قرآن خزینۂ علم و عرفان

قرآنِ کریم میں متعدد جگہوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے عوام الناس کو تعقّل، تفکّر اور تدبّر کی دعوت دی ہے۔ فوٹو : فائل

قرآنِ کریم میں متعدد جگہوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے عوام الناس کو تعقّل، تفکّر اور تدبّر کی دعوت دی ہے۔ فوٹو : فائل

’’ اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کردیا، پس کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔‘‘ قرآن امام اور رحمت ہے۔ قرآن زیبا ترین کلام ہے۔ قرآن شِفا ہے۔ رسولِ اکرم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں، مفہوم : ’’ صادق ترین بات، بلیغ ترین وعظ و نصیحت اور احسن ترین قصہ کتابِ الہٰی (قرآنِ مجید) ہے۔ ‘‘

حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کا ارشادِ گرامی ہے : ’’ کتابِ الٰہی کی تعلیم حاصل کرو کیوں کہ یہ بہترین کلام اور بلیغ ترین نصیحت ہے، نیز اِس میں غور و فکر کرو کیوں کہ یہ دلوں کی بہار ہے، اِس کے نور سے شِفا حاصل کرو، کیوں کہ یہ دلوں کی بیماریوں کے لیے شِفا ہے۔ اور اِس کی اچھے انداز میں تلاوت کرو، کیوں کہ یہ سب سے پیارا قصہ ہے۔‘‘ (بحار الانوار۔ علّامہ مجلسیؒ)

قرآنِ کریم میں متعدد جگہوں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے عوام الناس کو تعقّل، تفکّر اور تدبّر کی دعوت دی ہے، بل کہ تاکید کی گئی ہے کہ سُنو اور سمجھو، غور و فکر کرو۔ اللہ کے نظام کو سمجھو۔ سنجیدگی اور خلوصِ دل کے ساتھ غور و خوض کرنے والا کسی بھی مسئلے میں راہِ حل کو پالیتا ہے۔

قرآن ہر زمانے میں نیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ کثرت سے دہرایا جانا اور (بار بار) کانوں میں پڑنا، اسے (قرآن کو) پُرانا نہیں کرتا۔‘‘

( بہ حوالہ: نہج البلاغہ۔ خطبہ 156)

قرآنِ کریم کی گراں قدر اہمیت و افادیت اور آفاقیت و ابدیت مسلّمہ ہے۔ اِس کا شاہ کار امام حسینؓ اور ان کے خانوادے نے کربلا میں پیش فرمایا کہ عصرِ عاشور میں اِن کا سرکٹ بھی جائے ، نیزے پر اُٹھا بھی دیا جائے، تب بھی وہ قرآن سے دُور نہیں ہوتے۔ قرآن اِن کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ سورۂ کہف کی تلاوت نوکِ نیزہ پر بھی سنائی اور دِکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ یہ معجزۂ قرآن اور کرامتِ قرآن ہے۔ حضرت امام علی نقیؓ کی تعلیمات کی رُو سے ہمیں یہ آگاہی ملتی ہے، مفہوم: ’’ تمام اُمّت کا کاتب اور واضح اور روشن اتفاق ہے اور اس میں اُمّت میں کسی طور اختلاف نہیں ہے کہ یہی قرآن جو ہے ذی حق ہے، اور اس کی تنزیل میں کسی کی دو رائے نہیں ہیں۔‘‘

آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : ’’ قرآن ایسی تونگری ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی اُس کے ہوتے ہوئے کوئی محتاج رہتا ہے۔‘‘ (بحار۔ جلد 92، صفحہ 19)

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں، مفہوم : ’’جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے وہ غنی ہے اور اس کے بعد پھر اسے کسی قسم کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور اگر تلاوت نہیں کرتا تو وہ غنی نہیں ہے۔‘‘ (بحار۔ جلد 92، صفحہ 187)

حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ یوں راہ نمائی فرماتے ہیں: ’’جان لو کہ قرآن ( کی تعلیمات) کے بعد (کسی اور لائحہ عمل کی) احتیاج نہیں رہتی اور نہ کوئی قرآن سے (کچھ سیکھنے سے) پہلے اس سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔ اِس سے اپنی بیماریوں کی شِفا چاہو اور اپنی مصیبتوں پر اس سے مدد مانگو۔‘‘ (نہج البلاغہ)

قرآن میں اوّلین اور آخرین کا علم ہے۔

آیت اللہ محمدی ری شہری اپنی بہترین تالیف ’’میزان الحکمت‘‘ جلد 8، صفحہ 124 پر رقم طراز ہیں: ’’ شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں : ’’ قرآن میں تم سے پہلے کی خبریں، تمہارے بعد کے واقعات اور تمہارے درمیانی حالات کے احکام موجود ہیں۔‘‘ (نہج البلاغہ۔ حکمت 313 )

کنز العمال، حدیث2454 میں آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں راہ نمائی فرماتے ہیں : ’’ جو اوّلین و آخرین کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے چاہیے کہ قرآن پڑھے اور اس کے معنی میں غور کرے۔‘‘

احادیث اور روایات میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے متعلق بہت زیادہ تشویق دلائی گئی ہے۔ آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں : ’’ تم میں بہتر وہ ہیں، جو خود بھی قرآن کا علم حاصل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اِس کی تعلیم دیتے ہیں۔‘‘ (کنز العمال)

حماد بن عیسیٰؓ نے سند ِمرفوع کے ساتھ امیرالمومنین، امام المتقین حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے فرمایا: ’’ کیا میں تمہیں ایسی تعلیم نہ دُوں جس سے تم قرآن کو کبھی نہ بھولو؟ وہ دُعا یہ ہے۔

(ترجمہ) ’’اے اللہ! جب تک تُو مجھے زندہ رکھے ہمیشہ کے لیے میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرکے مجھ پر رحم فرما۔ جو چیز میرے لیے مفید نہیں ہے اس کے حصول سے باز رکھ، مجھ پر رحم فرما، جس چیز میں تیری رضامندی ہے اُس میں حُسنِ نظر عنایت فرما، جس طرح تُونے مجھے تعلیم فرمایا ہے اسی طرح اپنی کتاب کو یاد کرنے کے لیے میرے دل کو پابند بنا۔ مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اسے ویسے ہی پڑھوں جیسے تیری رضا ہے۔ بارِ الٰہا! میری نگاہوں کو اپنی کتاب کے ساتھ منوّر فرما، اس کے ذریعے میرے سینے کو کشادہ کردے، میری زبان کو اِس (کی تلاوت) کے لیے رواں فرما، میرے جسم کو اِسی کے لیے استعمال کر اور اِس کے لیے مجھے قوت و طاقت عطا فرما، اِس کے لیے میری امداد فرما، کیوں کہ اِس پر صرف تُو ہی میری امداد کرسکتا ہے، تیرے علاوہ کوئی اور معبود برحق نہیں ہے۔‘‘ (بحار۔ جلد 92، صفحہ 209)

قرآنِ کریم کو بار بار پڑھنے کی ترغیب دِلائی گئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں : ’’ جو شخص قرآن مجید کی کوئی سورت بھلا دے گا تو وہ سورت قیامت کے دن ایک زیبا شکل میں اُس کے سامنے آجائے گی جو جنت کے بلند درجے پر ہوگی، وہ شخص اُسے دیکھ کر کہے گا، ’’ تُو کون ہے اور کس قدر حَسین ہے ؟ کاش تُو میری ہوتی!!‘‘ وہ سورت جواب دے گی، کیا تُو مجھے نہیں پہچانتا؟ میں قرآن مجید کی وہی سورت ہوں جسے تُونے بھلا دیا تھا، اگر مجھے نہ بھلاتا تو آج میں تجھے اِس بلند مقام و مرتبے پر لے آتی۔‘‘ (اصولِ کافی)

حاملینِ قرآن کے اَن گنت فضائل ہیں۔ آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی قدر ہے: ’’حاملینِ قرآن، قیامت کے دن عارف لوگ ہوں گے۔‘‘ (کنزالعمال) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : ’’میری اُمّت کے اَشراف، حاملینِ قرآن اور عابدانِ شب زندہ دار ہیں۔‘‘ (الخصال۔ جلد1)

عربی زبان سے ہمیں اِس لیے عشق ہے کہ قرآنِ حکیم عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ قرآنِ کریم کے عشق کا تقاضا ہے کہ ہم سب یہ زبان صحیح طرح سیکھیں اور سمجھیں۔ یہ بے حد ضروری اور مفید ہے، دُنیا میں بھی اور عقبیٰ میں بھی۔ عصری تعلیم کے ساتھ قرآنی یعنی دینی تعلیم کا حصول بھی نسلِ نو کے لیے ناگزیر ہے۔

نبی مکرّم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیثِ مُبارکہ ہے: ’’ جو شخص اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم دے، اللہ روزِ قیامت اُس کے والدین کو عزت کا تاج پہنائے گا اور جنت کا وہ لباس عطا فرمائے گا جس کو کبھی بھی کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔‘‘ (مجمع البیان۔ جلد 1)

آئیے دُعا کرتے ہیں کہ اللہ رؤف و رحیم ہم سب کو اپنے حبیب کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل قرآنِ حکیم کی عمدہ انداز میں قرأت کرنے، حِفظ کرنے، سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔