اس کے عالمی سیاسی اثرورسوخ کاحوالہ دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سپرپاور کے لیے اب سردجنگ والی تعریف بدل چکی ہے اور اب کسی بڑی طاقت کے لیے فوجی طاقت ہونا ضروری نہیں رہا۔ان کا کہنا ہے کہ اب پروڈکشن کے ذرائع پر کنٹرول ، تباہی کے ذرائع پر کنٹرول سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔

پراگ کھنہ بھی چین اور یورپی یونین کو سپرپاور قرار دیتے ہیں اور عالمی اثرورسوخ کے معاملے میں اسے امریکا کی ہم سری کرتا دکھائی دیتے ہیں۔وہ یورپی یونین کی بڑی معیشت ، اس کی ٹیکنالوجی کے اعلیٰ تر عالمی معیار اور اس عالمی امداد کا حوالہ دیتے ہیں جو یورپی یونین دنیا بھر میں ترقی کے لیے دیتی ہے۔ وہ میکورمک سے اتفاق کرتے ہیں کہ سپرپاور کے طور پر یورپی یونین کو مشترکہ فوج کی ضرورت نہیں ہے۔اس کے علاوہ یورپی یونین ایک ایسا خطہ ہے جو ثقافتی طور پر متنوع ترین خطوں میں سے ایک ہے جس کی حدود میں دنیا کی چند بڑی بڑی اور موثر ترین زبانیں بولی جاتی ہیں۔

اینڈریو ریڈنگ مستقبل میں یورپی یونین کی توسیع سے پیدا ہونے والے روشن امکانات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔وہ شاندارمستقبل جب باقی تمام یورپ ، پورا روس اور ترکی بھی یورپی یونین کا حصہ بن جائے گا جس سے نہ صرف یورپی یونین کی معیشت ترقی کرے گی بلکہ اس کی آبادی بھی اسی کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ معیار کے اعتبار سے یورپی یونین چین اور بھارت سے مختلف ہے کیونکہ یہ کہیں زیادہ خوشحال اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان کہتے ہیں ترکی کی شمولیت سے یورپی یونین مکمل طورپر سپرپاور بن جائے گی۔رابرٹ جے گٹ مین بھی یورپی یونین کے سپرپاور بننے کے بھرپور امکانات پر یقین رکھتے ہیں۔ فیرس ایرنی پیٹرسین جو امریکا میں ڈنمارک کی سفیر ہیں وہ بھی اسی قسم کے خیالات رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یورپی یونین ایک خصوصی قسم کی سپرپاور ہے جس نے ابھی اپنی متحد فوجی طاقت کو استعمال نہیں کیا۔

ادھر بیری بوزان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے پوٹینشل سپرپاور ہونے کا انحصار اس کے ’’ریاست‘‘ ہونے کی صلاحیت پر ہے۔ابھی یہ غیر واضح ہے کہ سپرپاور بننے کے لیے یورپی یونین کو ریاست جیسے کتنے معیارکی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی یورپی یونین طویل عرصے تک ’’پوٹینشل سپرپاور‘‘ ہی رہے گی کیونکہ اگرچہ اس کے پاس مادی دولت تو بہت ہے لیکن اس کی سیاسی کمزوریاں اور اندرونی سیاسی ڈویلپمنٹ کا غلطیوں سے بھرا اور مشکل عمل بالخصوص مشترکہ خارجہ اور دفاعی پالیسی کا نہ ہونا اسکے سپرپاور بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

فن لینڈ کے وزیرخارجہ الیگزینڈر سٹب یورپی یونین کے حوالے سے بڑا دلچسپ تبصرہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپی یونین بیک وقت سپرپاور ہے بھی اورنہیں بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک جانب تو سب سے بڑی سیاسی یونین ، سنگل مارکیٹ اور دنیا کو امداد دینے کے حوالے سے یورپی یونین سپرپاور ہے لیکن جب دفاعی اور خارجہ پالیسی کے معاملات کی بات کی جائے تو یہ سپرپاور نہیں ہے۔بیری بوزان کی طرح وہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ بین الاقوامی سسٹم میں یورپی یونین ایک واحد ریاست کے طور موجود نہیں اس لیے اس کے سپرپاور بننے کا امکان ابھی مفقود ہے۔اس کے علاوہ یہ فوجی طاقت میں بھی کم تر ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں فوری طورپر فوج بھیجنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں یورپی یونین میں کئی ملک ہیں جو خود کو ایک ’’قومی ریاست‘‘ سمجھنے کا رجحان مکمل طورپر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

کچھ ایسے بھی ہیں جو سرے سے اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ یورپی یونین سپرپاور کا درجہ حاصل کرے گی۔یوکے (برطانیہ) کے سابق وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کہتے ہیں کہ یورپی یونین کبھی سپرپاور رہی نہ ہوگی۔ایک واحد خارجہ پالیسی نہ ہونے اور فوجی طاقت میں کمتر ہونیکی وجہ سے یورپی یونین وہ مواد نہیں رکھتی جو سپرپاور بننے کے لیے ضروری ہے۔سپرپاور ہونے کے لیے دنیا کے کسی بھی حصے میں سب سے پہلے فوج پہنچانے کی صلاحیت ہونا لازمی ہے۔یورپی پارلیمنٹیرین ایکا شروڈر کے مطابق حالیہ اسرائیل فلسطین تنازعے میں یورپی یونین نے خاص طورپر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی اس نااہلیت کا ازالہ کرسکے جو کہ اسے فوجی طاقت کی عالمی پروجیکشن کے حوالے سے درپیش ہے۔’’دی اکانومسٹ‘‘ کے رابرٹ لین گرین کہتے ہیں کہ یورپی یونین کی کمزور فوجی طاقت کی وجہ سے اس کی متحد خارجہ پالیسی بھی موجود نہیںجس کی وجہ سے اس کا سپرپاور ہونا مکمل طورپر مشکوک ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے امریکا جیسی فوری جواب دینے والی عالمی فورس کی تشکیل ناقابل تصور ہے۔

بھارت (عوامی جمہوریہ بھارت)

متعدد میڈیا پبلی کیشنز اور دانشوروں کی جانب سے بھارت کو پوٹینشل سپرپاور کا درجہ دیا جاتا ہے۔’’نیوزویک‘‘ اور ’’انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘‘بھی اس بحث میں شامل ہیں جس میں بھارت کو مستقبل کی سپرپاور کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔انیل گپتا اس بات پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں کہ بھارت اکیسویں صدی کی سپرپاور بننے جارہا ہے۔مثال کے طورپر وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی طویل جمہوریت اوراس سے پیدا ہونے والے عملی اداروں اور اس کی نسبتاً کرپشن سے پاک سوسائٹی کی وجہ سے یہ مستقبل قریب میں ایک شاندار ، تجارتی اور انرجی سے مالامال سپرپاور بننے کے زبردست امکانات رکھتا ہے۔وہ پیشگوئی کرتے ہیں کہ 2015ء تک تیزی سے ترقی کرتی معیشت میں بھارت چین کو پیچھے چھوڑ دے گا اور 2025ء تک مکمل اقتصادی سپرپاور بن جائے گا۔

ایک اور ماہر رابن میریڈتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ چین اور بھارت دونوں سپرپاور بن جائیں گے۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ چین بھارت سے کئی عشرے آگے ہے اور اوسط چینی شہری ایک اوسط بھارتی شہری کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہے۔ایمی چوا کے بقول اگرچہ بھارت کے سپرپاوربننے کے امکانات بہت قوی ہیں تاہم اسے اب بھی بہت سے شدید مسائل کاسامناہے جیسے کہ دیہاتوں میں غربت کی بلند شرح ، مخفی کرپشن اور عدم مساوات وغیرہ۔ چین کی طرح ہی بھارت بھی اپنے شہریوں کو ملک سے ہجرت کرنے سے روکنے میں ناکام ہے اور بڑی تعداد میں بھارتی باشندے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے اس مسئلے کے حل کے لیے کئی اچھے اقدامات اٹھائے ہیں اور اس میں اس کو کامیابی بھی ہوئی ہے مثال کے طورپر صدیوں پرانے زات پات کے نظام کو ختم کرنے کے لیے اس کی کوششیں اور اس کی دنیا کی سب سے بڑی اور متنوع ترین جمہوریت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

فرید زکریا بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سپرپاور بننے کے لیے بھارت کے پاس بہت عمدہ مواقع ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی نوجوان آبادی اوراس کے ساتھ دنیا کی دوسری سب سے بڑی انگریزی بولنے والی آبادی کا حامل ہونے کی وجہ سے اسے چین پربرتری حاصل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ دیگر صنعتی ممالک میں نوجوان افراد کی آبادی بہت تیزی سے گھٹ رہی ہے جبکہ بھارت کے پاس بڑی تعداد میں نوجوان یعنی ورکر موجود ہیں۔فرید زکریا کے بقول بھارت کی ایک اور طاقت یہ ہے کہ دنیا کا غریب ترین ملک ہونے کے باوجود بھارت میں گذشتہ ساٹھ سال سے جمہوریت ہے جبکہ جمہوریت ایک ایساعمل ہے جو طویل المعیاد استحکام کی فراہمی کے لیے موزوں ترین ہے۔

امریکا کے اعلیٰ ماہر اور ریگن دور کے وزیرخزانہ کلائیڈ وی پریسٹووٹز جونئر تو موجودہ صدی کو بھارت کی صدی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جارہا ہے اور یہ اکیسویں صدی کی سب سے بڑی سپرپاور بن سکتا ہے۔

تاہم بھارت کے سپرپاور بننے کی صلاحیت سے اختلاف رکھنے والے بھی کم نہیں۔پراگ کھنہ کا خیال ہے کہ بھارت نہ تو سپرپاور ہے اور نہ اس کے مسقبل قریب میں سپرپاور بننے کا امکان ہے۔بھارت ترقی اور سٹرٹیجک عزائم دونوں میں چین سے کئی عشرے پیچھے ہے۔اس کے بجائے بھارت روس کے ساتھ سپرپاور اور نان سپرپاور کے درمیان ایک ’’جھولتی ہوئی ریاست‘‘ ہی رہے گا۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت ’’بڑا ہے لیکن اہم نہیں۔‘‘ جہاں ایک بڑی پیشہ ورانہ کلاس ہے لیکن ساتھ ہی کروڑوں لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ بہت سے معاملات میں چین کی اہمیت ہے مثال کے طورپر چین کی سرحدیں بھارت کے مقابلے میں درجن بھر ملکوں سے ملتی ہیں اور بھارت کی سمندری حدود اور بلند پہاڑی سلسلے بھی چین کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔چین کے غیرممالک میں مقیم ملک اس کے وفادار باشندوں کی تعداد بھارت سے دوگنی ہے جبکہ کئی ایشین اور افریقی ملکوں کی مارکیٹ پر چین چھایا ہوا ہے۔

لانٹ پرٹچیٹ کتاب “InSpite of the Gods: The Strange Rise of Modern India” میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ بھارت نے متاثر کن افزائش کا مظاہرہ کیا ہے اوراس کے پاس عالمی سطح کے ادارے ہیں لیکن اس کے باوجود متعدد اشاریوں میں یہ حیران کن طورپر کمزور ہے۔غذائی کمی اور امیونزائزیشن پروگرام کی کوریج کے اعتبار سے بھارت سب صحارن افریقہ کے ملکوں کی سطح پرکھڑا ہے۔آبادیاتی اور دیگر ہیلتھ سرویز کے مطابق بھارتی بچوں میں غذائی کمی بدترین سطح پر ہے۔بالغ خواندگی بھی بہت کم ہے۔ایک سٹڈی کے مطابق ملک کے چھبیس فیصد اساتذہ سکولوں سے غیرحاضر پائے گئے ۔ چالیس فیصد ہیلتھ ورکرز بھی اپنے کام سے غیرحاضر پائے گئے۔کرپشن بہت زیادہ ہے۔ سیاست میں زات برادری کادخل بہت زیادہ ہے۔اس طر ح بھارت میں تعلیم کا معیار بھی اس سطح سے بہت نیچے ہے جس کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔

’’دی اکانومسٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجی اخراجات میں دنیا کا ساتوں بڑا ملک ، کم ازکم 80 سے زائد ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور 48.9 ارب ڈالر کے فوجی بجٹ کے باوجود بھارت کے سٹرٹیجک عزائم اس طرح نہیں جس طرح کسی بڑی طاقت کے ہونے چاہئیں۔جاندار ذرائع ابلاغ اور تھنک ٹینک اداروں کے باوجود بھارت اوراس کے لیڈر فوجی اور سٹرٹیجک معاملات میں بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگرچہ بھارت پاکستان اور چین سے محدود جنگیں لڑچکا ہے لیکن اس کے باوجود فوجی اور سٹرٹیجک معاملات میں بھارتی قیادت کی دلچسپی زیادہ دکھائی نہیں دیتی۔سٹرٹیجک کلچر کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھارت کا پروکیورمنٹ سسٹم کمزور ہے اور فوجی جدت کے لیے ملک کا انحصار غیرممالک پر ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت نے اب تک جو بھی فوجی اور دفاعی مصنوعات تیار کی ہیں ان میں سے صرف 29 فیصد کو گذشتہ سترہ سالوں کے دوران کے بھارتی فوج کے زیراستعمال لایاگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق بعض سرویز اور ماہرین کی جانب سے جنوبی افریقہ کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے جو مستقبل میں سپرپاور بن سکتے ہیں۔

روس (رشین فیڈریشن)

روس کے بارے میں ماہرین اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں ایک بار پھر سپرپاور بن سکتا ہے۔یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے اکانومسٹ سٹیون روزفیلڈ کے مطابق روس اپنے سپرپاور کے رتبے کو دوبارہ بحال کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور روایتی دانش کے برخلاف یہ ہدف حاصل کرنا روس کے لیے مشکل نہیں لیکن اس کے روسی عوام اور عالمی سلامتی پر زبردست اثرات مرتب ہوں گے۔روزفیلڈ مزید کہتے ہیںکہ روس کا فوجی صنعتی ڈھانچہ قائم ہے اوراس کو دوبارہ چالو کرنے کے لیے اس کے پاس معدنی وسائل کی بھی کمی نہیں۔

’’سینٹ پیٹرزبرگ ٹائمز‘‘ کے فوجی تجزیہ کار الیگزینڈر گولٹس اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ ایٹمی معاملات میں روسی صدر ولادی میر پوٹن کا امریکا کے ساتھ تصادم اصل میں دوبارہ سپرپاور کا درجہ حاصل کرنے کی کوششوں کاحصہ ہے۔

علاوہ روس نے ہمسایہ ملکوں کے حوالے سے جو خارجہ پالیسی مرتب کی ہے اس کاحتمی مقصد بھی دوبارہ سپرپاور بننا ہے۔’’انرجی انٹلی جنس‘‘ کے مارک رچی کہتے ہیں کہ روس ہمیشہ سپرپاور رہا ہے۔ اب بھی بہت کچھ نہیں بدلا۔روس کھیل میں واپس آچکا ہے ۔ وہ اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اور لوگوں پر اثرانداز ہوکرمزید اور نئے دوست بنا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔